• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ کے ایک اور فیصلہ کے تحت سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی کی مدت کو تاحیات قرار دیا گیا ہے۔ اس فیصلے کے ملکی تاریخ پر جہاں طویل المدت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں وہاں شریف خاندان کو آنے والے حالات میں ایک نئے چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس لئے کہ مسلم(ن) کے اندر کس شریف کی بالادستی ہوگی، یہ بات تو دل خوش کرنے کی ہے کہ بقول میاں شہباز شریف، میاں نواز شریف ہی ہمارے قائد ہیں۔ ان کے اکثر قریبی ساتھی یہ کہتے ہیں کہ یہ صورتحال چند ہفتوں میں بدل سکتی ہے اس لئے کہ دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح مسلم لیگ(ن) میں بھی خوشامدیوں کا ایک گروہ موجود ہے جو جلد ہی یہ نعرے لگانے والا ہے کہ میاں شہباز شریف قدم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ اس پر میاں نواز شریف کو جدہ میں قیام کے دنوں میں اپنا وہ تاریخی جملہ یاد آئے گا جب انہوں نے سرور پیلس میں اپنے چند مداحوں سے پوچھا تھا کہ پاکستان میں نواز شریف قدم بڑھائو ہم ساتھ ہیں، بقول میاں صاحب کے وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا کہ کوئی بھی ان کے پیچھے نہیں تھا۔کیا یہ صورتحال پھر تو پیدا نہیں ہوجائے گی، سپریم کورٹ کے حالیہ تین چار فیصلوں کے بعد بین الاقوامی سطح پر آزاد عدلیہ کا تصور ابھرا ہے، اس سے یقینی طور پر معاشی طور پر ہماری ملکی بیلنس شیٹ بہتر ہوسکتی ہے ۔ اس لئے کہ پاکستان میں حالیہ سالوں میں کئی متنازع فیصلوں کی وجہ سے بڑی بڑی غیر ملکی اداروں اور فرموں نے پاکستان کے ساتھ اقتصادی شعبوں میں کاروبار یا شراکت میں احتیاط شروع کردی تھی۔ اب غیر ملکی سرمایہ کار گروپوں کو اطمینان ہورہا ہے اس کے ساتھ ساتھ اس حالیہ فیصلے سے یقینی طور پر دوسری تمام سیاسی جماعتوں کیلئے بھی ایک واضح پیغام ہے کہ صادق امین ثابت کئے بغیر ان کا بھی کوئی سیاسی مستقبل نہیں ہے۔اس سے ہوسکتا ہے کہ دس پندرہ سال کے بعد پاکستان میں پارلیمنٹ کیلئے ایماندار لوگ ہی الیکشن لڑنے کیلئے رہ جائیں اور باقی سب صفایا ہوجائے، مسلم لیگ(ن) کیلئے یہ فیصلہ یقینی طور پر ایک صدمے سے کم نہیں ہے، مگر اس سے اس کو مستقبل میں اپنے آپ کو سیاسی طور پر مضبوط بنانے کے مواقع بھی تو مل سکتے ہیں، جس کے تحت وہ اپنی ماضی کی غلطیوں کا احساس کریں، مثال کے طور پر جس وقت وزیر اعظم کے طور پر میاں نواز شریف کو 18ویں ترمیم کی منظوری سے قبل 62ون ایف کے خاتمہ کی تجویز پیپلز پارٹی سمیت سیاسی جماعتوں کی اکثریت نے دی تھی۔ پتہ نہیں کس کس کے مشورے پر اس ترمیم پر رضامند نہ ہوئے، شاید ان کی کوئی مصلحت تھی جس کی قیمت اب انہیں چکانا پڑرہی ہے۔ اللہ کی شان دیکھیے کہ بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر ان کے پرانے اتحادی آصف علی زرداری اس وقت دوبارہ سیاسی فرنٹ میں ایکٹو نظر آرہے ہیں جن کی ساکھ پر ایک سے زیادہ سوال اٹھتے ہیں، مگر ان کے کریڈٹ میں یہ بات جاتی ہے کہ وہ مصالحت کے نام پر سیاست کرتے ہیں۔
بہرحال پاکستان کے موجودہ حالات کے پس منظر میں سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے یقیناً گہرےاثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اس سے ہوسکتا ہے کہ قومی سطح پر سیاست میں کرپشن کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہو ا ور احتساب کے عمل کو تیز کرنے میں مدد مل سکے۔پاکستان کے موجودہ حالات کا سب سے بڑا تقاضا بھی یہی ہے کہ پاکستان میں کرپشن کا خاتمہ اور احتساب کا عمل تیز ہو اس لئے کہ کرپشن ہمارے معاشرے میں 30۔35سال پہلے ایک سے دو فیصد کرتے تھے اور وہ ایسا کرنے پر منہ چھپاتے پھرتے تھے، پھر یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا گیا اور اب شاید چند فیصد افراد رہ گئے ہیں جو بالواسطہ یا بلاواسطہ کرپشن کا حصہ نہیں بنے اس کرپشن نے دنیا میں ہمارا امیج بھی خراب کیا ہے اور قومی سطح پر معاشی ناانصافی کو بھی تقویت دی ہے جس کے خاتمہ کی موجودہ حالات میں اشد ضرورت ہے اس کیلئے قومی سطح پر ایک سے زیادہ موثر اقدامات کرنے اور ان اقدامات کو سیاسی طور پر متنازع بنانے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین