• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ابھی ابھی میں نےفتح محمد ملک ، عطاالحق قاسمی اور ڈاکٹر شاہد صدیقی کے ساتھ علامہ اوپن یونیورسٹی کی تین روزہ ادبی کانفرنس کا افتتاح کیا ہے۔ڈاکٹر شاہد صدیقی نے قسمت کا حال بنانے والےطوطے سے میرے متعلق فال نکلوائی اور پھر مجھے مائیک دیا گیا کہ میں خوداپنی قسمت کا حال پڑھ کر سنائوں ۔اُس کارڈ پر لکھا ہوا تھا ۔’’تم ملک و ملت کےلئے بہت مفید ہو گے ۔قوم کی سرداری نصیب ہو گی ۔دشمن ہمیشہ منہ کی کھائیں گے ۔تم کوئی ایسا کام کرو گے کہ تمہارا نام دنیا میں روشن ہوگا‘‘۔اپنے بارے میں یونیورسٹی کے طوطے کی یہ پیشین گوئیاں سن کر میں ہنس پڑااور کہا :میرے بارے میں کوئی پیشین گوئی آج تک درست ثابت نہیں ہوئی ۔میں نے جب پی ٹی وی کیلئے اپنا پہلا ڈرامہ ’’کی جانڑاں‘‘ لکھا تھا تو اس وقت پی ٹی وی کے ڈائریکٹر پروگرام مشہور ڈرامہ ڈائریکٹر محمد نثار حسین ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے مجھے لاہور سے اسلام آباد بلایا اورکہا’’منصور تم صرف ڈرامہ لکھا کرو۔میں نے اشفاق احمد کو بتاناہے کہ ہماری مٹی نے ایک اور اشفاق احمدکوجنم دے دیا ہے‘‘۔ ان کی پیشین گوئی کو بھی میں نے بڑی بے دردی سے شہر سخن کی گلیوں میں رسوا کیا۔1984 میں ڈاکٹر محمد اجمل نیازی نے میرے متعلق لکھا تھا’’منصور آفاق تخلیقی جراتوں کی شاہراہوں پر منزل کو للکارتا پھر رہا ہے ۔ ایک منفردترین نوجوان کی حیثیت سے اپنی دوستی ،اپنی دشمنی، اپنی بہادری، اپنی محبت کی استقامت اور دیانت کی بدولت اپنے اندر میرِ کارواں بننے کیلئے تمام اوصاف رکھتا ہے۔ وہ گرد و غبار سے نمودار ہونے والا شہسوار ہے ۔مٹی اس کی ہمسفر ہے ،زمین اس کی دوست ہے اور آسمان بھی اُس کا دشمن نہیں ۔مگر افسوس کہ میں ان کی پیش گوئی کو بھی سچ نہیں بنا سکا۔مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ایک دن جب میں اسکول میں صاف ستھرے کپڑے پہن کر نہیں گیا تھا تومیرے کلاس ٹیچر نے میری والدہ کو بلا کر کہا تھا ،’’اس بچے کا خیال رکھا کریں ایسے ذہین بچے دنیا میں کبھی کبھی پیدا ہوا کرتے ہیں‘‘۔ میں کسی کی بھی توقع پر پورا نہیں اترا۔میں نے اپنے آپ کو اتنی بے دردی سے ضائع کیا ہے جیسےمیں ضائع ہونے کیلئے پیدا ہوا تھا ۔
گزشتہ شام ڈاکٹر بابر اعوان سے ملاقات ہوئی توانہوں نے کہا ’’تم وہ شاعر ہو جس سے اُس شاعری کی توقع کی جاسکتی ہےجس کی اِ س وقت پاکستانی قوم کو ضرورت ہے۔گل و بلبل کی نغمہ سرائی چھوڑو اورایسی شاعری کرو جو اندھیروں میں چراغاں کر سکے ۔جو بھٹکےہوئے مسافروں کو راستہ دکھا سکے ۔تم وہ خواب لکھ سکتے ہو جو انقلاب کی تمہید بن سکتے ہیں ۔تم پر جوقلم نازل ہوا ہے وہ شہنشاہوں کے تاجوں سے کھیل سکتا ہے ۔ستم کے سامراجوں کو شکست دے سکتا ہے۔وہ اُس وقت بہت خوش تھے ،میں انہیں افسردہ نہیں کرنا چاہتا تھا ۔سو میں نے ان کے ساتھ وعدہ کرلیا ۔اپنے پڑھنے والوں سے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالی مجھے اپنا وعدہ پورا کرنے کا حوصلہ اور ہمت دے ۔
اُن کی خوشی کاسبب بھی سن لیجئے انہوں نے دراصل تھوڑی دیر پہلے نواز شریف کی تا حیات نااہلی کا مقدمہ جیتا تھا ۔میں نےفیصلہ دیکھا۔یہ فیصلہ جسٹس عمر عطا بندیال کا تحریر کردہ تھا ۔فیصلہ پڑھنے کے بعد میں سوچنے لگا کہ پیچارے پرویز ملک اب نواز شریف کو کیسے منہ دکھائیں گے ۔ بہر حال علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی شاندارادبی کانفرنس جاری ہے ۔شاید ہی کسی یونیورسٹی نے ادب کےحوالے سے ایسی یادگار کانفرنس کرائی ہو میں اس سلسلے میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر شاہد صدیقی کو مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔یہ پہلی کانفرنس ہے جو اُس ادب کی بات کر رہی ہے جو معاشرے پر اثرانداز ہوتا ہے جس میں حکومتیں بدلنے کی قوت ہوتی ہے جو انقلاب کا پیش خیمہ بنا کرتا ہے ۔جو موسم میں تبدیلی لاتا ہے ۔ موسم تو واقعی تبدیل ہورہا ہے ۔کوہسار مارکیٹ میں مظہر برلاس کی میز پر ندیم افضل چن سے ملاقات ہوئی میں نے پوچھا کہ کیا آپ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں گے ۔کہنے لگے۔’’ہاں میں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی دونوں کا امیدوار ہوں ۔ مجھے لگا جیسے وہ محترمہ بے نظیر بھٹو والی پیپلز پارٹی کا ذکر کر رہے ہیں ۔مجھے یہ خبر دیتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ ندیم افضل چن چاہے باقاعدہ پی ٹی آئی میںشامل نہیں ہوئے مگران کے دل میں تحریک انصاف گھر کر چکی ہے۔ظاہری طور پر نہ سہی باطنی طور پر وہ تحریک انصاف میں شامل ہو چکے ہیں ۔پیراگون سٹی کے اصل مالک قیصر امین بٹ ۔جنہیں نیب نے ’’آشیانہ فراڈکیس میں بے گناہ تسلیم کر لیا ہے ۔کہا جارہا ہے کہ اُن کے احباب کی کوشش بھی ہے کہ وہ بھی تحریک انصاف میں شامل ہو جائیں ۔اُن کا تحریک انصاف میں شامل ہونا۔لاہور میں نون لیگ کےلئے ایک بڑا دھچکا ہو گا۔پتہ نہیں سعد رفیق یہ صدمہ برداشت کر سکیں گے یا نہیں ۔کہا جارہا ہے کہ نواز شریف ، مریم نواز اور شہباز شریف کے بعد جن شخصیات کی گرفتاری کے امکانات ہیں ان میں سعد رفیق بھی شامل ہیں۔نا اہل لوگوں کی فہرست میں بھی ان کا نام نظر آرہا ہے۔اس فہرست میں نواز شریف کے بعد جو نام بہت واضح دکھائی دے رہے ہیں وہ وزیر خارجہ اور وزیر داخلہ کے نام ہیں ۔نیب کے کڑے احتساب سے شاید وزیر صحت بھی بچ نہیں سکیں گے ۔نون لیگ کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ جی ٹی روڈ کی پارٹی ہے یعنی جی ٹی روڈ کے اردگرد جو شہر ہیں ان کے تمام ایم این ایز نواز شریف کے ساتھ ہیں۔نواز شریف کو بھی اپنے جی ٹی روڈ پر بہت زعم تھا ۔انہیں نا اہل ہونے کے بعد وہی بادشاہی سڑک ایسی لگی تھی جو ان کے دل بہلانے کا سامان کر سکتی تھی مگر مجھے بڑی تکلیف سے یہ بتا نا پڑ رہا ہے کہ اگلے دس روز میں نون لیگ جی ٹی روڈ کی پارٹی بھی نہیں رہے گی۔ جی ٹی روڈ بھی اپنا راستہ بدل رہا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین