• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہا جاتا ہے کہ جو مکا لڑائی کے بعد یاد آئے اسے اپنے منہ پر مار لینا چاہئے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنمائوں کو بھی گزشتہ کچھ عرصے سے وہ تمام مکے یاد آ رہے ہیں جو لڑائی کے دوران وہ بھولے ہوئے تھے،کبھی نواز شریف میمو گیٹ مقدمے میں کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ جانے کی غلطی کا اعتراف کرتے ہیں تو کبھی میثاق جمہوریت میں پی سی او ججز کو حلف اٹھانے کی اجازت نہ دینے کی شق شامل نہ کرنے پرپچھتاوے کا اظہار کیا جاتا ہے، کبھی پرویز مشرف کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کو آ بیل مجھے مار سے تعبیر کیا جاتا ہے تو کبھی ٹروتھ اینڈ ری کنسیلی ایشن قائم نہ کرنے کو نادانی شمار کیا جاتا ہے، کبھی دھاندلی کے الزامات پر چارحلقوں کو کھولنے کے مطالبے پر تحقیقاتی کمیشن کے ٹی او آرز پر اتفاق نہ کرنے کو حماقت تصور کیا جاتا ہے تو کبھی پارلیمنٹ کو نظر انداز کرنے پر ندامت کا اظہار کیا جاتا ہے، کبھی سانحہ ماڈل ٹاون کو مشکلات کی ابتدا مانا جاتا ہے توکبھی دھرنے کے شرکاءکو کھلی چھوٹ دینے کا عمل سنگین لاپروائی جانا جاتا ہے، کبھی مشاہد اللہ خان کو قربانی کا بکرا بنانے پر پشیمانی کا اظہار کیا جاتا ہے تو کبھی پرویز رشید کو ڈان لیکس کی بھینٹ چڑھانے کو کمزوری گردانا جاتا ہے، کبھی پاناما لیکس کو پارلیمانی کمیشن کے ذریعے حل نہ کرنے پر ہاتھ ملے جاتے ہیں کبھی آئینی عدالت قائم نہ کرنے کو غفلت قرار دیا جاتا ہے تو کبھی نیب قوانین کو آمر کے کالے اقدام سے تعبیر کرتے ہوئے معطل کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اب سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کرتے ہوئے جہاں نا اہلی کی مدت کا تعین کر دیا ہے وہیں حکمراںجماعت کو ان کی ایک اور سنگین غلطی کا احساس بھی دلا دیا ہے۔
سپریم کورٹ کے پانچ فاضل ججز نے متفقہ طور پہ قرار دیا ہے کہ اس آرٹیکل کے تحت جو بھی شخص نا اہل ہوا ہے یا آئندہ ہو گا اس کی نا اہلی تا حیات ہو گی۔ سپریم کورٹ میں نا اہلی کی مدت کی تشریح کیلئے دائر کی گئی درخواستوں میں اگرچہ سابق وزیر اعظم نواز شریف فریق نہیں بنے تھے لیکن لا محالہ ان درخواستوں پر فیصلہ جو بھی آتا اس سے متاثرہ سب سے اہم فریق وہی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر مملکت اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب بھی ان رہنمائوں میں شامل تھیں جو اس اہم فیصلے کو سننے کیلئے سپریم کورٹ پہنچے تھے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف احتساب عدالت میں پیشیاں بھگتتے ہوئے کئی بار اس خدشے کا اظہار کر چکے تھے کہ وہ جانتے ہیں کہ انہیں تا حیات نا اہل کیا جائے گا لیکن خدشے کے حقیقت کا روپ دھارنے پروزیر مملکت اطلاعات سمیت سپریم کورٹ میں موجود ن لیگی کارکنان اس قدر برہم ہوئے کہ انہوں نے نہ صرف عدلیہ مخالف نعرے بازی کی بلکہ کچھ دیر کیلئے شاہراہ دستور کوبند بھی کر دیا۔ سپریم کورٹ کی طرف سے تا حیات نا اہلی کے فیصلے کے بعد بھی بعض ن لیگی رہنماوں نے اعتراف کیا کہ اٹھارویں ترمیم کے دوران آئین میں شامل صادق اور امین سے متعلق شرائط کو نہ نکالنا ان کی بہت بڑی غلطی تھی۔ دوسری طرف سپریم کورٹ کے فیصلے پر بغلیں بجانے والے مسلم لیگ ن کے مخالفین تو یہاں تک کہہ رہے ہیںکہ نواز شریف جس آمر کی حمایت سے سیاست میں داخل ہوئے تھے اسی کی طرف سے آئین میں شامل کی گئی شقوں کی وجہ سے ہی ان کی سیاست سے بے دخلی ہو گئی، اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف اور شہباز شریف کی سیاست کی ابتدا آمریت کے سائے میں ہوئی لیکن یہ امر بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسی نواز شریف اور شہباز شریف نے اپنی سیاسی حکمت عملی،پالیسیوں،کارکردگی اور عوام میں مقبولیت کے باعث ریکارڈ ٹائم میں نہ صرف وزیر اعظم اور وزیر اعلی بن کے خود کو سیاست کا اہل ثابت کیا بلکہ یہ بھی باور کرا دیا کہ آج ملک میں جمہوریت کا سب سے بڑا استعارہ وہی ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر سب سے موثر تبصرہ کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ وہ اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ سیاست دانوں کی قسمت کا فیصلہ عوام کو کرنا چاہئے بد قسمتی سے سیاست کو عدالتوں میں لے جانے کے ذمہ دار نواز شریف اور عمران خان ہیں جنہیں اب اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اسی آرٹیکل 62ون ایف کو آئین کا حصہ بنانے والے جنرل ضیا الحق کے بیٹے اعجاز الحق سے جب میں نے دریافت کیا کہ انکے والد کے بوئے ہوئے کانٹے آج نواز شریف کو چننا پڑے ہیں تو انہوں نے بڑے اطمینان سے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’’انہوں نے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے ضیا الحق شہید کا نام تو آئین سے نکال دیا لیکن اس شق کو نہیں نکال سکے‘‘۔ سید خورشید شاہ سمیت پاکستان پیپلز پارٹی کے بعض رہنما بھی اب یہی طعنے دیتے ہیں کہ 18ویں ترمیم کے وقت انہوں نے اہلیت اور نا اہلیت سے متعلق شقوں میں جنرل ضیا کے دور میں شامل کی گئی ترامیم کو ختم کرنے پر بہت اصرار کیا تھا تاہم تب میاں صاحب رضامند نہیں ہوئے تھے۔ بعض حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ زیادہ زور دینےپر میاں صاحب نے کہا تھا کہ اگر انہوں نے یہ شقیں ختم کرنے کی حمایت کی تو اعجاز الحق ناراض ہو جائیں گے حالانکہ 18 ویں ترمیم 2010 ءمیں پارلیمنٹ نے منظور کی تھی اور تب اعجاز الحق قومی اسمبلی کے رکن نہیں تھے۔ پارلیمنٹ کی رکنیت کیلئے اہلیت اور نا اہلیت کی شقیں باسٹھ اور تریسٹھ 1973 ءکے متفقہ آئین میں شامل کی گئی تھیں ،ان شقوں میں ترامیم کے بارے میں سپریم کورٹ نے بھی اپنے فیصلے میں تحریر کیا ہے کہ جنرل ضیاالحق کے مارشل لا میں کی گئی ترامیم کو اٹھارویں ترمیم میں بھی اسی طرح برقرار رکھا گیا۔ اپنے اضافی نوٹ میں جسٹس عظمت سعید نے تو یہ تک لکھا کہ درخواست گزاروں کی ایک بڑی تعداد رکن پارلیمنٹ رہ چکی ہے اور ہوسکتا ہے کہ آئین میں یہ ترمیم انہوں نے ہی کی ہو جو آج ان کے راستے میں حائل ہوگئی ہے۔انہوں نے اٹارنی جنرل کی اس دلیل سے بھی اتفاق کیا کہ اس معاملے کا فیصلہ پارلیمنٹ کو کرنا چاہئے۔ قارئین کی یاداشت کیلئے ذکر کر دوں کہ 1973ءکے آئین کی اصل دستاویز میں ارکان پارلیمنٹ کی اہلیت سے متعلق آرٹیکل 62 میں صرف اے سے ڈی تک چار ذیلی دفعات جبکہ نا اہلیت سے متعلق آرٹیکل 63 میں مرکزی دو دفعات اور دفعہ ون کی پانچ ذیلی دفعات شامل تھیں۔ اسکے بعد جنرل ضیاالحق نے مارشل لاء کے دور میں صدارتی حکمنامے کے ذریعے ان مذکورہ آرٹیکلز میں اسلامی مواد کے نام پر ترامیم کے ذریعے کافی اضافہ کر دیا اور پھر 1985 ءمیں پارلیمنٹ سے آئین میں شامل کی گئی ان ترامیم کی توثیق بھی کرا لی۔ ان ترامیم کے تحت ارکان پارلیمنٹ کی اہلیت سے متعلق آرٹیکل 62میں چار ذیلی دفعات یعنی ڈی کے بعد ای سے آئی تک مزید پانچ ذیلی دفعات کا اضافہ کر دیا گیا جن کے مطابق ایسا شخص رکن پارلیمنٹ بننے کا اہل نہیں ہو گا جو اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم نہ رکھتا ہو،اسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند اور کبیرہ گناہوں سے مجتنب نہ ہو، صادق اور امین نہ ہو،وہ اخلاقی اقدار کی خلاف ورزی یا جھوٹے ثبوت پر سزا یافتہ نہ ہو، اس نے قیام پاکستان کے بعد ملکی سالمیت کے خلاف کام کیا ہو یا نظریہ پاکستان کی مخالفت کی ہو،ان ترامیم کے اضافے کے ساتھ ذیلی شق ڈی کوبھی تبدیل کردیا گیا کہ وہ اچھے کردار کا حامل نہ ہو اور عام طور پر احکام اسلام سے انحراف میں مشہور ہو۔اسی طرح ارکان کی نا اہلیت سے متعلق آرٹیکل 63 کی مرکزی دفعہ ایک کی ذیلی دفعات میں’’ ای ‘‘کے بعد’’ پی‘‘ تک گیارہ نئی دفعات کا اضافہ کر دیا گیا۔ پرویز مشرف کی آمریت میں بھی سال 2002 میں ایل ایف او کے ذریعے آئین اوران دفعات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی تاہم سب سے اہم بات یہ ہے کہ 18 ویں ترمیم میں جمہوریت پسندوں نے 1973 کے آئین میں آمروں کی طرف سے شامل کی گئی دیگرغیر جمہوری شقوں کے ساتھ باسٹھ اور تریسٹھ میں کی گئی دیگر ترامیم کو ختم کر دیا لیکن جنرل ضیا کے دور میں کئے گئے اضافے اور تمام ترامیم کو من و عن چھوڑ دیا۔ یہی نہیں بلکہ آرٹیکل 62 کی ذیلی دفعہ ون ایف میں مزید اضافہ کرتے ہوئے عدالتی ڈیکلریشن کا ذکربھی شامل کر دیا۔ یوں آمریت کا لگایا زخم برسوں بعد بھی ٹیسیں دے رہا ہے جس پر جمہوریت پسندوں کے پاس اب کراہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین