• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کمال ہی ہو گیا۔ ایک معروف مولانا صاحب حالیہ دنوں میں قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے لیڈر جناب خورشید شاہ (زرداری صاحب کی پیپلز پارٹی والے) کے ہاں تشریف لے گئے اور وہاں بہت سارے لوگوں کے درمیان دین اور دنیا کی مزیدار باتیں بھی کیں۔ میں بھی دوسرے پاکستانیوں کی طرح مولانا صاحب سے متاثر تو نہیں مگر متاثرین میں ضرور شامل ہوں۔ کئی سال سے بیگم کے ساتھ اس بات پر جھگڑا چل رہا تھا کہ ایک مسلمان کو پانی بیٹھ کر پینا چاہئے اور یہ اصول لازمی تصور کیا جائے جبکہ میرا خیال اور کہنا تھا۔ پانی بیٹھ کر پئیں یا کھڑے ہو کر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگر ہماری نصف ہم ذات اس معاملہ پر ہم سے راضی ہونے پر تیار نہ تھیں۔ بھلا ہو مولانا صاحب کا انہوں نے اپنے ایک بیان میں ثابت کیا کہ پانی پینے کے لئے کوئی خاص طریقہ نہیں ہے بس اپنی پیاس کو ختم کرنے کے لئے جس طرح مرضی سے پانی استعمال کریں۔ مگر شکر کرنا ضروری ہے۔ سو ہم بھی سرخرو ہوئے اور زندگی میں پہلی دفعہ بیگم صاحبہ کے سامنے کھڑے ہو سکے۔ اب ذرا ذکر ہو جائے کہ مولانا صاحب کو حزب اختلاف کے سدا بہار لیڈر خورشید شاہ نے کیسے مدعو کر لیا۔ اصل میں یہ کام زرداری صاحب کو یا بلاول کو کرنا چاہئے تھا۔ اس وقت پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن مسلسل دعویٰ کرتے آ رہے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں وہ ماضی کی شکست اور کمزوری کو نظر انداز کر کے ایسا ترنگا بلند کریں گے۔ ان کو پورا یقین ہے کہ کم از کم دو صوبوں میں ان کی حکومت ہو گی اور پنجاب کا وزیر اعلیٰ ان کی مدد سے ہی منتخب ہو گا۔ اس معاملہ پر ہمارے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف المعروف خادم اعلیٰ کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی دوسرا شخص وزیر اعلیٰ بن گیا تو پنجاب کے ترقیاتی کاموں کا کیا بنے گا۔ خیر یہ تو ایک خالص سیاسی معاملہ ہے۔ شہباز شریف مولانا کی مدد سے اپنی کامیابی پکی بنا سکتے ہیں ادھر خورشید شاہ کو پورا یقین ہے کہ مولانا کی توجہ کی وجہ سے زرداری صاحب ان سے اور بھی راضی ہو سکتے ہیں۔ ہاں بلاول کے بارے کچھ کہنا مشکل ہے۔ جناب مولانا ایک مبلغ کے طور پر اپنی پہچان کرواتے ہیں۔ ہماری کرکٹ کے کئی کھلاڑی اور ستارے صرف مولانا کی توجہ کی وجہ سے عملی زندگی میں باعمل انسان کی حیثیت میں نظر آتے ہیں اور تو اور ہمارے ہمسائے بھارت کے مشہور فلمی شخصیت عامر خاں کو بھی بدل کر رکھ دیا۔ اب تو یہ دعا ہے کہ مولانا کی برکت سے پیپلز پارٹی والے اپنا گرو تو نہیں مگر قبلہ ضرور درست کر لیں۔ پیپلز پارٹی میں بلاول زرداری اپنے والد محترم سابق صدر کی وجہ سے زیادہ فعال تو نہیں ہو سکا مگر ان کی تقاریر لکھنے والے لوگ ان کے لئے مشکل پیدا کرتے رہتے ہیں۔ بلاول کو تقریر کرنی اس لئے مشکل ہوتی ہے کہ ان کا بھاشن ان کی اپنی سمجھ میں بھی نہیں آتا اور وہ آج کل ہمارے سابق اور نا اہل وزیراعظم کے بارے میں خوب تنقید کرتے نظر آتے ہیں اور تو اور ان کے والد آصف علی زرداری نے تو مسلم لیگ نواز سے مکمل لا تعلقی کا اعلان کر دیا ہے۔ ہماری جمہوریت کا یہ ہی المیہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو حرف تنقید بنا کر جمہوری روایات کی نفی کرتے ہیں۔
اس وقت ملک میں سیاسی اور سماجی خلفشار پورے عروج پر ہے۔ ہمارے سیاسی نیتا ایک دوسرے کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ وہاں پر صحت اور تعلیم کے جو معاملات ہیں ان پر تو توجہ نہیں۔ مگر بتایا یہ جا رہا ہے کہ ملک بھر میں صحت اور تعلیم کا بہترین نظام سندھ میں ہے۔ انہوں نے کمال فن سے سندھ کی دوسری سیاسی جماعتوں کو بے بس کر دیا ہے۔ ایم کیو ایم والے تقسیم در تقسیم ہوتے جا رہے ہیں۔ مہاجروں کے نام پر اتنا عرصہ پیپلز پارٹی کا ساتھ دینے والے آپس میں دست و گریبان ہیں کراچی میں اب تو معقول تعداد دوسرے صوبوں کے لوگوں کی نظر آتی ہے۔ پیپلز پارٹی والے صرف نیب سے خوف زدہ نظر آتے ہیں۔ مگر ڈاکٹر عاصم کے مقدمہ میں نیب نے مایوس کیا اور اس ہی وجہ سے ڈاکٹر عاصم کو سرکار سندھ میں دوبارہ اہم عہدہ مل گیا ہے۔ انصاف اور قانون کی بدنظمی ہی انصاف اور اصول کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔
پیپلز پارٹی نے بلوچستان کی سیاست میں ایک ایسی چال چلی، جس کا اندازہ مسلم لیگ نواز کو بالکل نہ تھا۔ بلوچی سردار مسلم لیگ نواز کے ساتھ اس طرح جڑ گئے تھے کہ وہاں حکومت نواز لیگ کی چل رہی تھی مگر پہلا اختلاف سابق وزیر داخلہ بگٹی کی وجہ سے شروع ہوا۔ مسلم لیگ کے وزیر اعلیٰ حسب روایت کو ئٹہ میں کم قیام کرتے تھے اور وہاں کی نوکر شاہی بھی سیاسی معاملات کی وجہ سے تقسیم ہو چکی تھی۔ گوادر کی بندر گاہ کے علاوہ پورے بلوچستان میں کوئی خاص ترقی نظر نہیں آتی اور تو اور امن و امان کی صورتحال بھی مخدوش ہی رہی۔ زیادہ سیاسی لوگ سردار اور مولوی تھے۔ جو صرف اور صرف اپنے مفادات کو دیکھتے تھے۔ آصف علی زرداری کو لوگوں کی قیمت کا خوب اندازہ ہوتا ہے۔ پہلے تو نواز لیگ کو یقین نہ تھا کہ نیا وزیر اعلیٰ بھی آ سکتا ہے اور جب تختہ الٹ گیا تو وزیراعظم پاکستان کو خیال آیا۔ مگر اب تک سب کچھ دائو پر لگ چکا تھا۔
اس وقت ملک کے اہم لوگ 2018کو انتخابات کا سال کہہ رہے ہیں صرف اختلاف رائے اوقات کار پر ہے۔ الیکشن کمیشن اس وقت حلقہ بندیوں کے معاملات پر نظرثانی کر رہا ہے۔ مسلم لیگ نواز کے وزیر اعظم ملک کی معاشی صورتحال سے پریشان ہیں اور ان کو بلوچستان کی تبدیلی بھی قابل قبول نہیں۔ پھر چیئرمین سینیٹ کے بارے میں ان کے اقوال ان کے اپنے شان شایان نہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ سینیٹ میں خرید و فروخت ہوئی ہے مگر وہ الیکشن کمیشن کو ثبوت دینے سے قاصر ہیں ایسے میں وہ نئے چیئرمین سینیٹ سے ملنے پر تیار نہیں۔ ان کی یہ روش جمہوریت کے لئے بہت خطرناک ہے۔ اس طرح سے جمہوریت جو پہلے ہی بدنام ہے مزید بدکردار ہو جائے گی۔ عوام اس ساری صورتحال سے مایوس ہیں اور ان کو اپنے ووٹ پر بھی اعتبار نہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین