• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہ رگ…ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
اسٹیٹ بینک نے حال ہی میں ملکی معیشت پر مالی سال 2017-18ء کی دوسری سہ ماہی رپورٹ جاری کی ہے جس میں مختلف شعبوں میں حکومت کی معاشی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 6 مہینوں میں زراعت اور خدمات کے شعبوں میں بہتری آئی ہے، ملک میں امن و امان اور توانائی کی بہتر صورتحال کی وجہ سے بڑے درجے کی صنعتوں میں 10 فیصد گروتھ ہوئی ہے جس میں سیمنٹ، آٹو موبائل، ہوم اپلائنسز اوراسٹیل کی صنعتوں میں پیداواری گروتھ قابل ذکر ہے،زراعت کے شعبے میں کپاس کے علاوہ خریف کی فصلوں نے اچھی کارکردگی دکھائی ہے، گندم، چاول، چینی ، دالوںاور غذائی اجناس کے مطلوبہ ذخائر ہونے کے باعث اِن کی قیمتیں کم رہی ہیں جس سے افراط زر6 فیصد کے ہدف کے مقابلے میں 4.5 فیصد سے 5.5 فیصد تک رہا جبکہ ایف بی آر کی ریونیو وصولی میں اضافہ ہوا ہے۔پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں تیزی آئی ہے اور 100 انڈیکس 46,500 کی سطح عبور کرچکا ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ نجی شعبوں کے بینکوں کے قرضوں میں بہتری آئی ہے اور اُمید کی جارہی ہے کہ اس سال جی ڈی پی گروتھ گزشتہ سال کے 5.3 فیصد کے مقابلے میں 6 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔
ملکی معیشت کے بیرونی شعبے کو دشواریوں کا سامنا ہے جس کا اسٹیٹ بینک نے بھی اپنی جائزہ رپورٹ میں اظہار کیا ہے۔ گزشتہ 6 مہینوں میں ملکی امپورٹس میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ایکسپورٹس میں معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، توقع ہے کہ جون 2018ء تک ملکی امپورٹس اپنے 48.8ارب ڈالر کے ہدف سے بڑھ کر 54.3 ارب ڈالر ہوجائیں گی جبکہ ایکسپورٹس اپنے 23.1 ارب ڈالر کے ہدف سے بڑھ کر 24.6 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہیں جس سے ملک کو تقریباً 30 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہوگا۔ بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور تجارتی خسارے کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی آرہی ہے جو گرکر 17.4 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں جس میں 6.2 ارب ڈالر بینکوں کے فارن کرنسی ڈپازٹس شامل ہیںجس کے نتیجے میں پاکستانی روپیہ دبائو کا شکار ہے اور دسمبر 2017ء سے مارچ 2018ء تک روپے کی قدر میں تقریباً 9.5 فیصد کمی ہوچکی ہے جس کے باعث امریکی ڈالر 116 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ بیرون ملک سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر میں اضافہ ہوا ہے لیکن رواں مالی سال کے پہلے 6 ماہ میںملکی کرنٹ اکائونٹ خسارہ 59 فیصدسے بڑھ کر 7.4 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے جبکہ گزشتہ سال یہ خسارہ 4.6 ارب ڈالر تھا اور توقع ہے کہ رواں مالی سال خسارہ 4.1 فیصد ہدف کے بجائے 5 سے 6 فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔ معیشت کے طالبعلم کی حیثیت سے موجودہ حکومت کی گزشتہ سالوں کے مقابلے میں بہتر معاشی کارکردگی دیکھنے میں آئی ہے لیکن بیرونی شعبے میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ، تجارتی خسارہ، قرضوں کی ادائیگیاں، ایکسپورٹس اور زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، روپے کی قدر پر دبائو حکومت کےلئے اہم چیلنج ہیں۔ ملکی قرضے تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور ان کی ادائیگیوں کیلئے نئے قرضے لینے پڑرہے ہیں۔ معروف اقتصادی ماہر اور سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ اے پاشا کے بقول صرف ایک سال 2016-17ء میں حکومتی قرضوں کا حجم 16 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے اور بیرونی قرضے 83 ارب ڈالر سے تجاوز کرگئے ہیں۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے 3 ارب ڈالر، پیرس کلب میں شامل ممالک نے 5 ارب ڈالر اور چین نے اپنے تجارتی بینکوں کے ذریعے سی پیک کے مختلف منصوبوں کیلئے اب تک 1.6 ارب ڈالر فراہم کئے ہیں جس سے 6.5 ارب ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی کی گئی اور باقی 3.1 ارب ڈالر بجٹ خسارے کو پورا کرنے کیلئے ادا کئے گئے۔
ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے مالی خسارے میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جو بڑھ کر 14 ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے جس کو پورا کرنے کیلئے حکومت کیلئے نئے قرضے لینا ناگزیر ہے۔ قرضوں کی حد کے قانون (Fiscal Responsibility Debt Limitation Act 2005) کے تحت حکومت جی ڈی پی کا 60 فیصد سے زیادہ قرضے نہیں لے سکتی لیکن ہمارے قرضے اس حد سے تجاوز کرگئے ہیں۔ حکومت کو 2022ء تک تقریباً 5 ارب ڈالر سالانہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے جبکہ 2017-18ء میں 6 ارب ڈالر قرضوں کی ادائیگیاں کرنی ہیں جس میں سے 2.4 ارب ڈالر کی ادائیگی کردی گئی ہے اور آئندہ 6 مہینے میں 3.6 ارب ڈالر کی مزید ادائیگی کرنا ہے جس کیلئے دوست ممالک سے شارٹ ٹرم امداد کی درخواست کی گئی ہے۔ قرضے اگر ڈیمز بنانے اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کیلئے لئے جاتے ہیں تو منصوبوں کے مکمل ہونے کے بعد ان سے قرضوں کی ادائیگی کی جاسکتی ہے جو قومی مفاد میں ہے لیکن ہمارے ہاں قرضے کرنٹ اکائونٹ اور بجٹ خسارے پورا کرنے اور پرانے قرضوں کی ادائیگی کیلئے لئے جارہے ہیں۔ حکومت نے حال ہی میں اثاثوں کو ظاہر کرنے کیلئے ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا ہے جس سے توقع کی جارہی ہے کہ حکومت کو تقریباً 5 ارب ڈالر حاصل ہوں گے جو ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت نے اپنے آخری دنوں میں ایمنسٹی اسکیم کا آرڈیننس کے ذریعے اعلان کیا جس کی مدت 30 جون 2018ء تک ہے تاکہ حکومت کو مطلوبہ زرمبادلہ رواں مالی سال میں حاصل ہوجائے جو کرنٹ اکائونٹ اور تجارتی خسارے کو کنٹرول کرنے میں مدد دے گا۔ حکومت نے نئی ایمنسٹی اسکیم میں ساڑھے پانچ لاکھ تنخواہ دار ٹیکس دہندہ طبقے کو کئی سو ارب روپے کی انکم ٹیکس چھوٹ فراہم کی ہے جس سے مڈل کلاس طبقے کو ریلیف ملے گا لیکن اس مراعات سے حکومت کے کرنٹ اکائونٹ خسارے میں مزید اضافہ ہوگا جس کیلئے ایف بی آر کو نئے ٹیکس دہندگان ٹیکس نیٹ میں لانے ہوں گے۔
گزشتہ سال ایف بی آر کے 3500 ارب روپے کے ریونیو میں سے 1482ارب روپے (42.36فیصد) قرضوں اور سود کی ادائیگی میں چلے گئے۔ 775.86 ارب روپے دفاعی اخراجات اور ترقیاتی منصوبوں کیلئے 661.29 ارب روپے خرچ کئے گئے۔ تجزیئے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ حکومت نے مقامی قرضوں پر 1,112 ارب روپے اور بیرونی قرضوں پر 1,118.4 ارب روپے سود ادا کیا جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہم قرضوں کے ناقابل برداشت بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں اور ہمارا زیادہ تر ریونیو اور وسائل قرضوں اور سود کی ادائیگی میں چلے جاتے ہیں جس کی وجہ سے تعلیم، صحت، روزگار، پینے کا صاف پانی اور سماجی شعبوں کے ترقیاتی منصوبوں پر اخراجات کیلئے ہمارے پاس فنڈز دستیاب نہیں۔ یہ صوبائی حکومتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کو ملنے والے خطیر فنڈز صوبے کی ترقی، تعلیم، صحت، صاف پانی کی فراہمی اور جدید انفرااسٹرکچر پر خرچ کریں تاکہ صوبوں میں خوشحالی آئے اور عوام کو بنیادی سہولتیں میسر آسکیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین