• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

1986 سے 2018 تک ہونے والے سندھ گیمز میں کراچی کی سلطنت برقرار

1986 سے 2018 تک ہونے والے سندھ گیمز میں کراچی کی سلطنت برقرار

حکومت اور محکمہ اسپورٹس کی جانب سے سندھ میں کھیلوں کا سب سے بڑا میلہ رواں ماہ کراچی میں سجے گا ،17ویں سندھ گیمز میں مجموعی طور پر سندھ کے تمام اضلاع سے 3000سے زائد گرلز اور بوائز کھلاڑی حصہ لیں گے، 1986ء سے لے کر آج تک سندھ گیمز پر سلطنت کرنے والی کراچی کی ٹیم17ویں سندھ گیمز میں بھی اپنی اس برتری کو قائم رکھے گی، نچلی سطح پر سندھ گیمز کھیلوں کے سب سے بڑے مقابلے ہیں، جن کا انعقاد حکومت کی جانب سے ہر سال کرایا جانا ہوتاہے لیکن 32سال میں حکومت صرف 16مرتبہ ان کھیلوں کا انعقاد کرا پائی ہے، رواں سال 17ویں سندھ گیمز منعقد ہورہے ہیں، جن میں کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص، سکھر، لاڑکانہ اور پہلی مرتبہ شہید بے نظیر آباد ڈویژن کی ٹیمیں حصہ لیں گی اور یہ پہلا موقع ہے کہ ان کھیلوں میں پانچ کے بجائے چھ ڈویژن حصہ لے رہے ہیں کیونکہ 2012ء میں ہونے والے 16ویں سندھ گیمز میں شہید بے نظیر آباد کو ڈویژن کی حیثیت حاصل نہیں تھی، اب ڈویژن کی حیثیت حاصل ہونے کے بعد پہلی مرتبہ سندھ گیمز میں پانچ کے بجائے چھ ڈویژن حصہ لیں گے اور کھلاڑیوں کی تعداد بھی 2500سے بڑھ کر تقریبًا 3000ہوگی۔ 

17ویں سندھ گیمز میں مجموعی طور پر ساڑھے چار کروڑ روپے خرچ ہوں گے ، جس میں 29مردوں اور 17گرلز کے گیمز شامل کئے گئے ہیں،تمام کھلاڑیوں کو روزانہ الائنس 800 روپے، اور کنوینس الائونس 200روپے جبکہ ایک دن قبل اور بعد کا ٹریلونگ الائونس بھی دیا جائے گا۔ نچلی سطح پر سندھ گیمز کھیلوں کے سب سے بڑے مقابلے تصو رکئے جاتے ہیں جس میں سندھ کے تمام علاقوں سے مرد اور خواتین کھلاڑی حصہ لیتے ہیں ، ان کھیلوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو سندھ گیمز کا آغاز 1986ء میں لاڑکانہ سے ہوا اور پہلے سندھ گیمز میں کراچی کی ٹیم نے پہلی پوزیشن حاصل کی، 1986ء سے 2012ء تک ہونے والے 16 سندھ گیمز میں کراچی کی سلطنت قائم ہے اور کراچی ریجن کے کھلاڑیوں نے تمام کھیلوں میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے اور چیمپئن شپ کا اعزاز اپنے پاس رکھا ہے، کراچی میں ہونے والے 17ویں سندھ گیمز میں بھی ماہرین کھیل کراچی کے دستے کو فاتح قرار دے رہے ہیں۔

1986 سے 2018 تک ہونے والے سندھ گیمز میں کراچی کی سلطنت برقرار

16ویں سندھ گیمز میں کراچی نے پہلی پوزیشن، حیدرآباد نے دوسری پوزیشن اورسکھر نے تیسری پوزیشن حاصل کی تھی، کراچی اپنے اعزازکا دفاع کرے گی،پچھلے چار سندھ گیمز سے یہ تینوں ٹیمیں وکٹری اسٹینڈ پر آرہی ہیںاور شہید بے نظیر آباد ڈویژن جوکہ پہلی مرتبہ ان کھیلوں میں حصہ لے رہی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ اب یہ ڈویژن وکٹری اسٹینڈ پر جگہ بناپاتا ہے یا نہیں؟۔ اور ان کھیلوں میں بھی کراچی ریجن پہلے نمبر پر آئے گی جبکہ حیدر آباد کے کھلاڑیوں نے دوسرے نمبر پر ان کھیلوں میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور سات مرتبہ دوسری اور چار رمرتبہ تیسری پوزیشن حاصل کی، سکھر اور لاڑکانہ کی ٹیموں نے دو مرتبہ دوسری پوزیشن حاصل کی جبکہ سکھر چھ مرتبہ اور لاڑکانہ ایک مرتبہ تیسرے نمبر پر رہا، 1986ء سے2018ء تک تک تقریباً26 سالوں کے دوران لاڑکانہ ، میرپور خاص، حیدر آباد، کراچی اور سکھر میں16 مرتبہ ان کھیلوں کا انعقاد کرایا گیا۔17ویں مرتبہ یہ کھیل کراچی میں منعقد کرائے جارہے ہیں،مجموعی طور پر کراچی کے کھلاڑیوں کی ان کھیلوں پر مکمل گرفت ہے اور کراچی کے گرلز، بوائز کھلاڑی مسلسل ان کھیلوں میں اپنی سلطنت قائم کئے ہوئے ہیں۔

گزشتہ 16ویں سندھ گیمز حیدرآباد میں منعقد ہوئے تھے جن میں کراچی نے مجموعی طور پر 106 گولڈمیڈل، 34سلور،23 کانسی کے میڈل جیت کر پہلی پوزیشن حاصل کی، حیدرآباد نے 35 گولڈ میڈل، 61 سلوراور44 کانسی کے میڈل جیت کر دوسری پوزیشن حاصل کی۔ جبکہ سکھر نے 9 گولڈ میڈل، 21 سلور، 39 کانسی کے میڈل جیت کر تیسری پوزیشن حاصل کی۔ میرپور خاص نے 7گولڈ میڈل، 24سلور، 45کانسی اور لاڑکانہ نے 6گولڈ میڈل، 22سلور اور 30 کانسی کے میڈل جیتے تھے۔

میرپور خاص وہ واحد ریجن ہے جو ان26 سالوں کے دوران ہونیوالے 16 سندھ گیمز میں کسی میں بھی پہلی تین پوزیشنوں میں وکٹری اسٹینڈ پر نہ آسکا۔ 1986ء میں لاڑکانہ سے ان کھیلوں کے انعقاد کے آغاز کے بعد 1987ء میں یہ کھیل میرپور خاص ،1989 ء میں کراچی، 1991ء میں حیدر آباد، 1993ء میں سکھر، 1995ء میں لاڑکانہ،1996ء میں میرپور خاص، 1999ء میں کراچی، 2000ء میں حیدر آباد،2006ء میں حیدر آباد،2008ء میں سکھر،2009ء میں لاڑکانہ اور 2010ء میں کراچی ،2012 ء میں میرپور خاص اور2012ء میں ہی حیدرآباد میں منعقد ہوئے اب کراچی میں 17 ویں سندھ گیمز منعقد کرائے جارہے ہیں۔سندھ گیمز میں کراچی، حیدر آباد، میرپور خاص، سکھر اور لاڑکانہ ریجن کے دو سے اڑھائی ہزار گرلز اور بوائز کھلاڑی اور آفیشلز حصہ لیتے ہیں لیکن اب اس میں شہید بے نظیر آباد ڈویژن کی شرکت کے بعد کھلاڑیوں اور آفیشلز کی تعداد میں بھی اضافہ ہوجائے گا۔

