• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک دو ہفتے قبل کا ذکرہے پاکستان کے مقتدر اخبار نویس، تجزیہ نگار اور ممتازدانشور جناب مجیب الرحمٰن شامی نے نجی ٹی وی پر اپنے پروگرام کے دوران امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کے متعلق حساس سے لہجے میں تقریباً اس مفہوم کی بات کی تھی ’’حسین حقانی پاکستان کا ایک بہت ہی قابل، ہونہار، باصلاحیت اور غیرمعمولی طور پر ذہین سپوت ہے۔ اس کے معاملے میں ہاتھ ذرا ہلکا رکھنے کی امید کرنا شاید قطعی غیرمناسب طرزِ فکر نہیں ہوگا۔‘‘ شامی صاحب کے اس اظہارکے بعد حسین حقانی کے حوالے سے ماحول میں اور تو کوئی خاص تبدیلی دکھائی نہیں دے رہی البتہ امریکہ میں پاکستان کے نامزد متوقع جواں سال سفیر علی جہانگیر صدیقی جن مراحل سے گزرے یا گزارے جارہے ہیں، ان کے بعد ایک وقوعہ کے سو فیصد امکانات موجود ہیں!کسی روز شامی صاحب اپنے اسی پروگرام میں فرمارہے ہوں گے: ’’علی جہانگیر صدیقی پاکستان کے قابل، ہونہار، باصلاحیت اور غیرمعمولی طور پر ذہین نوجوان تھے۔ پاکستان کے ایسے بیدار مغز اور منفرد ادراک کے حامل نوجوانوں کی اچانک جنم لینے والی عجیب و غریب خواریوں کا ہدف بن جانا یا بنایا جانا وطن عزیز کے ’’ذہین سرمائے‘‘ کے ناقابل تلافی زیاں کا سبب بن رہا ہے‘‘ اللہ نہ کرے علی جہانگیر صدیقی کے سلسلہ میں برادر محترم و مکرم کو ایسا بیان دینا پڑے!
آج جبکہ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی عدالت ِ عظمیٰ کے فورم پر نہایت شد و مد سے زیر بحث ہیں۔ میمو گیٹ اسکینڈل (2011) کے بارے میں خاکسار جیسے قلمکاروں اور دیگر حضرات و ذرائع ابلاغ کو اسے مجموعی صدائے بازگشت کی حیثیت سے اپنے ذہنوں میں تازہ کرلینا چاہئے، گو چند ماہ قبل سابق صدر مملکت جناب آصف زرداری نے حسین حقانی کی حب الوطنی کا براہ راست ابطال کیا، انہیں محب وطن کے مقابل خطاب بھی دیا تاہم اس سے رتیّ بھر فرق نہیں پڑا، سوائے اس کے کہ انہوں نے پاکستان کی تاریخ میں ’’غدار فیکٹری‘‘ کے مسترد شدہ اثاثہ جات میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے شخصی مقام کی بلندی کو بے حد آرام کے ساتھ نقصان پہنچایا۔
آصف زرداری پر ایسے لمحات آتے ہیں جب وہ انسانی عظمت پر مبنی اپنے اثاثوں کو خود آگ دکھاتے اور غالباً ایک سنسنی خیز سا لطف اٹھاتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی، سینیٹ چیئرمین کے انتخاب، رضا ربانی اور فرحت اللہ بابر جیسے باوقار فرزندانِ پاکستان کی نفسیاتی توہین کے ارتکاب سے منفی لذتیت کی اپنی اس اچانک عادت سےخود پہ زوال نازل کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ اپنے متنازع perception کو مزید متنازع بنایا۔ یاد رکھا جائے آصف زرداری خودساختہ تباہی کے تسلسل میں اس حد تک جاسکتے ہیں جہاں پارٹی اور بلاول دونوں کے کندھے ان کے متنازع Perception کا بوجھ اٹھانے کے بجائے تڑخ جائیں!
بہرحال حسین حقانی کی جانب لوٹتے ہیں، میمو گیٹ (2011) کے بعد انہوں نے کیا کیا کہا اور خود ان کے متعلق جو کچھ کہا گیا؟
پاکستان مسلم لیگ کے تاحیات قائد اور پاکستانیوں کے ووٹوں سے تیسری بار منتخب ’’نااہل‘‘ وزیراعظم جناب نواز شریف نے دراصل حسین حقانی کی یاد دلادی۔ نواز شریف صاحب نے اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کی جس کے قریب قریب آغاز ہی میں یہ بھی کہہ گئے ’’جب آصف زرداری پرمیمو گیٹ کیس بنایا گیا تو مجھے اس سے دور رہنا چاہئے تھا۔ میرا میمو کیس سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے تھا، کیس بنانے میں کون سی دیر لگتی ہے، جواز ہو یا نہ ہو کیس بن جاتے ہیں!‘‘
پاکستان پیپلزپارٹی اور اس کی قیادت کے ساتھ جسمانی، ذہنی، سماجی اور مذہبی مظالم کی تاریخ کے مورخین میں دائیں بازو کے حکمران، دائیں بازو کے دانشور اور مذہبی طبقات کو بنیادی مقام حاصل ہے۔ ضیاء الحق کا دور اِن مظالم کا کلائمکس اور دائیں بازو کے دانشوروں اور مذہبی طبقات کی اس اکثریت کا انگار طوفان تھا جس میں پیپلزپارٹی اور اس کی قیادت کو راکھ کردینے کی حد تک جلا اور جھلسا دیا گیا۔ نواز شریف صاحب کی زندگی پر صرف ’’ضیاءالحق کا بوجھ‘‘ ہی کافی ہے۔ وہ اس وقت آئین پاکستان کے جینوئن ترین علمبردار اور نمونہ ہوسکتے ہیں تاہم ضیاء کا بوجھ انہیں کبھی کمر سیدھی نہیں کرنے دےگا۔ یہ اس بوجھ کا ہی تسلسل تھا جس کے سبب نواز شریف نے جہاندیدہ ہونے کے باوجود ’’میموگیٹ اسکینڈل‘‘ (2011)کے موقع پر پیپلزپارٹی کا جنازہ اٹھنے کی آس لگائی اور کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ پہنچ گئے تھے چنانچہ حسین حقانی کا ’’گمشدہ تذکرہ‘‘ منظر عام پر لانے کا سلسلہ شروع کرتے ہیں۔
مقدر کے ھدف اور جہت کا تعین کبھی کسی انسان کے بس میں نہیں رہا۔ حسین کی کتاب"Pakistan between Masque and Military" کے مطالعہ نے ان کی ذہنی عبقریت پر چونکا دیا تھا مگر دوسری جانب اس گھڑی سے ہی خود کو چونکنے سے زیادہ خوفزدہ محسوس کرنے لگا۔ کوئی شے میرے دماغی منطقے میں مسلسل Crawlingکرتی جیسے کہہ رہی ہو ’’حسین کو یہ کتاب مہنگی پڑ سکتی ہے‘‘ آپ یقین کریں میں بے اختیار اپنے وطن کے اس گراں قدر اثاثے کے لئے دست بہ دعا ہوجاتا۔ بہرحال ہونی ہوکےرہی۔ انہیں پاکستان کے ایوان صدر سے امریکہ کی طرف سفر جبر کی دکھیاری وادی پار کرنا پڑی!
میموگیٹ اسکینڈل (2011) کے کوئی تین برس بعد حسین حقانی نے ’’بدلتا پاکستان‘‘ کے عنوان سے ایک تاریخی تجزیہ قلمبند کیا جسے پاکستان کے اردو پریس میں بھی قسط وار شائع کیا گیا، اس کے مندرجات کا کچھ حصہ ملاحظہ فرمایئے:
حسین لکھتے ہیں:۔ ’’اس نوزائیدہ قوم کے غیرمستحکم مستقبل کو دیکھتے ہوئے اس کے سیاستدانوں، سرکاری ملازمین اور ان فوجی افسران جنہوں نے گاہے گاہے پاکستان پر حکومت کی، نے بھی ہندو مسلم کے درمیان پائی جانے والی نفرت کو بھڑکانے کا ہی فیصلہ کیا اور یہ وہی نفرت تھی جو برصغیر کی تقسیم کا باعث بنی تھی۔ خودمختار ریاست کے قیام کے فوری بعد جب پاکستان نے خود کو اسلامی ریاست کہنا شروع کردیا تو بھارت کو ہندوئوں کا ملک گردان کر اس کے خلاف مدافعتی رویہ اختیارکرلیا اوریہی رویہ بھارت کے کچھ لوگوں کا بھی تھا جس نے ان دونوں کے درمیان اس خلیج کو کبھی پر نہیں ہونے دیا۔
ان کا کہنا تھا:۔ ’’بحیثیت پاکستانی یہ بات مجھے پریشان کرتی ہے کہ تمام دنیا میرے ملک کو ایک ناکام ریاست کے طور پر دیکھتی ہے اور میں اس بات سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں اور میں دنیا کو اپنے ملک سے پوچھے جانے والے مشکل سوالات پر الزام بھی نہیں دینا چاہتا لیکن میری خواہش ہے کہ میں اپنے ہم وطنوں سے مل کر ان مشکل سوالات کے جوابات تلاش کروں۔‘‘
’’مشکل سوالات کے جوابات‘‘ کی تلاش میں حسین حقانی نے کہاں تک کا سفر کیا، کیا قیمت ادا کی؟ کیا وہ اس قیمت سے محفوظ رہ سکتے تھے؟ جواب، کالم کی گنجائش تمام ہونے کے سبب آئندہ پر اٹھا رکھتے ہیں!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین