• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب کی صوبائی حکومت نے اچھا کیا کہ مردہ مرغیوں سے پولٹری فیڈ بنانے پر پابندی عائد کرتے ہوئے پولٹری فارم، ہیچری اور رینڈنگ یونٹ کے لئے رجسٹریشن لازمی قرار دیدی۔ اس طرح محدود آمدنی والے طبقے کے لوگوں میں، جو مرغی کا گوشت ہفتے میں ایک آدھ بار خریدنے کی ہمت کرلیتے ہیں، یہ اعتماد بڑھے گا کہ وہ جس پرندے کا گوشت استعمال کررہے ہیں وہ صحت کی ضروریات اور دین و ایمان کے تقاضوں کے مطابق ہر طرح سے تسلی بخش ہے۔ وطن عزیز میں طویل عرصے تک جن دیسی مرغیوں کو پالنے کا رواج رہا، وہ بڑا ہونے میں زیادہ وقت لیتی تھیں اور ان کی تیاری کا عمل بڑھتی ہوئی ضروریات کا ساتھ نہیں دے پارہا تھا۔ بعدازاں گوشت اور انڈوں کی کھپت پوری کرنے کے لئے فارم پر چند ہفتوں میں پل جانے والی جن مرغیوں کی نسل کشی کی گئی ان کی فیڈ (خوراک) کے حوالے سے گردش کرنے والی باتوں کی اگرچہ تردید کی جاتی رہی مگر شک شبہ کا امکان کم کرنے کے لئے مزید اقدامات کی ضرورت تھی۔ پنجاب حکومت نے اپنے مذکورہ فیصلے کی صورت میں اور اس پر عملدرآمد یقینی بنانے کی تدابیر کے ضمن میں جو اقدامات کئے ہیں، ان میں اگر پولٹری فیڈ میں ایسی چیزیں استعمال کرنے کی صریح ممانعت بھی شامل کردی جائے جن کا استعمال مذہباً ممنوع یا مکروہ ہے تو مرغی کا گوشت استعمال کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا، پولٹری کی صنعت زیادہ پھیلے گی، زیادہ لوگوں کو روزگار ملے گا اور شادی بیاہ سمیت تقریبات میں کھانے کے اخراجات میں کمی کی گنجائش پیدا ہوگی۔ مرغی کے گوشت کو طویل عرصے تک ایک لذیذ اور صحت بخش غذا کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے اور اطبا مریضوں کو اس کی یخنی استعمال کرنے کا مشورہ دیتے رہے ہیں۔ اس گوشت کی مذکورہ خصوصیات برقرار رکھنے کے لئے پنجاب ہی نہیں تمام صوبوں کی حکومتوں کو ضروری قانونی و انتظامی تدابیر کرنی چاہئیں۔ اور ایسے اقدامات بروئے کار لانے چاہئیں جن کی موجودگی میں گوشت سمیت کسی بھی کھانے کی چیز کے صحت بخش اور حلال ہونے کے بارے میں کسی شک کی گنجائش باقی نہ رہے۔

تازہ ترین