• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زندگی قادر مطلق کی عظیم نعمت ہے اور اسے اللہ ہی کی راہ میں قربان کر دینے سے بڑی کوئی سعادت نہیں۔ کوئی اعزاز، تمغہ یا لقب شہادت سے بڑھ کر نہیں ہو سکتا۔ بقول اقبال ؒ ’’صلہ شہید کیا ہے تب وتاب جاودانہ۔ ‘‘جی ایچ کیومیں شہداء کے اعزاز میں ہونے والی تقریب میںآرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اسی امر کا اعادہ کیاکہ ملک میں امن واستحکام غازیوں اور شہداء کا مرہون منت ہے۔کوئی میڈل ان کی قربانیوں کا نعم البدل نہیں ہو سکتا اور شہداء کے لواحقین کے غم کو کم نہیں کر سکتا۔کچھ عرصہ گزرا ہے کہ فاٹا میں امن قائم ہوا اور بعض لوگوں نے ایک اور تحریک شروع کر دی کچھ لوگ باہر اور اندر سے پاکستان کی سالمیت کے درپے ہیں، ان کو ہم بتانا چاہتے ہیں کہآپ کچھ بھی کر لیں جب تک فوج اور اس کے پیچھے یہ قوم کھڑی ہے آپ پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ دہشت گرد باہر پھینک دیئے، پاکستان کے دشمن کبھی کامیاب نہ ہوں گے۔آرمی چیف نے کہا کہ شہدا ہی ہمارے حقیقی ہیرو ہیں اور جو قومیں اپنے ہیروز کو بھلا دیتی ہیں، مٹ جایا کرتی ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جب مکمل امن آ جائے تو ہم شہدا کی قربانیوں کو بھول بیٹھیں، ہماری قوم کی تاریخ یاد رکھنے کی صلاحیت بہت کم ہے۔آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان مشکل حالات سے باہر نکل آیا اب اچھے دن آنے والے ہیں۔اس حقیقت میں شک و شبے کی رتی بھر گنجائش نہیں کہ آج وطن عزیزمیں جس قدر امن دکھائی دے رہا ہے وہ پاکستان کی شجاع افواج کے بہادر سپوتوں کی بے مثل قربانیوں ہی کی دین ہے۔ لکیر پیٹنا ایک بے سود عمل ہے لیکن ماضی کے تناظر میں حال کو سنوارا اور مستقبل کو محفوظ کیا جا سکتا ہے، ہماری مسلح افواج نے بھی یہی بہترین حکمت عملی اپنائی اور حالات سب کے سامنے ہیں کہ دنیا کے بیشترممالک ہمارے سالار اعلیٰ سے دریافت کرتے ہیں کہ دنیا بھر میں تباہی مچانے والوں کو اپنے ملک سے نکال پھینکنے کا راز کیا ہے ؟یہ راز ہمارے جری جوان ہیں جن کا مطلوب و مقصود ہی شہادت ہے، یہی جذبہ انہیں جھلستے صحراؤں، برف پوش چوٹیوں، گھنے جنگلوں اور گہرے سمندروں میں مادر وطن کی حفاظت پر مستعدرکھتا ہے۔اور ان کے اسی جذبے کی بدولت دہشت گردی اور دہشت گردوں کا ناطقہ بند کرنا ممکن ہوا ہے۔یاد کیجئے چند برس پیشتر کیا حالات تھے ؟ہمارے بدطینت بیرونی دشمن تو درپے آزار تھے ہی ہمارے اپنے راہ گم کردہ عناصر بھی دشمن کا دست وبازو بن کر وطن عزیز کو لہو میں غوطہ زن کئے ہوئے تھے۔دہشت گرد ملک کے کسی بھی حصے میں برق بے اماں بن کر نازل ہوتے اور لاشوں کا انبار لگا دیتے، پاکستان کے عسکری مراکز اور افراد ان کا خاص ہدف تھے۔ سیاسی حکومتوں میں وہ تاب و تواں مفقود تھی کہ ان عناصر کے خلاف کوئی ایکشن لیتی۔ کراچی ایئرپورٹ پر حملے کے بعد افواج پاکستان نے جون 2014میںآپریشن ضرب عضب شروع کیا ، جس کا شدید ردعمل سامنے آیا تاہم فوج نے دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ،پاکستان کے لئے یہ جنگ اس لئے زیادہ مشکل تھی کہ دشمن خود ہمارے اندر موجود تھے جنہیں بھرپور اندرونی وبیرونی امداد حاصل تھی۔16دسمبر 2014ء کوآرمی پبلک سکول کے سانحے نے پوری قوم کو دہلا کر رکھ دیا۔ عسکری اور سیاسی قیادت مل بیٹھی اور نیشنل ایکشن پلان عمل میں لایا گیا تاکہ دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کیا جاسکے۔22فروری کوشروع کیا جانے والا آپریشن ردالفساد کامیابی سے جاری ہے۔چیف آف آرمی اسٹاف کا کہنا بجا ہے کہ ہماری قوم میں تاریخ کو یاد رکھنے کی صلاحیت کم ہے ،تاہم یہ ممکن دکھائی نہیں دیتا کہ قوم اپنے ان بھائیوں اور بیٹوں کی شہادتوں کو فراموش کر دے جن کی قربانیوں سے ملک امن وترقی کی راہ پر گامزن ہو رہا ہے۔قوم جنگ ستمبر 1965ء کے ہیروز کی طرح ان ہیروز کو بھی فراموش نہیں کر سکتی۔پاکستانی قوم اپنے محسنوں کو بھلایا نہیں کرتی اورمحسن بھی وہ جنہوں نے قوم کی خاطر اپنی جانیں لٹا دیں۔قوم ہمیشہ ان غازیوں اور شہدا کی ممنون احسان رہے گی۔

تازہ ترین