• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب کی خبر نہیں، ہمارے دنوں میں رات کی تیز ہواؤں اورصبح کی بارش کے بعد بازار میں جامن آجاتی تھی، سیر اور کیلو نہیں، منوں کے حساب سے۔ اور جامن والا گاہک کے آرڈر کے مطابق جامن وز ن کرکے انہیں مٹّی کے کلہڑ میں بھرکر، مسالہ چھڑک کے اور اوپر ڈھکّن رکھ کر اسے زور زور سے ہلاتا تھا اور پھر ڈھاک کے پتّے پر انڈیل کر پیش کردیتا تھا۔ اس کارروائی کو بگھارنا کہتے تھے۔ مجمع بڑے شوق سے کھڑا جامن بگھارے جانے کی کارروائی دیکھا کرتا تھا۔وہ زمانہ تو خیر نصیبِ ماضی ہوا۔ مگر اب کے منظر مختلف ہے۔ ہمارے بزرگوں کی زبان میں’ یوں لگے ہے‘ جیسے زمانے کو مٹّی کے کلہڑ میں بھر کر بگھارا جارہا ہے۔ مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تلک وقت ایسا تلپٹ ہورہا ہے اور ہر جانب کچھ ایسی اکھاڑ پچھاڑ ہورہی ہے کہ ہماری حالت اور جامن کی درگت میں کوئی فرق نہ رہا۔
دنیا کدھر جا رہی ہے، کہنا مشکل ہے۔ کم سے کم چار ملکوں کے سربراہ خیانت اور بددیانتی کے مجرم قرار دے کر قید خانے بھیجے گئے ہیں۔ اور کتنے ہی کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں لیکن قانون کی گرفت سے باہر ہیں۔ ایک اور عجب لہر آئی ہے۔ دنیا کے بعض سرکردہ ، نام ور اور مقبول لوگوں کے راز کھلنے لگے ہیں کہ وہ اپنی حیثیت سے فائدہ اٹھا کر خواتین کی عزتوں سے کھیلتے رہے اور دنیا کو خبر بھی نہ ہوئی۔اسی طرح دنیا میں ایک اور ہوا چلی کہ لوگ کمسن لڑکیوں اور کم عمر لڑکوں پر مجرمانہ حملے کرنے لگے۔ پیڈو فائل کہلانے والے ان لوگوں کا دنیا بھر میں ایک جال پھیلا ہوا ہے جو دیدہ دلیری سے بدکاری پر ڈٹا ہوا ہے۔ یہ جنسی تشدد تو ایسا مرض بنتا جارہا ہے کہ اس کی روک تھام کا امکان ہاتھ سے نکلا جارہا ہے۔ بھارت میں عورتوں پر توڑے جانے والے مظالم اتنے بڑھ گئے ہیں کہ کہا جاتا ہے ہر پندر ہ منٹ میں ایک عورت کی آبرو پر حملہ ہورہا ہے۔ اوپر سے ایک نیا غضب یہ ہوا ہے کہ یہ شیطان صفت لوگ اپنے ظلم کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر عام کرتے ہیں اور تازہ ترقی یہ ہوئی ہے کہ یہ منظر ہاتھ کے ہاتھ نشر ہورہا ہوتا ہے۔ لوگ بھی ظلم کے منظر دیکھ کر نہیں معلوم کیسی لذّت لیتے ہیں۔ ابھی کچھ روز ہوئے فیس بُک پر دیکھا کہ کچھ اوباش نوجوان رکشا میں بیٹھی ہوئی ایک برقع پوش لڑکی پر وحشیوں کی طرح دست درازی کر رہے ہیں۔ مجھ سے یہ منظر نہیں دیکھا گیا اور میں نے اسے اپنے کمپیوٹر سے مٹادیا۔بھارت میں ایک نئی وبا یہ چلی ہے کہ اونچی ذات کے ہندو نیچی ذات کے مردوں یا عورتوں کے بری طرح زدو کوب کرتے ہیں اور اس کی فلم دنیا کو دکھا تے ہیں۔ خدا جانے یہ سب دکھانے والوں اور اسی طرح دیکھنے والوں کو اس میں کس طرح کی آسودگی نصیب ہوتی ہے۔ ہم ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں تمام مخلوق میں یہ ایک عادت صرف سور یا خنزیر میں ہوتی ہے کہ ایک جوڑا محو اختلاط ہو تو اس کی برادری اس کے گرد دائرہ بنا کر اس عمل کا نظارہ کرتی ہے۔ سور کا گوشت یوں ہی تو حرام نہیں کیا گیا ہے۔ اور ایک مشہور مقولہ ہے کہ آپ جو کچھ کھاتے ہیں، خودبھی وہی ہوجاتے ہیں۔ You are what you eat۔