حکومت اور محکمہ اسپورٹس سندھ کی ناقص پالیسیوں کے باعث ان کھیلوں کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آسکے کیونکہ اگر ہر سال باقاعدگی سے ان کھیلوں کا انعقاد کرایا جائے اور ایسوسی ایشنز کو گرانٹ جاری کی جائے، تمام اضلاع میں انٹر کلب، انٹرڈسٹرکٹ، انٹر ڈویژن کے مقابلے منعقد ہوں، اس کے بعد سندھ گیمز باقاعدگی سے کرائے جائیں تو اس کے مثبت نتائج سامنے آسکتے ہیں، 1986ء سے 2018ء تک 32 سالوں کے دوران صرف 16سندھ گیمز کا انعقاد ممکن ہو سکا ہے ، اسپورٹس حلقوں کے مطابق ان کھیلوں کے انعقاد سے کھیلوں کے میدان میں خاطر خواہ نتائج اس لئے نہیں مل سکے کہ پورا سال کھیلوں کی ایسوسی ایشنزکو کسی قسم کی گرانٹ نہیں ملتی اور سندھ گیمز کے انعقاد کے موقع پر اچانک ٹیموں کی تشکیل میں میرٹ نظر انداز ہوتا ہے اور ان کھیلوں کے مقابلوں میں ایک کھلاڑی کئی کئی کھیلوں میں حصہ لیتا ہے، نچلی سطح پر یہ کھیل بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں لیکن اس کیلئے یہ انتہائی اہمیت ہے کہ کم از کم تین ماہ پہلے ان کھیلوں میں حصہ لینے والی ٹیموں کی تشکیل ہو اور منتخب ہونیوالے کھلاڑیوں کو تین ماہ تک تربیت دی جائے جس کے بعد وہ ان مقابلوں میں حصہ لے لیکن سندھ گیمز کا یہ عالم ہے کہ کئی کئی سال مقابلے نہ کرائے جانے کے بعد اچانک ہی سندھ گیمز کے انعقاد کا اعلان کردیا جاتا ہے اور پلک جھپکتے ہی یہ گیم مکمل ہوجاتے ہیں، کھیلوں کی ایسوسی ایشنز گرانٹ نہ ہونے کے باعث مقابلے نہیں کرا پاتی جبکہ سندھ گیمز پر کروڑوں روپے کے اخراجات آتے ہیں، 17ویں سندھ گیمز میں بھی ساڑھے چار کروڑ روپے کے اخراجات آئیں گے، اگر حکومت سندھ گیمز کے ساتھ ساتھ تمام ایسوسی ایشنزکو سالانہ باقاعدگی سے گرانٹ دے اور ضلعی و ڈویژنل سطح پر ایسوسی ایشنز کی کارکردگی کو مانیٹر کیا جائے تو سندھ گیمزکے بہت زیادہ اچھے نتائج سامنے آئیں گے لیکن اچانک کئی کئی سالوں بعد سندھ گیمز کے انعقاد سے ہم کوئی بہتر نتائج حاصل نہیں کر سکتے، اس سلسلے میں حکومت کو ٹھوس پالیسی مرتب کرنا ہوگی، تاکہ سندھ گیمز کا انعقاد ہر سال کرایا جائے اور تمام ایسوسی ایشنز کی گرانٹ کو بھی یقینی بنایاجائے اور نچلی سطح پر اہل اور باصلاحیت کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں اوپری سطح پرمتعارف کرایا جائے تاکہ سندھ میں کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی ہو ، ساڑھے چار کروڑ روپے سندھ گیمز پر خرچ کرنے کے بجائے اگر یہ رقم سندھ کے چھ ڈویژن میں تقسیم کردی جائے اور پہلے ڈویژن سطح پر مقابلوں کا انعقاد کرایا جائے اس کے بعد صوبائی سطح پر یہ مقابلے منعقد ہوں تو اس کے بہت اچھے نتائج مل سکتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہورہا ہے اور اسپورٹس حلقے سمجھتے ہیں کہ سندھ گیمز میں کھیلوں او رکھلاڑیوں کو اتنا زیادہ فائدہ نہیں ہوتا جتنا زیادہ پیسہ ضائع کیا جاتا ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین