• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نواز شریف کی سیاست میں آمد اور رخصتی

میاں نواز شریف کی سیاست میں آمد غیر متوقع اور حادثاتی تھی لیکن سیاست سے ان کی رخصتی متوقع تھی، جیسے کہ سپریم کورٹ نے انہیں تاحیات نااہل قرار دے دیا ہے، یہ ان کے خاندان اور جماعت کے لئے بڑا دھچکا ہے۔ آیئے نواز شریف کی آمد اور رخصتی کے ساتھ ان کے سیاسی سفر پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ نواز شریف کا خاندان غیرسیاسی تھا ان کے والد میاں شریف نے ابتدائی طور پر سیاست میں حصہ لینے کی جنرل ضیاالحق کی جنرل جیلانی کی وساطت سے درخواست کو نظرانداز کر دیا بعدازاں انہوں نے یہ کہہ کر کہ وہ خود تو سیاست میں حصہ نہیں لیں گے تاہم انہوں نے اپنے دونوں بیٹے جنرل جیلانی کے حوالے کر دیئے، ساتھ ہی یہ درخواست بھی کی کہ نواز شریف اور شہباز شریف کو سیاسی میدان میں اتارنے سے پہلے ان کی سیاسی تربیت بھی کی جائے۔ جنرل ضیاالحق کو پیپلز پارٹی اور بھٹو کی سیاست کا مقابلہ کرنے کے لئے پنجاب سے کسی کی ضرورت تھی کیونکہ بھٹو کی سندھ سے زیادہ پنجاب میں مقبولیت تھی۔ نواز شریف کے قریبی ساتھی نے ایک بار نواز شریف کی سیاست میں آمد اور میاں شریف کی رضامندی کے بارے میں بتایا۔ میاں شریف غیر سیاسی تاجر تھے، تاہم بھٹو کی طرف سے صنعتوں کو قومیانے کے فیصلے کے بعد وہ بھٹو مخالف ہو گئے۔ جنرل جیلانی نے میاں شریف کو یقین دلایا کہ نواز شریف کے سیاست میں آنے سے نہ صرف انہیں قومیائے گئے کارخانے اور فیکٹریاں واپس مل جائیں گی بلکہ سیاست میں ہونے کی وجہ سے ان کو کاروباری تحفظ بھی ملے گا۔ میاں شریف صرف اپنے کاروبار پر توجہ دینا چاہتے تھے تاہم جنرل جیلانی کے دبائو کے زیراثر انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں نواز شریف اور شہباز شریف کو مارشل لا حکام کے ساتھ تعاون کرنے کی اجازت دے دی۔ 70 کی دہائی کے اَواخر میں شریف برادران سیاست میں وارد ہوئے، 80اور 90کی دہائی کے دوران آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل اور اس وقت شریف برادران کے قریبی ساتھی اور سابق سیکرٹری اطلاعات اور امریکہ میں سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی دو افراد نے ان کی سیاسی تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں جنرل ضیا اور ان کے اتحادی پیپلز پارٹی کو سیاست سے دور رکھنے میں کامیاب ہو گئے اور انہوں نے کنگز پارٹی کے طور پر پاکستان مسلم لیگ بنانے کا فیصلہ کیا اور بھٹو کی پھانسی کے بعد سندھ میں پیدا ہونے والے سیاسی بحران سے نمٹنے کے لئے سندھ کے ایک غیر معروف سیاستدان محمد خان جونیجو کو مسلم لیگ کا سربراہ اور وزیراعظم بنا دیا تاہم محمد خان جونیجو نے جنرل ضیا کی مرضی کے بغیر تمام جماعتوں کو سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دیتے ہوئے صحافتی آزادی کا اعلان کر دیا۔ جنرل ضیا کے لئے مزید خطرہ بنتے ہوئے محمد خان جونیجو نے ایک حکم جاری کیا کہ سول، فوجی اور بیوروکریسی سمیت تمام اہم شخصیات چھوٹی گاڑیاں استعمال کریں گے، اس کے ساتھ انہوں نے بے نظیر بھٹو پر سے پابندی ہٹاتے ہوئے انہیں وطن واپسی کی اجازت دے دی۔ جنیوا اکارڈ پر دستخط کرنے اور تمام سیاسی جماعتوں کی رضامندی سے اوجڑی کیمپ سانحے کی تحقیقات کرانے کے فیصلے، محمد خان جونیجو کی رخصتی کا باعث بنے۔ ایک انٹرویو میں جنرل حمید گل نے اعتراف کیا کہ جنیوا اکارڈ پر دستخط کے فیصلے سے ناراض فوجی قیادت نے جونیجو کی برطرفی کا فیصلہ کیا۔ 1985 کے انتخابات کے بعد پہلی بار وزیراعلیٰ پنجاب بننے والے نواز شریف نے جونیجو سے جان چھڑانے میں اسٹیبلشمنٹ کی مدد کی جس کے بعد جنرل ضیاء نے 28 مئی 1988 کو جو اس وقت صدر بھی تھے آرٹیکل 58 ٹو بی کے تحت جونیجو کو ہٹا دیا۔ 10 اپریل 1986 کو 5 سالہ جلاوطنی کے بعد بینظیر کی وطن واپسی پر عوام کی بھرپور پذیرائی نے جنرل ضیاء اور اسٹیبلشمنٹ کو خوفزدہ کر دیا۔ جنرل حمید گل نے ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ یہ درست ہے کہ اسلامی جمہوری اتحاد نامی جماعت پیپلزپارٹی کی دو تہائی اکثریت کو روکنے کیلئے بنائی گئی تھی کیونکہ شدید خدشہ تھا کہ بینظیر بھٹو اپنے والد کی حکومت ختم کرنے اور انہیں پھانسی دینے والوں سے انتقام لیں گی۔ اسٹیبلشمنٹ جانتی تھی کہ بینظیر بھٹو بہت زیادہ طاقتور حکمران ہوں گی اس لئے وہ نواز شریف کو ایک مضبوط اپوزیشن لیڈر کے طور پر سامنے لائے۔ اس طرح انتخابات میں آئی جی آئی اور پیپلزپارٹی مخالف جماعتوں کے ذریعے پیپلزپارٹی کامیاب تو ہو گئی تاہم دو تہائی اکثریت حاصل نہ کر سکی اور آئی جی آئی ایک مضبوط اپوزیشن کے طور پر سامنے آئی۔ گیم پلان کامیاب رہا کیونکہ پیپلزپارٹی پنجا ب میں نہیں جیت سکی۔ بینظیر بھٹو کیلئے کام کرنا مشکل ہو گیا اور صرف ایک سال کے بعد وزیراعظم بینظیر کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی جس میں پیسے کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ تحریک عدم اعتمادتو منظور نہ ہو سکی تاہم بینظیر بھٹو کی حکومت مزید کمزور ہو گئی اور 6اگست1990ء میں 58 ٹو بی کے ذریعے ان کی حکومت ختم کر دی گئی۔ 1990ء کے انتخابات کی تاریخ بہت دلچسپ ہے، ابتدائی طور پر مرحوم غلام مصطفیٰ جتوئی کو جو کہ نگران وزیراعظم تھے انہیں متبادل کے طور پر لیا گیا۔ انہوں نے ایک دفعہ بتایا کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک ڈیل کے تحت نواز شریف کو اس وقت وزیراعظم نہیں بنایا گیا۔ اس بات پر مفاہمت تھی کو جتوئی کو وزیراعظم بنایا جائیگا تاہم بعد میں انہیں دھوکہ دیا گیا۔ اب یہ بات کھلی حقیقت ہے کہ 1990ء کے انتخابات میں نہ صرف وسیع پیمانے پر دھاندلی ہوئی،مہران بینک اور اصغر خان کیس میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ان انتخابات میں پیپلز پارٹی مخالف جماعتوں میں 9کروڑ روپے سے زائد رقم تقسیم کی گئی۔ 1990ء میں جب نواز شریف پہلی بار وزیراعظم بنے اسی وقت سے فوجی سربراہوں سب سے پہلےمرحوم جنرل آصف نواز اورپھر جنرل اسلم بیگ کے ساتھ اختلافات سامنے آئے۔ اسٹیبلشمنٹ میں یہ سوچ پیدا ہوئی کہ نواز شریف پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ 1993ء میں نواز شریف کی حکومت ختم کی گئی اور سپریم کورٹ سے حکومت کی بحالی کے فیصلے کے باوجود انہیں حکومت نہیں دی گئی اور پہلی بار اسٹیبلشمنٹ نے بینظیر بھٹو کے ساتھ رابطے شروع کیے۔ اس کے بعد نواز شریف کی مسلم لیگ الیکشن ہار گئی اور بینظیر بھٹودوسری بار وزیراعظم بن گئیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو بینظیر بھٹو سے کوئی شکایت نہیں تھی لیکن ان کے شوہر آصف علی زرداری کیخلاف کرپشن کی شکایات پر تحفظات تھے۔ پیپلز پارٹی کے نامزد کردہ صدر سردار فاروق لغاری نے بھی بینظیربھٹو کو ان رپورٹس کے بارے میں آگاہ کیا جو آصف زرداری اور فاروق لغاری کے درمیان اختلافات کی وجہ بنا۔ 1986 میں بینظیربھٹو کے مشورے کے برعکس مرتضیٰ بھٹو نے وطن واپسی کا فیصلہ کیا اور 1996 میں مرتضیٰ بھٹو کی ہلاکت بینظیربھٹو کی دوسری حکومت کے خاتمہ کی وجہ بنی۔ اس کے بعد نوازشریف دوتہائی اکثریت لے کر کامیاب ہوئے نواز شریف نے سوچا کہ وہ اب کافی مضبوط ہوچکے ہیں اس لئے انہوں نے ایسے اقدامات کرنے شروع کئے تاکہ وہ ناقابل گرفت بن سکیں۔ انہوں نے عدلیہ کو بھی اپنا تابع بنانے کی کوشش کی 1998 میں سپریم کورٹ میں کیا ہوا سب کو یاد ہے اس موضوع پر سپریم کورٹ بھی تقسیم نظر آئی نوازشریف نے فوج کو بھی کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔ سابق آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کے ساتھ کیا ہوا،نواز شریف نے بعد میں اس پر پچھتاوے کا اظہار کیا کیونکہ اس کے بعد جنرل پرویز مشرف آرمی چیف بنے جنہیں شہباز شریف اور چودھری نثار علی خان پسند تھے۔ جنہیں جنرل علی قلی خان پر سبقت دی گئی تھی ایک سال کے بعد بھارتی وزیراعظم واجپائی کے دورہ لاہور کے دوران مشورے نظرانداز کرنے پرنوازشریف کے آرمی چیف جنرل مشرف سے بھی اختلافات پیدا ہوگئے۔ 12 اکتوبر1999ء میں نواز شریف نے مشرف کو برطرف کرنے کا غیردانشمندانہ فیصلہ کیا جبکہ وہ کولمبو میں تھے، تاہم یہ بھی سچ ہے کہ سری لنکا جانے سے قبل مشرف نے جنرل محمود، جنرل عزیز اور اپنے قریبی جرنیلوں کو ہدایات دی تھیں کہ اگر نواز شریف کوئی ایسا فیصلہ کریں تو اسے قبول کرنے کی بجائے ان کی حکومت ختم کر دی جائے۔ مارشل لاء کے بعد نواز شریف کی حکومت ختم کر دی گئی، تاہم سعودی شاہی خاندان کی مداخلت پر نواز شریف ذوالفقار علی بھٹو کے جیسے انجام سے بچ گئے اور انہیں ایک معاہدے کے تحت10 سال کیلئے جلاوطن کر دیا گیا۔ پہلی بار نواز شریف نے اپنی سیاسی غلطیوں کا اعتراف کیا اور بےنظیر بھٹو سے اپنے اختلافات ختم کئے۔ سیاسی اور غیرسیاسی عناصر کا شکار بے نظیر بھٹو نے بھی نواز شریف سے ہاتھ ملا لیا۔ 2006ء میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے میثاق جمہوریت پر دستخط کئے لیکن بے نظر بھٹو کی مشرف سے این آر او کے ذریعے ڈیل پر نواز شریف ناراض اور مایوس ہو گئے۔ تاہم بے نظیر بھٹونے انہیں قائل کیا کہ پاکستان کی سیاست میں واپسی اور جنرل مشرف سے جان چھڑانے کا یہ واحد طریقہ ہے۔ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو دونوں وطن واپس آئے لیکن 27 دسمبر2007ء میں بے نظیر بھٹو کے قتل کی وجہ سے میثاق جمہوریت پر کبھی عمل درآمد نہ ہو سکا۔ بے نظر بھٹو اور نواز شریف کو کرپشن کے شدید ترین الزامات کا سامنا کرنا پڑا اور دو بار ان کی حکومتیں ان الزامات کی وجہ سے ختم کر دی گئیں۔ تاہم فوجی عدالتوں کے باوجود ان الزامات کو کبھی ثابت نہیں کیا جا سکا۔ بے نظیر بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں نے اپنی مدت پوری کی مسلم لیگ کی حکومت آئندہ عام انتخابات میں اپنی مدت پوری کرنے والی ہے۔تاہم دونوں جماعتوں کی قیادت اپنے آپ کو کرپشن کے الزامات سے نجات نہ دلا سکی ۔دونوں جماعتوں کی قیادت کا کہنا ہے کہ کرپشن کے الزامات ان کی حکومتوں کو ختم کرنے کیلئے گھڑے گئے تھے۔2013ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد مسلم لیگ (ن)کی حکومت مسائل کا شکار رہی اور 2016ء میں جب پانامہ لیکس کے بعد نواز شریف کو سیاست سے ایک بار پھر باہر کر دیا گیا۔ 2016ء سے اب تک جو ہوا وہ نوازشریف کی سیاست ختم کرنے کے بعد ان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے تمام امکانات ختم ہوگئے اگراگلے چند ہفتوں میں انھیں یا ان کے خاندان کے دیگر افراد کو نیب کی طرف سے سزا سنا دی گئی تونہ صرف نوازشریف کی سیاست ختم ہو جائیگی بلکہ شریف خاندان ماضی کا قصہ بن جائیگا ۔ نوازشریف کے حامی چاہے یہ فیصلہ قبول نہ کریں تاہم ان کا ردعمل بھٹو کی پھانسی کے فیصلے سے یقنناً مختلف ہوگا۔حامی اور ووٹر ہی نوازشریف کی آخری امید ہیں اگر وہ مسلم لیگ (ن) کو دوبارہ اقتدار میں لے آئیں۔تاہم انتخابات میں ناکامی تاحیات نااہل قرار دیئے گئے تین بار وزیراعظم رہنے والے نوازشریف کی سیاست کے کفن میں آخری کیل ثابت ہوگی۔

تازہ ترین