• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
2018ء کے عام انتخابات کیلئے ہموار میدان

عام انتخابات میں سیاسی جماعتوں اور اُمیدواروں کو ہموار انتخابی میدان کی فراہمی ہی جمہوریت میں کامیابی کی کلید ہے جس سے ووٹرز اور ان کے حق رائے دہی کو اعتماد ملتا ہے۔ 70 برس کے اس عرصے میں ہم قوم کو یہ اعتماد دینے میں ناکام رہے کیوں کہ ہمارے یہاں انتخابات مشکل ہی سے وقت پر ہوئے۔ حکمراں جماعت کو اپنی اقتدار میں آئینی مدت پوری کرنے نہیں دیا گیا۔ تاہم 2008ء کے بعد انتخابات کسی خلل کےبغیر ہو رہے ہیں۔ توقع ہے انتخابی نظام میں بہتری آئے گی۔ عام تصور کے مطابق ’’ہموار میدان‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے مساوی مواقع نہ ملنے کے حوالے سے خدشات اور تحفظات کو دُور کیا جائے۔ اس کے علاوہ اُمیدواروں پر کوئی بیرونی دبائو نہ ہو۔ انتخابی اخراجات بے دریغ نہیں بلکہ طے کردہ حد میں ہوں۔ 2002ء سے 2013ء تک گزشتہ تین انتخابات کا تجزیہ کیا جائے تو اس نتیجے پر پہنچنا مشکل نہیں ہوگا کہ شرکاء انتخاب کو ہموار میدان فراہم نہیں کیا گیا۔ 1988ء اور اس سے آگے پیپلزپارٹی اس کا بدترین نشانہ بنی۔ 1988ء، 1900، 1997 کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی پارلیمنٹ میں واحد بڑی جماعت بن کر اُبھری۔ اب مسلم لیگ (ن) خدشہ ظاہر کر رہی ہے کہ اسے 2018ء کے عام انتخابات میں ہموار میدان نہیں ملے گا۔ تو کیا ایسا ہی ہے؟ اگر 2002ء میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں کے پاس یہ کہنے کا جواز تھا کہ انہیں ہموار انتخابی میدان نہیں ملا۔ ان کے رہنمائوں کو انتخابی عمل سے باہر رکھا گیا۔ 2013ء میں پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی کے پاس ہموار میدان کے بغیر انتخابات میں شرکت کی جائز وجوہ تھیں۔ انہیں طالبان کی جانب سے قتل کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔ ان کے کچھ رہنماء قتل بھی ہوئے۔ 2008ء میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف سمیت کچھ سیاسی جماعتوں نے انتخابات کا بائیکاٹ بھی کیا۔ پیپلزپارٹی نے اپنی رہنماء بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد انتخابات میں حصہ لیا۔ تحریک انصاف کو انتخابی فہرستوں پر شدید تحفظات تھے۔ اسے 2013ء میں انتظامیہ کی قوت کو استعمال کئے جانے کی بھی شکایت رہی۔ اب 2018ء کے عام انتخابات جولائی میں متوقع ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور معزول وزیراعظم نواز شریف کو ڈر ہے کہ انہیں ہموار انتخابی میدان میسر نہیں آئے گا۔ ماضی میں جب سیاسی جماعتیں ہموار میدان کی عدم دستیابی کا الزام عائد کرتی تھیں، ان کا ہدف حکمراں جماعت ہوا کرتی تھی۔ 60 یا 90 دنوں کے لئے عبوری نگراں حکومت کا تصور حکومت وقت کی مداخلت بے جا کے خدشات کو دُور کرنے کے لئے سامنے لایا گیا تا کہ آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے لئے چیک اینڈ بیلنس کو یقینی بنایا جا سکے۔ لیکن گزشتہ عام انتخابات کے دوران خصوصاًپنجاب میں حکمراں جماعت پر انتخابی ہیراپھیری میں ملوث ہونے کا الزام لگا۔ دیگر خدشات میں انٹلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے دبائو یا اُمیدواروں اور رہنمائوں پر دبائو کے لئے نیب جیسے اداروں کا ناجائز استعمال شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے خدشات اور تحفظات حکمراں اور اپوزیشن دونوں کی جانب سے ظاہر کئے جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اکثر حلقہ بندیوں، انتخابی فہرستوں اور پولنگ اسٹیشنوں میں تبدیلیوں کو ہموار میدان نہ ہونے کا جواز بتاتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ الیکشن کمیشن جو ایسے خدشات کو دُور کرنے کا مناسب ترین فورم ہے، وہ اپنے فرائض کی بجاآوری میں ناکام رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں عام طور پر عدلیہ یا فوج کی نگرانی میں انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کرتی ہیں۔ پیپلزپارٹی نے 2013ء کے عام انتخابات کو ریٹرننگ افسران کا الیکشن قرار دے کر بالواسطہ عدلیہ کو مورد الزام ٹھہرایا۔ کیونکہ اس کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ساتھ مسائل تھے۔ آج معزول وزیراعظم نوازشریف عدلیہ کے تحت ممکنہ انتخابات پر بے چینی محسوس کررہے ہیں۔ کیونکہ 28 جولائی 2017ء کو عدالتی فیصلے کے بعد ان کا پورا سیاسی بیانہ ’’ناانصافی‘‘ کے گرد گھومتا ہے۔ ان کے دیگر خدشات میں اپنے اور پارٹی کے خلاف نیب کے غلط استعمال کا خدشہ بھی شامل ہے حتٰی کہ پیپلزپارٹی کو بھی سندھ میں نیب سے ایسے خدشات لاحق ہیں ایک طاقت ور، آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن ایسے تمام خدشات کو دُور کر سکتا ہے۔ حتٰی کہ الیکشن کمیشن تو اس وقت بھی خود کو حاصل اختیارات کے ذریعہ بھی وہ فرق ڈال سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن کو آزاد و خودمختار بنانا پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے۔ وہی اصلاحات متعارف کرا سکتی ہے۔ اس کے باوجود چیک اینڈ بیلنس کے لئے الیکشن کمیشن کے پاس کافی اختیارات ہیں۔ جیسے اس نے یکم اپریل کے بعد سے ترقیاتی اسکیموں کے اجراء پر پابندی لگا دی ہے۔ اسی طرح سرکاری اشتہارات میں پارٹی سربراہوں، وزیراعظم، وزراء اعلیٰ کی تصاویر کی اشاعت ممنوع قرار دے دی گئی ہے۔ وہ قبل از انتخاب جلسوں، جلوسوں پر بھاری اخراجات، سرکاری و نجی طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کے استعمال کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن حالیہ سینیٹ انتخابات کا بھی نوٹس لے سکتا ہے کہ کس طرح سے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی نے اچانک وفاداریاں تبدیل کیں۔ اگر قومی دھارے میں سیاسی جماعتیں ن لیگ، تحریک انصاف پیپلزپارٹی اور جے یو آئی کا ریکارڈ پر یہ کہنا ہے کہ سینیٹ انتخابات میں ووٹ فروخت ہوئے الیکشن کمیشن انہیں کالعدم قرار کیوں نہیں دیتا۔ پارٹی سربراہوں سے بھی پوچھا جا سکتا ہے انہوں نے اپنے منحرف ارکان پارلیمنٹ کے خلاف کیا کارروائی کی؟

تازہ ترین