• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی سوچ قومی احساس
آج کی دنیا میں جو قومیں آگے نکل گئی ہیں ان کا طرئہ امتیاز یہ ہے کہ بحیثیت ایک قوم ذات، برادری، اونچ نیچ اور غربت و امیری میں نمایاں فرق ہونے جیسی آرائشوں سے وہ پاک ہیں۔ ہم نے اپنے ہی گریبان میں صرف اپنے لئے جھانکا، اور اپنی ہی منعفت کو تلاش کیا، ترقی یافتہ قوموں نے بھی گریبان جھانکا اپنے نقائص ڈھونڈنے کے لئے۔ یہ بات بھی اتنی درست نہیں کہ فلاں قوم کو اس کے حکمرانوں نے تباہ کیا، سوچنے کی بات یہ ہے کہ قوم نے لوٹنے والے تباہ کرنے والے حکمرانوں کو کیوں سر کا تاج بنایا، اجتماع کو افراد کبھی یرغمال نہیںبنا سکتے مغلوب نہیں کر سکتے اور اپنے مطلب کیلئے استعمال نہیں کر سکتے، قوم میں ایک منظم مرتب اور خیر و شر میں تمیز کرنے کی صلاحیت ہو تووہ ایک ایسا اجتماع بنتی ہے جسے تسخیر کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اجتماع اور ہجوم میں فرق ہے مگر جب جہالت زیادہ ہو آگاہی کم ہو تو کروڑوں افراد کا مجموعہ کبھی قوم نہیں بن سکتا، کمزور معاشرے ہروقت اپنے حکمرانوں پر لعن طعن کرتے رہتے ہیں، حالانکہ وہ ان کے اپنے چنیدہ و پسندیدہ ہوتے ہیں، اگر ایک شخص کسی ڈبہ پیر کا مرید ہو جائے یہ جانتے ہوئے کہ وہ صاحب ہدایت و قیادت نہیں، اور وہ پیر اسے غلط راستوں پر ڈال دے یا اس کا گھر لوٹ لے تو پھر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ؎اے باد صبا یہ سب تباہی تیری ہی لائی ہوئی ہے۔ یہ جو کچھ آج ہم من حیث القوم یا من حیث الہجوم بھگت رہے ہیں تو اس میں آخر قصور اکثریت کا ہے یا اقلیت کا، کیونکہ حکمران تو ہمیشہ اقلیت میں ہوتے ہیں، اب جبکہ انتخابات سر پر ہیں تو ہر فرد اپنے مقدر کا ستارہ ہے، تاکہ اسے منزل کی راہ سجھائی دے، ابھی تو بھٹکے ہوئے آہو کو صرف 70برس ہوئے ہیں راستہ گم کئے، اگر یہی چال بے ڈھنگی رہی تو صدیاں بیت جائیں گی ہمارے احتجاج ختم ہوں گے نہ بدلے دن ٹپیں گے، ذات برادری رنگ نسل کی تمیز ہم پر حرام ہے، ان سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کے مفاد کو اولیت دیں گے تو دن پھریں گے۔
٭٭٭٭
پاک بھارت تنازعات اور جامع مذاکرات
آرمی چیف قمر باجوہ نے کہا ہے:پاک بھارت تنازعات کا حل برابری کی سطح پر جامع مذاکرات ہیں، آپریشن ردالفساد آپریشن نہیں نظریہ ہے آخری دہشت گرد کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ ہم ان کالموں میں بارہا یہ عرض کر چکے ہیں کہ تنازعہ کا حل صرف مذاکرات ہوتے ہیں، تاریخ عالم میں بڑی بڑی جنگیں لڑی گئیں لیکن تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہ ملا اور بالآخر مذاکرات ہی سے مسائل کا حل ڈھونڈا گیا، آج بھارت کی جانب سے جنگ مسلط کرنے کی ہوس بار بار ظاہر ہوتی ہے، ہم نے ہمیشہ مدافعت کی اور بھارت نے جارحیت، مقبوضہ کشمیر چونکہ اس کے قبضہ استبداد میں ہے اس لئے اب اس نے وہاں کھلی جنگ برپا کر دی ہے، نہتے کشمیریوں کے خلاف ہم ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کرائے، او آئی سی کچھ کرے، عالمی انسانی برادری نوٹس لے، مسلم امہ کچھ کرے، مگر یہ تلخ حقیقت ہے کہ تنازعات کا حل ہم نے خود ہی ڈھونڈنا ہے، اپنے دفاع کو اطمینان بخش سطح تک مضبوط کرنا ہے اور اس کے ساتھ ہی ڈپلومیٹک مہارت سے بھارت کو کسی طرح جامع برابری کی سطح کے مذاکرات تک لانا ہے، اگرچہ یہ کام مشکل ہے مگر ناممکن نہیں، ہمارا میڈیا، ہمارے حکمران بھارت کے عوام کو قائل کریں کہ وہ اپنے نیتائوں کو تمام تنازعات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی جانب لے جائیں، کیونکہ موجودہ بھارت کی پاکستان دشمن پالیسی صرف بھارتی قائدین اور سیاستدانوں کی ہے بھارتی عوام کی نہیں کیونکہ یہ پالیسیاں بھارت کے حکمرانوں سیاستدانوں کے مفاد میں اور بھارتی عوام کے خلاف ہیں، اگر بھارت، پاکستان سے حالت جنگ میں رہتا ہے تو یہ اس کی انتخابی سیاست ہے، جو صرف اقتدار کے حصول کیلئے ہے۔ جنگ دونوں اطراف کے عوام کی غربت اور محرومی میں اضافہ اور حکمرانوں کے اقتدار اور دولت میں اضافہ ہوتا ہے، ہماری جانب سے ہر سطح پر مذاکرات کا مطالبہ سامنے آنا چاہئے۔
٭٭٭٭
پھولن چاند
چاند ہمارے لاشعور میں بستا ہے، اور وہاں روز نکلتا، ڈوبتا ہے، ہم اپنے اندر باہر چاند ہی ڈھونڈتے ہیں، اور چاند کو اس پر اعتراض بھی نہیں، چین ایک ایسا ملک ہے جو بنیادی طور پر چاندوں کی دھرتی ہے، ایک انجانی مگر دلکش معصومیت ہر چینی چہرے پر کھیلتی رہتی ہے۔ چاند ایک علامت ہے ایک استعارہ ہے کہ سب انسان پھول ہوتے ہیں، چاندنی ہوتے ہیں، اور خوشبو بکھیرتے ہیں، لیکن شیطانی قوتیں ہمیں احترام حسن اور وقار جمال سے دور رکھنے کیلئے ہمارے ہاتھوں کتنے ہی جانداروں کا خون کراتی ہیں، چاند کی سرزمین انسانی قدم سے مانوس ہو چکی ہے، چاند پر امریکی خلا نورد اتر چکے اور واپس بھی آ گئے، اب چینیوں نے چاند پر پھول اگانے کا تہیہ کر لیا ہے تو کوئی بعید نہیں کہ چاند سے چاندنی کے ساتھ پھول بھی آئیں، اگر صوفیاء کرام نے روح میں پھول اگانے کی کامیاب کوشش کی تو چاند پر پھول کیوں نہیں کھلائے جا سکتے، سلطان باہوؒ نے کہا ؎
الف اللہ چنبے دی بوٹی مرشد من وچ لائی ہو
اندر بوٹی مشک مچایا جان پھلن تے آئی ہو
فنون لطیفہ، گلکاری، اور گل کاشت یہ وہ شوق کے سرچشمے ہیں جو انسانی روح کو بالیدگی عطا کرتے ہیں، اب پھول خریدنے کا رواج بڑھ رہا ہے، پھول اگانے کا شوق ماند پڑتا جا رہا، چین کی رفتار بہت تیز ہے وہ وزم سے بزم تک فولاد و ابریشم کا کردار ادا کر رہے ہیں، دنیا بھر میں چینی دست صنعت گر کا چرچا ہے، اچھا اور سستا مال ہر دہلیز تک پہنچانا بھی ہر گھر کی چوکھٹ پر گلدستہ رکھنے کے مترادف ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین