• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چلتے چلتے یہ خبر آئی جس کا ذکر بہت ضروری ہے حالانکہ کالم لکھ چکا تھا۔ آج رات اور صبح دو دفعہ لاہور میں جسٹس اعجاز الحسن کے گھر پر فائرنگ ہونا انتہائی تشویشناک ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ آئندہ آنے والے دن بہت خراب ہیں اور ہر قسم کے لا اینڈ آرڈر کے مسائل اور وارداتیں ہو سکتی ہیں۔ ابھی تفصیل نہیں آئی ہے مگر یہ لمحہ فکریہ ہے۔جسٹس اعجاز الحسن انتہائی قابلِ احترام اور سپریم کورٹ کے سینئر جج ہیں۔یہ عدلیہ پر دبائو ڈالنے کا طریقہ ہے۔
سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی تاحیات نااہلی کے عدالتی فیصلے سے پاکستان کی سیاست پر بہت گہرے اثرات مرتب ہوں گے ۔ پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے عدالتی فیصلے کے بعدیہ فیصلہ پاکستان کی تاریخ کا بڑا عدالتی فیصلہ ہے ، جو دور رس سیاسی اثرات کا حامل ہے ۔ بھٹو کو جسمانی طور پر ختم کیا گیا انکو تختہِ دار پر ایک ڈکٹیٹر نے لٹکایا۔ اس وقت نہ آزاد عدلیہ تھی اور نہ میڈیا آزاد ،نہ سولِ سوسائٹی جبکہ میاں محمد نواز شریف کیلئے یہ فیصلہ ان کے سیاسی کیریئر کے خاتمے کا سبب بن سکتا ہے۔ انکا فیصلہ آزادعدلیہ نے آزاد میڈیا اور مضبوط سوِل سوسائٹی کے وقت کیا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ میاں محمد نواز شریف اگر سیاسی میدان میں رہیں اور تمام مشکلات کا سامنا کریں تو ان کیلئے امکانات بھی موجود ہیں لیکن وقتی طور پر وہ انتخابی سیاست سے باہر ہو گئے ہیں ۔ اس سے ملک میں قائم سیاسی توازن بگڑ جائے گا ۔دوسری طرف پاکستان کی سیاست پر آئین کے آرٹیکل 62 (1 ) ایف کی تلوار لٹک گئی ہے ، جس طرح کسی زمانے میں آئین کے آرٹیکل 58 ( 2 ) بی کی تلوار لٹکتی رہی ہے ۔ اب ’’ پولیٹیکل ڈائنا مکس ‘‘ وہ نہیں ہو گی ، جو گزشتہ ایک عشرے کے دوران یعنی 2008 ء کے بعد رہی ہے ۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور انکے ہم خیال سیاسی رہنماؤں کے سوا کسی اور سیاست دان نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر خوشی کا اظہار نہیں کیا ہے کیونکہ تحریک انصاف کی قیادت کی دانست میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو سیاسی طور پر نقصان ہو گا اور یہ پارٹی کمزور ہو گی ، جس کا فائدہ تحریک انصاف کو پہنچ سکتا ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کا ردعمل انتہائی معقول ہے بلاول بھٹو زرداری ،آصف علی زرداری ، سید خورشید احمد شاہ اور پیپلز پارٹی کے دیگر قائدین نے اس فیصلے پر پارٹی کا طے شدہ موقف بیان کیا ۔ انکا کہنا یہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف کو بار بار آرٹیکل 62 (1 ) ایف کو منسوخ کرنے کیلئے کہا گیا لیکن انہوں نے ہر بار انکار کر دیا اور اب وہ خود اس آرٹیکل کا شکار ہو گئے ۔ عدالت نے تو آئین کے مطابق فیصلہ کیا ۔ اب لڑنے کے بجائے میاں محمد نواز شریف کو خندہ پیشانی سے یہ فیصلہ تسلیم کرنا چاہئے ۔ پیپلز پارٹی کا یہ بھی کہنا ہے کہ آرٹیل 62 (1 ) ایف کی تشریح پارلیمنٹ کو ہی کرنا چاہئے تھی ۔ مسلم لگ (ن) اور تحریک ا نصاف نے سیاست کو عدالتوں میں لیجا کر ملکی سیاست کیلئے کوئی اچھا کام نہیں کیا ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے میاں محمد نواز شریف کی سیاسی غلطیوں کی نشاندہی تو کی لیکن اس فیصلے پر خوشی کا اظہار نہیں کیا بلکہ بین السطور ملکی سیاست پر اس فیصلے کے منفی اثرات کے بارے میں بھی خبردار کیا ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کے اس موقف پر دیگر سیاست دانوں کو بھی غور کرنا چاہئے ۔
مستقبل کا سیاسی منظر نامہ کیا ہو گا ؟ مذکورہ عدالتی فیصلے کے تناظر میں یہ سوال بھی بہت شدت کے ساتھ کیا جا رہا ہے لیکن اس سے پہلے لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ میاں محمد نواز شریف کا اپنا اور ان کی سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کا سیاسی مستقبل کیا ہے ؟ اس میںکوئی شک نہیں کہ میاں محمد نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کو اپنی سیاسی بقاکیلئے بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے اس موقع پر سب سے زیادہ خطرہ منتخب نمائندوں سے ہے ، جو مسلم لیگ (ن) کو چھوڑ سکتے ہیں ۔ تقریباً تمام سیاسی جماعتیں زیادہ تر ان لوگوں کو انتخابات میں ٹکٹ دیتی ہیں ، جو اپنے علاقوں میں اثرورسوخ رکھتے ہیں اور الیکشن جیتنے کی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ انہیں ’’ Electables ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے ۔ یہ لوگ زیادہ تر نظریاتی نہیں ہوتے ۔ انہیں ہر حال میں اقتدار میں رہنا ہوتا ہے اور وہ ہوا کا رخ دیکھتے ہیں ۔ مذکورہ عدالتی فیصلے سے کچھ دن قبل جنوبی پنجاب یعنی سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے 10 ارکان قومی و صوبائی اسمبلی نے مسلم لیگ (ن) سے علیحدگی اختیار کر لی اور جنوبی پنجاب صوبہ محاذ بنالیا ۔ اس بات کا امکان ہے کہ وسطی پنجاب سے بھی بہت سے منتخب ارکان مسلم لیگ (ن) کا ساتھ چھوڑ سکتے ہیں ۔ دوسرا بڑا چیلنج یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اب کس کے پاس ہو گی ؟ میاں محمد شہباز شریف تمام معاملات پرکنٹرول حاصل کر لیں گے یا میاں محمد نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کو قیادت منتقل ہو جائے گی ؟ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی بھی اس طرح کی صورت حال سے دوچار ہوئی تھی ۔ بلاول بھٹو زرداری کو اس بات کا مکمل ادراک ہے کہ ایک سیاسی ’’ Dynasty ‘‘ کو کنٹرول کس طرح کیا جاتا ہے اور ایک بار اگر کنٹرول ختم ہوجائے تو اس کے کیا اثرات ہوتے ہیں ۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) ختم ہو گئی ہے اور اب مسلم لیگ (ش) ہے ۔ بہرحال ایک ’’ Dynasty ‘‘ پر کنٹرول کیلئے خاندان کے اندر کھینچا تانی کی داستانوں سے تاریخ بھری پڑی ہے ۔
ان مسائل اور مشکلات کے باوجود میاں محمد نواز شریف کیلئے نئے سیاسی امکانات پیدا ہو گئے ہیں ، جو قبل ازیں نہیں تھے لیکن ان امکانات سے فائدہ اٹھانے کیلئے نواز شریف کو صبر اور سیاسی تدبر کا مظاہرہ کرنا ہو گا ۔ میرے خیال میں انہیں ایک نئی سیاسی زندگی مل چکی ہے تاحیات نااہلی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ کیلئے سیاست سے باہر ہو چکے ہیں ۔ وہ اب ایسی سیاست کی طرف چلے گئے ہیں ، جسے کچھ ترقی پسند حلقے مزاحمتی سیاست کا نام دیتے ہیں ۔ برصغیر کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کوئی انقلاب نہیں آیا اور نہ ہی یہاں بڑی عوامی بغاوتیں ہوئیں ۔ یہاں کے لوگ متشدد نہیں ہیں لیکن مزاحمتی شاعری ، مزاحمتی سیاست اور مزاحمتی بیانیے کو پسند کرتے ہیں ۔ پاکستان پیپلز پارٹی جب بھی اقتدار میں ہوتی ہے تو اس کی عوامی حمایت کم ہو جاتی ہے اور جب اپوزیشن میں ہوتی ہے تو اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا ہے ۔ مزاحمتی سیاست کسی کی میراث نہیں ، کوئی بھی کر سکتا ہے ۔ میاں محمد نواز شریف کا سیاسی بیانیہ پہلے سے زیادہ سخت ہو گا اور مسلم لیگ (ن) کے دیگر رہنماؤں بشمول میاں شہباز شریف کو بھی یہی بیانیہ اختیار کرنا پڑے گا ، جو ہمیشہ درمیانی راستہ اختیار کرنے کے موقف پر قائم ہے ۔ میرے خیال میں اداروں سے رعایتیں حاصل کرنے والے سیاست دان میاں محمد نواز شریف کی سیاسی عمر پوری ہو چکی ۔ نئی صورت حال ایک نئے نواز شریف کا جنم ہے ۔ اگر وہ اپنی سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) کو ٹوٹ پھوٹ سے بچا سکے ، اپنی ’’ Dynasty ‘‘ پر کنٹرول برقرار رکھ سکے اور نئے سیاسی بیانیہ کیساتھ آگے بڑھ سکے تو ان کیلئے بڑے امکانات موجود ہیں ۔ سیاست میں بڑی طاقت ہے ۔ میاں محمد نواز شریف کا نیا سیاسی بیانیہ دیگر سیاسی جماعتوں کے بیانیہ پر حاوی رہے گا ۔
آئندہ عام انتخابات میں بھی مسلم لیگ (ن) کیلئے امکانات موجود ہیں ۔ میاں محمد نواز شریف نیب میں زیر سماعت مقدمات میں جیل بھی جا سکتے ہیں ۔نواز شریف، انکے خاندان کے افراد اور پارٹی کے اہم رہنما ئوں کے خلاف مزید مقدمات چلنے والے ہیں جن کو حکومت نے بہت عرصے سے cold storage میں رکھا ہوا تھا۔ ان میں سے چند مقدمات کے نتائج اچھے نہیں ہو سکتے خصوصاً ماڈل ٹاون کا مقدمہ۔ وہ ملکی سیاست میں اپنے اہم کردار کو برقرار بھی رکھ سکتے ہیں بشرطیکہ ان میں سیاسی عزم ہو ۔
اس نئی صورتحال میں میاں محمد نواز شریف کو کئی پہاڑ سر کرنا ہونگے ۔ ان کیلئے اچھی بات یہ ہے کہ ان کا سیاسی بیانیہ زیادہ طاقتور ہے ۔ مشکلات ان کمزوریوں کی وجہ سے پیدا ہوئیں ، جو سیاست دانوں میں نہیں ہونی چاہئیں۔ سیاست کو دولت کمانے کا ذریعہ نہیں بنانا چاہئے ۔ دولت کمانے کے کئی اور جائز ذرائع ہیں ۔ ہزاروں ارب کھرب پتی افراد ایسے ہیں ، جو سیاست دان نہیں ہیں ۔ دولت اگر سیاسی طاقت کا منبع ہوتی تو میاں محمد نواز شریف اس حال کو نہیں پہنچتے ۔ سیاسی طاقت کاسرچشمہ عوام ہیں ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین