• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ کے صدر باراک حسین اوباما نے اعلان کیا تھا کہ 2 مئی 2011ء کو امریکی اسپیشل فورسز نے انتہائی مطلوب دہشت گرد ’’اُسامہ بن لادن‘‘ کو قتل کر دیا ہے‘ جو پاکستان کے شہر ایبٹ آباد کے احاطے میں خفیہ طور پر رہائش پذیر تھا۔ قتل کے بعد ان کی لاش حملہ آور فورسز اپنے ہمراہ افغانستان اٹھا لائی تھیں‘ جسے بعد میں سمندر برد کر دیا گیا۔ کمانڈوز کی اُسامہ تک رسائی امریکی عوا م کیلئے ایسی ٹرافی تھی جسے پا کر وہ اتنے خوش ہوئے کہ انہوں نے ’’اوباما‘‘ کو ایک اور مدت صدارت کیلئے منتخب کر لیا۔ 6مارچ 2012ء کو ’’وکی لیکس‘ ‘ (Wiki Leaks) کی شائع کی گئی معلومات کے مطابق اُسامہ بن لادن کے مردہ جسم کو تہہ سمندر غرق نہیں کیا گیا بلکہ یہ لاش افغانستان سے سی آئی اے کے طیارے کے ذریعے امریکہ کی ریاست ’’Delaware‘‘ کے شہر ’’Dover‘‘ لائی گئی تھی‘ جہاں اس کا پوسٹ مارٹم ہوا‘ بعد میں لاش جلا کر اس کی راکھ اڑا دی گئی۔ اُسامہ بن لادن کے بیٹے نے باپ کی لاش حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا‘ جو منظور نہیں ہوا۔ پھر اس نے موت کا تصدیقی سرٹیفکیٹ مانگا‘ وہ بھی دینے سے انکار کر دیا گیا‘ حقیقت یہ ہے کہ اس کی موت کا ریکارڈ موجود ہی نہیں ہے۔
سی آئی اے کے سابق عہدیدار ’’ایڈورڈ اسنوڈن‘‘ نے رواں ہفتے روس کے کثیر الاشاعت اخبار ’’ماسکو ٹربیون‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اُسامہ بن لادن زندہ ہے‘‘۔ امریکی حکومت کی جانب سے انہیں ’’ایبٹ آباد‘‘ میں قتل کر کے اس کی لاش سمندر میں ڈبو دینے کے دعوے جھوٹے اور فریب پر مبنی ہیں۔ میرے پاس اس بات کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں کہ ’’پاکستان کی خفیہ ایجنسی کی مدد سے بن لادن کو ایبٹ آباد سے اغوا کر کے سی آئی اے کے جہاز پر امریکہ کی ریاست ’’Bahamas‘‘ لایا گیا تھا۔ یہاں پر وہ ایک پرآسائش بنگلے میں اپنے خاندان کے بعض افراد کے ہمراہ آسودہ اور آرام دہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ حلیے کی معمولی تبدیلی کے بعد انہیں کوئی بھی آسانی سے شناخت نہیں کر سکتا‘ سی آئی اے ماہانہ ایک لاکھ ڈالر سے زیادہ رقم اس مقصد کیلئے خرچ کرتی ہے‘ یہ رقم سی آئی اے کے ’’فرنٹ بزنس‘‘ کے ذریعے اُسامہ کے ’’ناسو‘‘ (Nassaw ) بینک اکائونٹ میں جمع ہوتی رہتی ہے۔ ایڈورڈ اسنوڈن نے انٹرویو میں یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ 2013ء تک یقینی طور پر ’’اُسامہ‘‘ بہاماس کے بنگلے میں موجود تھا‘ اب بھی وہیں موجود ہے یا اسے کسی دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا‘ اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اسنوڈن کے مطابق اس کے پاس جو قطعی ثبوت موجود ہیں وہ اپنی کتاب میں ظاہر کر دیں گے جو عنقریب شائع ہونے والی ہے۔ جولین اسانج کی ’’وکی لیکس‘‘ کے نام پر ظاہر کی گئی معلومات کو اب تک جھٹلایا نہیں جاسکا بلکہ اس کی وجہ سے کئی دوست ملکوں کے سربراہوں کے سامنے امریکہ کو خفت اٹھانا پڑی اور بعض جگہ صدر اوباما نے خود معافی کی درخواست کی اور آئندہ ان کی جاسوسی نہ کرنے کا یقین دلایا۔ وکی لیکس والے جولین اسانج ہوں یا ایڈورڈ اسنوڈن‘ وہ پاکستان کے پرائیویٹ ٹی وی چینل کے اس میزبان کی طرح نہیں ہیں جن کی میز پر کمانڈر انچیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی درخواست ایک سال پہلے پہنچ جاتی ہے جبکہ توسیع دینے اور لینے والوں کے ذہن میں ابھی خیال تک بھی نہیں گزرا ہوتا کہ وہ ناقابل تردید ثبوت بن کر ٹی وی پر نشر ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
اسنوڈن امریکی فوج میں افسر کے طور پر بھرتی ہوا‘ دوران تربیت ایک حادثے میں دونوں ٹانگیں تڑوا کر فوج کیلئے ناکارہ ہو گیا۔ پھر کڑے امتحان اور طویل سیکورٹی کلیئرنس کے بعد سی آئی اے میں بھرتی ہوا۔ یہاں اس کی ہر طرح سے آزمائش کی گئی حتیٰ کہ جھوٹ پکڑنے والی مشینوں میں سے بھی گزارا گیا‘ تب وہ سی آئی اے کا عہدیدار بنا۔ دوران ملازمت طاقت ور اداروں کے اعلیٰ عہدیداروں کی غلط بیانی‘ فریب دہی کے واقعات‘ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے بددل ہو کر اس نے امریکی عوام کو حقائق سے آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب وہ سی آئی اے کا باغی عہدیدار خیال کیا جاتا ہے‘ جسے امریکہ‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا‘ یورپ سمیت دنیا کے کسی ملک میں سیاسی پناہ کی درخواست کے باوجود جائے امان نہ ملی۔ آخر کار روس کے مرد آہن ’’ولادی میر پیوٹن‘‘ اس کے کام آئے اور ایک سال کیلئے عارضی پناہ دے دی گئی۔ جس میں اب مزید دو سال کی توسیع کر دی گئی ہے۔ امریکہ کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور اپنے دوست ملکوں کے عوام کے علاوہ ان کے سربراہوں کی جاسوسی کرنے‘ ان کی ٹیلی فون کال ریکارڈ کرنے کے گھنائونے جرم کو بے نقاب کرنے والے باغی ہیں اور امریکی منصب صدارت پر پہنچ کر غلط بیانی کرنے والے بے خطا اور قابل احترام۔ مگر دنیا کی اکثریت انہی باغیوں کی جرأت و شجاعت کی وجہ سے جمہوری آزادیوں سے مستفید ہو رہی ہے۔ جن قوموں میں ایڈورڈ سنوڈن اور جولین اسانج نہیں ہوتے ان کی زندگی نسل در نسل غلامی میں گزرتی ہے۔
بن لادن آج 7فروری کو زندہ ہے؟ یہ بات پورے وثوق سے نہیں کہی جا سکتی لیکن موجود واقعات اور شہادتوں کے بعد یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ’’صدر باراک حسین اوباما کا یہ بیان کہ ’’اسامہ بن لادن کی لاش کو سمندر کے حوالے کر دیا گیا ہے۔‘ غلط بیانی پر مبنی او رگمراہ کن تھا۔ امریکی صدر کی کہی پوری کہانی میں اگر ایک اہم کڑی اپنی جگہ سے ہٹ جاتی ہے تو پوری کہانی وہ نہیں رہی جو بیان کی گئی‘ ایسے میں ایڈورڈ اسنوڈن زیادہ قابل اعتبار نظر آتا ہے۔ عام حالات میں بھی بیان کی گئی داستان میں جھول ہے۔ آدھی رات کو ایبٹ آباد کے احاطے میں امریکی فورسز کی کارروائی کے دوران اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ جائے وقوع کو دھو ڈالتے‘ قتل کے نشان مٹاتے‘ خون کے دھبے صاف کرتے(جبکہ پاکستان کی طرف سے کارروائی کا اندیشہ موجود تھا)۔ ایسی صورت میں ’’ایڈورڈ اسنوڈن‘‘ کی شہادت زیادہ قابل اعتبار ہے کہ اُسامہ کو زندہ حالت میں اغوا کر کے افغانستان اور پھر وہاں سے فوراً ہی امریکہ کے کسی خفیہ مقام پر لے جایا گیا تھا۔ تہہ خاک آسودہ یا برسر زمین زندہ دونوں صورتوں میں 2مئی 2011ء کے بعد اُسامہ بن لادن کا براہ راست کردار ختم ہو چکا ہے لیکن اس کے اثرات ’’گلوبل‘‘ ہیں ‘ یعنی پوری دنیا کی وسعت کو اپنے گھیرے میں لئے ہوئے اور اس کے نتائج شاید صدیوں پر محیط رہیں گے‘ مثبت یا منفی؟ فی الحال ہر طرف خسارہ ہی خسارہ ہے‘ دنیا کے دو بڑے مذاہب اور بڑی بڑی تہذیبوں کے درمیان جنگ نہ بھی ہو تو اتنے فاصلے اور ایسی غلط فہمیاں پیدا ہو چکی ہیں جن کا دور ہونا تقریباً ناممکن ہے۔ ہر آئے دن دوری بڑھتی جا رہی ہے‘ ایک دوسرے کے بارے میں شکوک و شبہات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یورپ، امریکہ، آسٹریلیا، کینیڈا جیسے پرامن اور غیرمتعصب ممالک کی نفسیات بری طرح متاثر ہوئی ہے ، اب ان ملکوں میں آباد مسلمانوں کی زندگی بدل گئی‘ ان کی اقدار و تہذیب کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پوری دنیا سیکورٹی کے مسائل سے دوچار ہے، عوام اور اداروں کے تحفظ کے اخراجات ہر ’’مد‘‘ سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ جمہوری آزادیاں‘ انسانی حقوق‘ جمہورتیں سب کچھ خطرے کی زد میں ہے،کسی کو فوری خطرہ درپیش ہے‘ کوئی آنے والے برے وقت کے خیال سے سہما جاتا ہے۔ امریکہ اور یورپ کو اپنی تاریخ میں پہلی دفعہ ایسے ’’ولن‘‘ سے پالا پڑا ہے جس نے ان کی پرامن‘ محفوظ زندگی میں زہر گھول دیا اور امریکہ کے لئے دوہرا عذاب کہ ایک طرف اس کی عالمی قیادت خطرے میں آ گئی ہے تو دوسری طرف اندرونی تحفظ اور بیرون دنیا پھیلے ہوئے ’’مشن‘‘ کے اخراجات کئی گنا بڑھ گئے ہیں او ر قرضوں کا بوجھ ہے کہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے‘ جس سے ملک کی ترقی‘ فوج کی تعداد اور دفاع کے اخراجات کو پورا کرنا مشکل تر ہے۔ بہرحال اس جاری کشمکش اور تصادم میں کون جیتا‘ کون ہارا‘ یہ کہانی پھر سہی۔
تازہ ترین