پاکستان میں یہ وحشیانہ پن اور بھی شدت سے سر اٹھا رہا ہے۔ وہاں یہ دیوانے لوگ کمسن بچوں کو بہلا پھسلا کر اپنی درندگی کا نشانہ بنا تے ہیں اور صرف یہی نہیں، بعد میں بچوں کو قتل بھی کرتے ہیں اور اس طرح اپنے جرم کے نشان مٹاتے ہیں۔ غضب یہ ہے کہ کتنے ہی مجرم یا تو پکڑے ہی نہیں جاتے یا کسی حیلے بہانے سے چھوٹ جاتے ہیں اور دندناتے پھرتے ہیں۔ میں کبھی نہیں بھولوں گا کہ اندرون سندھ سے ایک لڑکی شادی کے بعد گھر والوں کے ساتھ کراچی کی سیر کو گئی جہاں قائد اعظم کے مزار کے احاطے میں ایک دو نے نہیں، پورے چار اوباشوں نے لڑکی کی آبرو ریزی کی ۔جرم ثابت ہوا، سب کچھ ہوا مگر پھر کیا ہوا۔ چاروں بد بخت آج تک آزاد گھوم رہے ہیں۔ میر ا خیال ہے وکلا حضرات انہیں عدالت سے چھڑا لائے۔ یہ وکیل لوگ کسی دوسر ے خمیر سے بنے ہیں۔ حال ہی میں ایک بچّی کے ریپ اور قتل کا مقدمہ چل رہا تھا اور مجرم کا وکیل اسے رہا ئی دلانے کے لئے اپنے ترکش کا ہر تیر چلا رہا تھا۔ وہ اپنی اس بات پر اڑا ہوا تھا کہ ملزم کے ڈی این اے کو شہادت کے طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اس پر ایک تازہ تصویر یاد آئی جو سوشل میڈیا پر دیکھی گئی کہ ایک گدھے کو ایک شخص کھینچ رہا ہے اور دوسر ا شخص گدھے کو دھکیل کر مکان کے اندر لے جانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن گدھا اڑیل ہوگیا ہے اور اپنی جگہ سے ہلنے کیلئے بھی تیار نہیں۔ تصویر کے نیچے لکھا تھا۔’ ہمارا ملک اکیسویں صدی میں داخل ہو رہا ہے‘۔ لیکن میں نے کسی کو تصویر کا حال سنایا تو اس نے کہا کہ تمہیں غور سے دیکھنا چاہئے تھا۔ ممکن ہو وہ گدھے کی مادہ ہو۔
مجھے جو فکر کھائے جارہی ہے وہ یہ کہ ابھی میں اپنا جو دکھڑ ا کہہ کر بیٹھا ہوں، یہ وبا کہیں شدت اختیار نہ کر جائے۔ اب صورت یہ ہے کہ وہی ٹیلی فون جو گھر میں لگوانے کے لئے سو سو جتن کرنے پڑتے تھے، اب ہر ایرے غیرے کے ہاتھ میں کھلونے کی طر ح نظر آنے لگا ہے اور ٹیکنالوجی نے ایسا زور مارا ہے کہ یہ جو کہنے کو موبائل فون ہے، یہ دراصل مکمل کمپیوٹر ہے۔اس کی ذات میں عیب ہے کہ دو چار بٹن دباؤ تو اس کی اسکرین پر دنیا برہنہ ہوجاتی ہے۔ ایک سروے کے مطابق جن دس ملکوں میں سب سے زیادہ پورنو گرافی یعنی فحش تصویریں دیکھی جاتی ہیں ان میں نو ملک اسلامی ہیں اور ان میں سر فہرست پاکستان ہے۔ اس طرح کی باتوں کو جھٹلانے کو جی چاہتا ہے مگر اب کوئی کیا کرے کہ جی بھی تھک ہار کر بیٹھ رہا ہے۔ اصل بات یوں ہے کہ ایک پاکستا ن ہی نہیں، دنیا کے ہر خطے اور ہر علاقے کا نوجوان ایک کٹھن دور سے گزر رہا ہے۔ اسے مسائل کا انبار درپیش ہے جس میں وہ ہاتھ پاؤں چلا رہا ہے۔ کچھ بے روزگاری، کچھ احساسِ تنہائی، کچھ کنبوں اور خاندانوں کے بکھر جانے کا عمل اور سب سے بڑھ کر اس کے سامنے ساری دنیا کا کھل جانا۔اس نے نئی نسل کو عجب تارک گوشے میں دھکیل دیا ہے۔ بر طانیہ کی تازہ مثال ہے جہاں لڑکے چاقو اور خنجر چھپائے گھومتے ہیں اور ذر اذرا سی بات پر وہ خنجر اپنے مخالف کے سینے میں اتاردیتے ہیں۔ ملک میں یہ مسئلہ اتنا سنگین ہوگیا ہے کہ پورا ملک تشویش میں مبتلا ہے۔ اوپر سے بچت کے خیال سے حکومت نے پولیس کی نفری کم کردی ہے ،اتنی کہ اگلے انتخابات میں حکومت کی خیر نہیں۔اسی طرح امریکہ میں کیا چھوٹے کیا بڑے، ہتھیاروں کے بڑے بڑے اسٹوروں میں اپنی پسند کا اسلحہ چنے مرمرے کی طرح نہ صرف خرید رہے ہیں بلکہ موقع ہو نہ ہو اسے دوسروں پر آزما بھی رہے ہیں۔دنیا میں پھیلے ہوئے کمپیوٹر میں لاکھوں کروڑوں صارفین کی جو ذاتی معلومات محفوظ ہیں اور جن کا راز میں رہنا ضروری ہے، وہ سر بازار فروخت ہورہی ہیں۔لگتا ہے دنیابے لباس ہوا چاہتی ہے اور کسی سے کچھ چھپا نہ رہے گا۔شاید وہ دن دور نہیں جب کسی سے یہ پوچھنے کی ضرورت نہ ہوگی کہ آپ کے مزاج کیسے ہیں؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین