• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فیصلے سے آگے

میاں نواز شریف ابھی بھی حیراں ہیں کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ اور اب شاید وہ پوچھیں گے کہ ’’ہمیشہ کے لئے کیوں‘‘(؟) میاں صاحب پہ رحمتیں برسیں بھی تو ٹوٹ کر زحمتیں آئیں بھی تو گئیں اور اب کے لگتا ہے کہ ٹلنے کو نہیں۔ اور وہ بھی اُسی صالح سیاست کے ہاتھوں جس سے وہ فیضیاب رہے۔ پہلے قومی اسمبلی کی رکنیت اور وزارتِ عظمیٰ گئی، پھر پارٹی صدارت اور اب کوچۂ سیاست سے عمر بھر کے لئے دربدری۔ چارٹر آف ڈیموکریسی کے حلیف ہیں کہ طعنہ زنی سے باز نہیں آ رہے اور بار بار شرمندہ کرنے پہ تُلے ہیں کہ دیکھا ہم نے نہیں کہا تھا کہ آٹھویں ترمیم میں اہلیت (شق 62) اور نااہلیت (شق 63) میں چھپے کانٹوں کو نکال باہر کرو، آپ نے نہ سُنی اور اب بھگتو۔ دیکھا، ہم نے نہیں کہا تھا کہ احتساب کے معاملے کو پارلیمنٹ کے سامنے رکھو، آپ عدالت لے گئے، تو اب مزے لو۔ اور اوپر سے حریف رو سیاہ ہے کہ میاں صاحب کے عمر بھر کو انتخابات کے لئے نااہل ہونے پر ’’نئے پاکستان‘‘ کے شادیانے بجانے پہ مصر۔ جیسے جیسے احتساب سے زمین تنگ ہوتی جاتی ہے، ویسے ویسے احتساب کا ڈنکہ پیٹنے والوں کی باچھیں کھلتی جاتی ہیں۔ ابھی تو اقامہ کا حساب عمر بھر کے لئے مقدر ٹھہرا ہے۔ آگے آگے دیکھئے پانامہ کے لامتناہی گناہوں سے کیا ہیبت ناک پردہ اُٹھتا ہے۔ تیل دیکھو اور تیل کی دھار کے مصداق اگر مکافاتِ عمل کو دیکھیں تو اڈیالہ جیل کی کسی بڑے مکین کی آمد کی تیاریوں کی خبروں پہ کوئی اچنبھا نہیں۔ عمر بھر کی نااہلی اور جیل کے بعد کیا ہونا ہے؟ اُس کی خبر کی تلاش کی بھی چنداں ضرورت نہیں۔ گیند پھر پنجاب کے لیڈر کی جماعت مسلم لیگ نواز ہی کے کورٹ میں ہوگی۔ کیا پارٹی 2002ء کے انتخابات کی طرح دُم دبا کر انتخابات کی راہ لے گی یا پھر کمر ٹھونک کر احتجاج کی راہ پہ گامزن ہوگی؟ ایسے میں اگر دُختر نیک بخت مریم نواز بھی ہمراہی جیل ہو گئیں تو کیا برادر خورد راہِ عافیت اختیار کریں گے یا پھر مزاحمتی پرچم بلند کریں گے؟ اوپر سے یہ جو فصلی بٹیرے تھے وہ ساتھ دینے سے رہے اور جانے کتنے متوالے ’’قدم بڑھاؤ نواز شریف‘‘ کے نعروں کی لاج رکھ پائیں گے۔ پہلے تو کم ہی نکلے تھے، اس بار دیکھتے ہیں کہ پنجاب کی ٹوڈی روایت ٹوٹتی ہے تو کتنی، ’’مائنس ون‘‘ کرنے والی قوتیں جیتتی ہیں یا پھر عوام کچھ اور فیصلہ کرتے ہیں؟ ویسے بھی عوام کا مقدر ہاتھ ملتے رہنے کے سوا کچھ بھی تو نہیں! بھلے کوئی آئے کوئی جائے، اُن کی بلا سے۔
الہامی کتب کی تفسیر علمائے کرام جیسے بھی کریں، ہم خاکی عالمِ غیب سے سند لانے سے رہے۔ مگر آئین آسمانی صحیفہ ہے، نہ اُس کے خالق عالمِ غیب کے مکیں۔ بھئی! اگر عوامی نمائندگی کے لئے اہلیت کی کسی الوہی اور مجرد شق پر پورا نہ اُترنے کی کوئی مدت آئین میں تحریر نہیں، تو پارلیمنٹ سے رجوع کرنے میں کیا امر مانع تھا؟ جیسا کہ جسٹس عظمت سعید نے عندیہ بھی دیا۔ لیکن عدالتِ عظمیٰ کو کون آئین کی کیسی ہی تشریح سے روک سکتا ہے، بھلے آئین سازوں کی منشا کچھ اور ہی رہی ہو۔ اقامہ پر تصوراتی آمدنی نہ ظاہر کرنے پر سابق وزیراعظم صادق و امین نہ پائے جانے پہ نااہل تو قرار دیئے گئے تھے، لیکن یہ معمہ حل ہونا ابھی باقی تھا کہ عمر بھر کے لئے یا پھر اُسی دورانیے کے لئے جس کے لئے اُن کے کاغذاتِ نامزدگی صداقت و امانت کی کسوٹی پر پورا نہ اتر پائے؟ اب عدالتِ عظمی نے عمر بھر کی رسوائی اور نااہلی پر مہر ثبت کر کے احتساب کا قلم توڑ دیا ہے۔ یہ ہمارے مردِ مومن جنرل ضیاالحق تھے جنھوں نے اپنی مجلسِ شوری کے لئے صالح لوگوں کی اہلیت اور نااہلیت کے کڑے اور تجریدی معیار رکھے تھے۔ اور جو اُن کی کاسہ لیس اسمبلیوں میں غیرپارٹی انتخابات کے چور دروازے سے پہنچے تھے، اُن کی صداقت و امانت سے کون واقف نہیں۔ متفقہ اٹھارہویں ترمیم کے خالقوں نے اہلیت کے پیمانوں کو شق 62 (جس میں 1-F کی صادق و امین ہونے کی ذیلی شق بھی شامل تھی) کو برقرار رکھا تھا کہ قدامت پسند مسلم لیگی اور ہمارے جید علمائے دین جو صداقت و امانت میں لاثانی ہیں کا یہی اصرار تھا۔ لیکن نااہلی کی شق 63 پر توجہ دیتے ہوئے اُنھوں نے نااہلی پر دو سے پانچ برس کی نااہلی کی مدتوں کا تعین کر دیا تھا۔ یہ کسے معلوم تھا کہ کبھی شق 62 کو شق 63 کے بغیر بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ یہ عدالتِ عظمیٰ کا استحقاق ہے کہ وہ آئین کو مجموعی طور پر پڑھتے ہوئے بھی کس شق کو کن شقوں کے ساتھ پڑھے نہ پڑھے اور ویسے بھی فوجداری اور دیوانی معاملات میں فرق بھی تو ملحوظِ خاطر رکھنا ہے۔ اب جیسے ہی قانون دان ناک بھوں چڑھایا کئیں۔ اب تو یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عوام کیسا ہی فیصلہ کریں اور پارلیمنٹ کیسی ہی ترمیم کرے جب تک عدالتِ عظمیٰ کی تشریح موجود ہے کذب و خیانت کا داغ دھلنے والا نہیں۔ ایک سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا ہے کہ جس بنیاد پر یوسف رضا گیلانی کو فارغ کیا گیا تھا، بالکل اُسی بنیاد پر عدالتِ عظمیٰ نے دوسرے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو فارغ نہیں کیا تھا، اُن کے خیال میں عدالت کچھ ایسا ہی اس معاملے میں درمیانی راہ اختیار کر کے اداروں میں تصادم سے بچنے کی راہ نکال سکتی تھی۔ لیکن انصاف کا بول بالا کرنے کے لئے زمین پھٹے یا آسمان گرے، منصف کیوں پرواکریں۔ ایسے میں عدلیہ اور مقننہ میں تصادم تو ہونا ہی ہے، آج نہیں تو کل!
اب اگلے انتخابات کے منصفانہ انعقاد کی زمین کافی ہموار ہو چکی ہے اور اگلے مہینوں میں یہ نئی فصل کے لئے تیار ہوگی۔ سینیٹ کے انتخابات میں بھی، یہ راہ ہموار ہوئی تھی۔ اب فاٹا، بلوچستان اور کراچی میں یہ راہ ہموار ہوئی دکھتی ہے ۔ ہمارے سرائیکی وسیب کے جاگیردار، پیر اور تمن دار بھی اُس دھرتی کی علیحدہ شناخت اور صوبے کے لئے میدان میں ہیں جس کا خون نچوڑنے اور پسماندہ رکھنے میں اِن خانوادوں نے کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ وسطی پنجاب کے ہوا کے رُخ کو دیکھ کر راہ لینے والے اشراف بھی ’’تبدیلی‘‘ کے رتھ پر سوار ہونے کے لئے پر تولتے دکھائی پڑتے ہیں۔ بس کچھ دیر ہی کی تو بات ہے۔ انتخابات کی چونسر اس لئے تو نہیں بچھائی جا رہی کہ آصف علی زرداری سب پہ بھاری ہو جائیں۔ پنجاب تو مسلم لیگ کے ہاتھوں سے نکل سکتا ہے، لیکن پیپلز پارٹی کے ہاتھ میں پھر سے آنے والا نہیں کہ بھٹوز کا طلسم خود جانشینوں نے توڑ دیا ہے۔ رہی عمران خان کی تبدیلی، تو ان کے بقول ’’تبدیلی آئی نہیں آ گئی ہے‘‘۔ لیکن اس تبدیلی میں یہ تو ہونے سے رہا کہ مقتدرہ اک اور مصیبت سر لے۔ نواز شریف کو آسمان پہ چڑھا کر جو ملا، وہ کوئی عمران خان کو بانس پہ چڑھا کر ایک اور عذاب کیوں مول لے گا۔ ویسے بھی سرائیکی سندھی رجواڑوں میں وفادار کل پرزوں کی کمی نہیں۔ مثبت نتائج تو ہم دیکھتے چلے آئے ہیں، اگلے انتخابات کیا عجیب الخلقت مخلوق برآمد ہوتی ہے، اُس بروا کے چکنے چکنے پات ابھی سے صاف نظر آ رہے ہیں۔ بس آئین کا بول بالا ہو، بھلے جمہوریہ بھاڑ میں جائے۔ میاں نواز شریف ابھی بھی حیراں ہیں کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ اور اب شاید وہ پوچھیں گے کہ ’’ہمیشہ کے لئے کیوں‘‘؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین