• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گپ شپ

احتساب عدالت کے باہر روزانہ کی بنیاد پرمیاں نواز شریف، سنجرانی اور سینیٹ کا تذکرہ ضرور کرتے ہیں۔ گزشتہ دو روز سے انہیں یہ ذکر بھی بھول گیا ہے کیونکہ جنوبی پنجاب سے بہت سے اراکین ا سمبلی انہیں چھوڑ گئے ہیں، جورہ گئے تھے ان کے ساتھ وزیراعلیٰ پنجاب نے ایک خفیہ ملاقات کی ہے مگر اس ملاقات کا فائدہ اس لئے نہیں ہوگا کیونکہ اراکین کو ایک وفاقی وزیر ڈرائونے خواب دکھا رہا ہے۔ صوبہ محاذ کے نام پر صرف انہی لوگوں کو ووٹ ملیں گے جو لوگ اس تحریک سےوابستہ ہوں گے، باقی لوگوں کو لوگ ووٹ نہیں دیں گے۔ اس خوف کو دور کرنے کے لئے میاں شہباز شریف کوئی ’’نواں لارا‘‘ لگائیں گے۔ ہوسکتا ہے پنجاب اسمبلی سے کوئی ایسی رسمی سی قرارداد منظو ر کروائی جائے جو جنوبی پنجاب کے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہو۔
نواز شریف کے غم کو کم کرنے کیلئے خسرو بختیار نے بھرپور کردار ادا کیا لیکن پیپلزپارٹی نواز شریف کو سینیٹ الیکشن بھولنے نہیں دے رہی بلکہ وہ سینیٹ میں اپنی جیت کی خوشی میں دعوتیں کر رہی ہے۔ زخموں پر نمک چھڑکنے کے لئے ن لیگی سینیٹرز کو دعوت نامے بھی بھیجے جاتے ہیں۔ مصطفیٰ نواز کھوکھر نے نئے سینیٹرز کو عشائیہ دیا۔ اس میں ن لیگ کا ایک سینیٹر بھی تھا۔ پی ٹی آئی کے سینیٹرز بھی تھے، پیپلزپارٹی کے سینیٹرز اور رہنما شریک ہوئے۔ سینیٹ کے نئے چیئرمین اور پرانے چیئرمین دونوں آئے بلکہ رضا ربانی تو کافی دیر پہلے آگئے تھے۔
اگلے دن سابق ایم این اے حاجی اصغر کائرہ کے صاحبزادے ندیم اصغر کائرہ نے مری اور اسلام آباد کے درمیان پہاڑ کی چوٹی پر کھانے کا اہتمام کررکھا تھا۔ اس عشایئے میں بھی خوب گپ شپ ہوئی۔ کچھ رہنما تو پچھلی دعوت والے تھے کچھ نئے بھی آئے۔ سینیٹ کے سابق چیئرمین سید نیئر حسین بخاری، سردار سلیم اور چوہدری منظور احمد کے علاوہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا شریک تھے۔ یہاں قمر زمان کائرہ اور ندیم افضل چن نے خوب شغل لگائے رکھا۔ راجہ پرویز اشرف، سینیٹر شیری رحمٰن اور رحمٰن ملک کے علاوہ راجہ خرم پرویز دونوں دعوتوں میں شریک ہوئے۔ ندیم اصغر کائرہ کے ہاں چند ذاتی دوستوں چوہدری شریف اور چوہدری مہدی سے بھی ملاقات ہوئی۔ واپسی پر ہلکی ہلکی سی بارش ہو رہی تھی۔ مجھے ایک دوست نے مخاطب کیااورکہنے لگا کہ ’’آپ شیری رحمٰن کےبارے میں ہمیشہ کہتے ہیں کہ وہ بہت اچھی سیاستدان ہیں۔ آج میں آپ کے سارے لفظوں کی گواہی دے رہا ہوں۔ واقعتاً شیری رحمٰن قابل تعریف ہیں۔ بڑی مہذب، ہنس مکھ اور ذہین ترین کے علاوہ انتہائی ملنسار ہیں۔‘‘
میاں صاحب کی زبان سے اڈیالہ کا تذکرہ شروع ہو گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے انہیں احساس ہو گیا ہو کہ اب اڈیالہ جانے کے دن قریب آگئے ہیں۔ مگراس موسم میں پیپلزپارٹی کو بھی اتنا خوش نہیں ہونا چاہئے۔ انہیں اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ حسین حقانی نے 10مارچ کو واشنگٹن پوسٹ میں مضمون کیوں لکھا؟ ایک پرانے معاملے کوزندہ کیوں کیا؟ اس کے کیامحرکات ہیں؟ اس کے بعد ہی میموگیٹ اسکینڈل دوبارہ کھل گیا ہے۔ یہ وہی حسین حقانی ہے جس نے پیپلزپارٹی کی تضحیک کی خاطر تصویریں گرائی تھیں۔ یہ شخص کس کس پارٹی سے فائدہ حاصل کرتارہا۔ یہ کبھی وفاقی سیکرٹری اطلاعات بن گیا تو کبھی سری لنکا میں ہائی کمشنر بن گیا، اسلامی جمعیت طلبا سے تعلق رکھنے والے نے کس طرح کبھی ن لیگ تو کبھی پیپلزپارٹی کی قیاد ت سے قربت حاصل کی۔ مشرف دور میں حسین حقانی اطلاعات کے مشیر بننا چاہتے تھے، ناکامی ہوئی توامریکہ چلےگئے۔ وہ مبینہ طور پر ان اداروں میں کام کرتے تھے جنہیں سی آئی اے کی فنڈنگ ہوتی تھی۔ امریکی دبائو کے تحت ہی انہیں سفیر بنایا گیا مگر پھر انہوں نے ایک اور کھیل کھیلنا شروع کردیا۔ وہ ایک طرف صدرِ پاکستان سے بات کرتے تو دوسری طرف سی آئی اے کے ڈائریکٹر لیون پینٹا کے ساتھ روابط میں رہتے۔ ان کی سرگرمیاں خاصی مشکوک نظر آئیں کیونکہ انہیں کیری لوگر بل کاخالق سمجھاجاتا تھا۔ اسی لئے پھرواشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے میں تعینات ملٹری اتاشی بریگیڈیئر نذیر بٹ نے اپنے سفیرکی خفیہ سرگرمیوں پر نظررکھتے ہوئے حقائق پر مبنی کچھ رپورٹس تیارکیں۔ (واضح رہے کہ نذیر احمد بٹ آج کل لیفٹیننٹ جنرل ہیں اورپشاور میں کور کمانڈر تعینات ہیں) بٹ صاحب نے ان رپورٹس کو بھیجنے کے لئے نہ تو ای میل کو استعمال کیا اور نہ ہی سفارتی بیگ کو محفوظ سمجھا۔ انہوں نے رپورٹس ہاتھ سے لکھ کر ڈی جی آئی ایس آئی جنرل پاشا اور آرمی چیف جنرل کیانی کو بھجوائیں۔ یہ انکشافات بڑے خوفناک تھے جب ان انکشافات کو دو جرنیلوں نے صدر ِ مملکت کے سامنے رکھا تو ہرطرف پریشانی پھیل گئی۔ اس میں تمام رابطوں کاذکرتھا، کون کون ساوزیر ملوث تھا، اسٹاف کاکون سا ممبر ملوث تھا، ان سب کا تذکرہ تھا۔ کس طرح حسین حقانی اور منصور اعجاز کا تیار کردہ موقف مائیک مولن تک پہنچا۔ پھر کس کے کہنے پر منصور اعجاز نے 10اکتوبر 2011کے برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز میں اعتراف ِ جرم کیا۔ میا ں نوازشریف کیوں کالا کوٹ پہن کر عدالت گئے۔
یہ واقعات مجھے تین حوالوں سے یاد آرہے ہیں۔ نمبر ایک چوہدری شجاعت حسین کی تازہ کتاب میں یہ انکشاف ہے کہ پیپلزپارٹی کی 2008میں حکومت امریکی دبائو پر بنی۔ نمبر دو پھر سے میمو اسکینڈل کھل گیا ہے۔ نمبر تین آج کل جنرل نذیر بٹ جس علاقے کے کور کمانڈر ہیں وہاں ’’را‘‘ نے نیا کھیل شروع کیا ہے۔ یہ کھیل ’’پشتون تحفظ موومنٹ‘‘ کے نام سے ہے۔ اس سلسلے میں آج کل منظور پشتین کے نام کا بڑا چرچا ہے مگر قابل غور بات یہ ہے کہ اس کے کئی اور کردار ہیں۔ اس کا ایک کردار عمردائود خٹک ہے۔ ’’را‘‘ کا یہ پالتو گزشتہ دو سال سے انڈیا میں ہے۔ یہ پالتو پاکستان کے خلاف بہت بکواس کرتا ہے۔ اس بکواس میں وہ فلسطین اور کشمیر کی آزادی کی تحریکوں کو جعلی قرار دیتا ہے۔ اس کی یہ بکواس انڈین چینلز نشرکرتے ہیں۔ کچھ لوگ زبان کی بنیاد پر پختون نوجوانوں کو بھڑکانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کا نعرہ ’’سر رو بریو افغان‘‘ ہے مگر خوش قسمتی سے ان لوگوں کی سازش کو پذیرائی نہیں ملی بلکہ پختون نوجوانوں نے پاکستان سے اپنی محبت کا والہانہ اظہارکیا ہے۔ اس اظہارکی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاک فوج نے وزیرستان میں امن قائم کیا ہے۔ پاکستان کی بہادر افواج نے پورے وزیرستان کو دہشت گردوں سے نہ صرف پاک کیا ہے بلکہ وہاں بے پناہ ترقیاتی کام ہورہے ہیں۔ آٹھ سو منصوبوں پرعمل ہو رہاہے۔ اسی طرح وہاں کاروباری سرگرمیاں بحال ہوچکی ہیں بلکہ بڑھ رہی ہیں۔ وانا میں کیڈٹ کالج بھی کام کر رہاہے۔’’را‘‘کے کچھ پالتوئوں نے پہلے بلوچستان میں سازش کرنے کی کوشش کی تھی، اسے بری طرح ناکام بنا دیا گیا۔ بلوچستان میں ’’را‘‘ کی سازش کو ناکام بنانے والی ٹیم میں جنرل عابد شامل تھے۔ اب یہی جنرل عابدایف سی کے سربراہ کی حیثیت سے پشاور میں ہیں۔ جنرل عابد کے زیر کنٹرول علاقے میں وزیرستان بھی شامل ہے۔ یہاں بھی ’’را‘‘ کومنہ کی کھانا پڑے گی کیونکہ پاک فوج کا یہ افسردشمن ملک کے خفیہ ادارے ’’را‘‘کو بلوچستان میں پسپا کرنے والوں میں شامل تھا۔ خواتین و حضرات! آپ کو حیرت ہوگی کہ ن لیگ نے جس شخص کو سینیٹ میں ڈپٹی چیئرمین کے لئے محمود اچکزئی کے کہنے پر نامزد کیا تھا، اس کی تقریروں کا ریکارڈ منگوا لیں تو اس کے خیالات بھی عالم دائود خٹک سے ملتے جلتے ہیں۔ یہ وہ نظریہ ہے جس سے چوہدری نثار علی خان کو نفرت ہے۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پتا نہیں میاں نواز شریف کوکیوں اچکزئی کے نظریے سے پیار ہو گیاہے۔ کسی دن اس نظریے پر بھی لکھوں گا فی الحال ناصرہ زبیری کی حسب ِحال شاعری؎
لب کشائی میں زمانے سے نہیں ڈرنا تھا
عمر بھر ہم نے کیا کیا، ہمیں کیا کرنا تھا
سرخرو کارِ جہاں، محفلِ دل بے رونق
بھر دیا رنگ کہاں ہم نے کہاں بھرنا تھا
غیر نے پائوں جمانے تھے یہاں کاوش سے
ہم نے الزام برے وقت کے سر دھرنا تھا
کھا گئی برف بہت وقت سے پہلے سبزہ
مرغزاروں میں غزالوں کو ابھی چرنا تھا
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین