• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ عرصہ قبل مغربی ثقافت او رسوچ کو یہاں پھیلانے کے لیے کام کرنے والی کچھ این جی اوز نے پاکستان کے چند اہم شہروں میں خواتین کے حقوق اور اُن کی آزادی کے نام پر ایک مظاہرہ کا انعقاد کیا۔ اس مظاہرہ کے ذریعے پیغام دیا گیا کہ عورت مکمل آزاد ہے اور وہ اپنے فیصلوں کے لیے کسی مرد چاہے وہ باپ ہو، بھائی یا شوہر کسی کے زیر اثر نہیں۔ اس مظاہرہ کا اہم نعرہ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ تھا۔ اس نعرہ نے سوشل میڈیا کے ذریعے بہت سے لوگوں کی توجہ حاصل کی اور بڑی تعداد میں پاکستانیوں نے اپنے غم و غصہ کے ساتھ ساتھ تعجب کا اظہار کیا کہ یہ کون سی تعلیم دی جا رہی ہے اور یہ کیسے حقوق کی بات کی جا رہی ہے جن کا نشانہ شرم و حیا کے ساتھ ساتھ ہماری اسلامی و معاشرتی اقدار ہیں تاکہ مغرب کی طرح پاکستان میں بھی بے راہ روی کو پھیلا کر اس کو فری سیکس سوسائٹی بنایا جائے۔ اس مظاہرہ کے انعقاد کے ایک دو ہفتوں کے بعد پاکستان کے ایک انگریزی اخبار نے ایک خبر شائع کی جسے پڑھ کر محسوس ہوا کہ کس طرح پاکستان میں بے شرمی اور بے غیرتی کو بڑھانے کے لیے انتہائی منظم انداز میں کام ہو رہا ہے اور ہم بے فکرہو کر بیٹھے ہیں۔ خبر بہت خطرناک تھی لیکن اس کو بھی عمومی طور پر نظر انداز کیا گیا۔ خبر کے مطابق رضامندی سے زنا کو جائز قرار دینے کے لیے اقوام متحدہ کی ایک تنظیم کی سفارشات کو پاکستان نے رد کرنے کی بجائے ’’Noted‘‘ لکھا جس کا (خبر کے مطابق) مطلب یہ ہے کہ پاکستان ان سفارشات پر غور کرے گا۔ ان سفارشات میں یہ لکھا ہے کہ ایسے قوانین جو بغیر شادی کیے نا محرم عورت اور مرد کے جسمانی تعلق یعنی زنا پر پابندی لگاتے ہیں اور اُنہیں غیر قانونی تصور کرتے ہیں ، اُنہیں ختم کر دیا جائے تاکہ زنا کو قانونی تحفظ حاصل ہو جائے۔ خبر میں وزارت خارجہ کے ذرائع کے حوالہ سے لکھا گیا کہ انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی پاکستان نے ان سفارشات جن کا حوالہ (The UPR Recommendations- 2017) ہے، کے بارے میں اقوام متحدہ میںاپنا ردعمل "noted" کر کے دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان ان سفارشات پر غور کرے گا۔ خبر کے مطابق ماضی میں بھی پہلے 2008 اور پھر 2012میں اسی تنظیم نے کچھ دوسری متنازع سفارشات کے ساتھ ساتھ رضا مندی سے زنا کے عمل کو جائز قرار دینے کی تجاویز دیں تھیں لیکن دونوں مرتبہ پاکستان نے ان سفارشات کو صاف صاف مسترد کیا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ ہم ان تجاویز پر غور بھی نہیں کریں گے۔ لیکن اس بار ایسا کیا اور کیوں ہوا کہ پاکستان نے ایسے غیر اسلامی اور غیر اخلاقی عمل کو رد کرنے کی بجائے اس پر غور کرنے کا وعدہ کر لیا؟؟ اس بارے میں دفتر خارجہ میں بیٹھے افراد بھی حیران ہیں۔ ذرائع کے حوالے سے خبر میں یہ بھی بتایا گیا کہ یہ عمل ممکنہ طور پر پاکستان کو بدنام کرنے کی بھی سازش ہو سکتی ہے۔ اس خبر کی سنگینی کے باوجود اس پر ابھی تک کوئی ایکشن کہیں سے بھی نہیں لیا گیا اور نہ ہی کسی انکوائری کا حکم سامنے آیا ہے۔ چلیں ٹی وی چینلز سے تو کوئی کیا توقع رکھے کہ اس معاملہ کو اٹھائیں تاکہ ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور یہ بھی پتا لگایاجائے کہ آخر اس عمل میں کون کون شریک ہے اور اُن کا مقصد کیا تھا، لیکن حیرانگی اس امر پر ہے کہ ایک انگریزی اخبار میں اس خبر کے شائع ہونے کے باوجود حکومت کے کان میں جوں تک نہیں رینگی۔ جس روز یہ خبر شائع ہوئی اُسی روز میں نے اُسے سوشل میڈیا میں ٹیوٹر کے ذریعے بھی شیئر کیا اور خصوصی طور پر وزیر خارجہ خواجہ آصف، مریم نواز اوراحسن اقبال کی توجہ کے لیے اُن کے ٹیوٹر ہینڈل کو بھی لنک کیا لیکن کسی نے اس بارے میں کوئی ردعمل نہیں دیا۔ اس معاملہ کو اس کالم کے ذریعے اٹھانے کا مقصد ریاستی ذمہ داروں کی توجہ حاصل کرنا ہے تاکہ اس سازش کو بے نقاب کیا جا سکے اور یہ بھی پتا لگایا جا سکے کہ کون کون سی این جی اوز اس قسم کے ایجنڈے پر یہاں کام کر رہے ہیں اور اُن کے خلاف حکومت کارروائی کرنے سے کیوں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین