• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے 5اپریل کوملک میں 5نکاتی ایمنسٹی اسکیم اعلان کے تین دن بعد صدر مملکت نے ’’بیرون ملک اثاثوں کا ڈیکلریشن اور وطن واپسی آرڈنینس 2018ء ‘‘ جاری کر دیا ہے۔ آرڈیننس کے مطابق پاکستان لائے جانیوالے غیر ملکی ظاہر اثاثوں پر ٹیکس ادا کر کے انہیں ریگو لرائز کیا جا سکے گا اور جو غیر ملکی اثاثے پاکستان نہ لائے جائیں ان پر انکی ظاہر کردہ مالیت کا 5فیصد ٹیکس دینا ہوگا ۔ پاکستان کے باہر غیر منقولہ اثاثے ظاہر کرنے پر انکی مالیت کا تین فیصد ٹیکس دینا ہوگا اگر بیرون ملک موجود اثاثے پاکستان واپس لاکر حکومتی سیکوریٹیز میں سرمایہ کاری کیلئے استعمال کیا گیا تو ان پر 2فیصد ٹیکس لگے گا ، لیکن ان پر تین فیصد کے حساب سے منافع بھی ملے گا ۔ یہ تمام ٹیکسز ڈالر میں ادا کئے جائینگے۔ اس اسکیم سے کوئی ایسا شخص فائدہ نہیں اٹھا سکے گا جو یکم جنوری2000ء کے بعد کسی سرکاری عہدے پر رہا ہو۔ یہ ا سکیم 10اپریل سے30جون 2018ء تک کارآمد رہے گی ۔ وزیراعظم نے کہاہے کہ اسکیم کا مقصد حکومت کے خزانے میں زیادہ ریونیو جمع کرنا نہیں بلکہ وہ پاکستانی جو پورا ٹیکس نہیں دیتے ، انکو ایک اور موقع دینا ہے جبکہ مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے پریس کانفرنس کے بعد میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہاکہ اس ا سکیم سے حرام پیسہ بھی حلال کرایا جاسکے گا ۔ یہ تو اس سکیم کے حکومتی مقاصد ہیں لیکن اصل حقائق کیا ہیں اور کونسے مقاصد حکومت حاصل کرنا چاہتی ہے ، اس اسکیم کو دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی نے نہ صرف یکسر مسترد کر دیا بلکہ کہا ہے کہ حکومت ختم ہونے میں ڈیڑھ ماہ باقی ہے، یہ صرف انتخابات میں فائدہ حاصل کرنے کا ا سٹنٹ ہے اور ایسے اقدام آئندہ آنیوالی حکومت کا مینڈیٹ ہے ۔ معاشی ماہرین کی اکثریت نے اسکو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ا سکیم دراصل فنانشل این آر او ہے، جسکا اجرا بدنیتی کی بنیاد پرکیا گیاہے تاکہ اپنے قریبی لوگوں ، رشتہ داروں اورپاناما لیکس میں نا م آنیوالوں کو نوازا جا سکے اور ترغیب دی جاری ہے کہ آپ بڑی سے بڑی کرپشن کریں، کالا دھن باہر لے جائیں منی لانڈرنگ کریں پھر اس لانڈری اسکیم کے ذریعے صاف ستھرے ہو کر دوبارہ کرپشن کی فیکٹریاں لگا لیں اور بدعنوانی کو فروغ دیں۔ اس اسکیم کی اہم ترین شق یہ ہے کہ اس سے استفادہ کرنے والوں کے نام افشا نہیں کئے جائینگے، اگر کوئی سرکاری افسر ایسے کریگا تو اسے دس لاکھ روپے جرمانہ اور ایک سال قید ہوگی جبکہ رائٹ ٹو انفرمیشن ایکٹ کااطلاق ان معلومات پر نہیں ہوگا ۔ اس ا سکیم کے اجرا پر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے حکومت پاکستان کو لکھے گئے خط میں اس تشویش کا اظہار کیا ہے کہ اس سے دہشت گردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کی صورت میں دہشتگردی کیخلاف عالمی جنگ پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ۔ خود حکومت کے اندر سے ایف بی آر نے تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ ریئل اسٹیٹ صوبائی معاملہ ہے اور وفاقی حکومت پراپرٹی کے حصول کا حق نہیں رکھتی، چنانچہ اس آئینی معاملے کی بنیادپر ایمنسٹی ا سکیم عدالت میں چیلنج ہو سکتی ہے،2013ء میں بھی متعارف کرائی گئی ایسی اسکیم کو لاہور ہائیکورٹ نے غیر آئینی اور کالعدم قرار دیا تھا ۔
معاشی ماہرین کاا سٹیٹ بینک اور آئی ایم ایف کی رپورٹس کی روشنی میں یہ کہنا ہے کہ حکومت نے بڑھتی ہوئی درآمدات اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی کیلئے2017ء میں 6.9ارب ڈالر قرض لیا اور کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ ملکی تاریخ میں ریکارڈ حد تک بڑھ چکا ہے ۔ مالی خسارے کو کم کرنے اور ادائیگیوں کے توازن میں بہتری لانے کیلئے جا ری کی ہے۔ بیرونی قرضے 61ارب ڈالر سے بڑھ کر 90ارب کے قریب ہو چکے ہیں۔ آئی ایم ایف نے بھی اسکی مخالفت کی ہے کہ زر مبادلہ کے ذخائر 12ارب ڈالر تک رہ گئے ہیں اور یہ ذخائر صرف ڈھائی ماہ کی درآمدات کے برابر ہیں، گو حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ اس ا سکیم سے 2401سے زائد پاکستانی شہری اپنے بیرون ملک غیر اعلانیہ اثاثوں کو وائٹ کرا سکیں گے، جنہوں نے حال ہی میں دبئی میں پرتعیش جائیدادیں خریدی تھیں ۔ صرف اسی سے 470ارب روپے کے لگ بھگ سرمایہ پاکستان لایا جائیگا ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت جتنے مرضی دعوے کرے یہ اسکیم بھی ماضی کی طرح کامیاب نہیںہوگی ۔ اُسکی سب سے بنیادی وجہ حکومتی کریڈبیلٹی ہے۔جہاں تک یہ سوچ ہے کہ یہ پیسہ ملک میں واپس آئیگا اور یہ سب لوگ ٹیکس نیٹ میں شامل ہو جائینگے تو ایسا نہیں ہوگا کیونکہ سرمایہ داروں کی سوچ ہے کہ ’’ گین وقتی اور پین مستقل ہے‘‘ اسلئے ماضی کی طرح یہ اسکیم بھی بُری طرح ناکام ہوگی ، ن لیگ نے پہلی جو ایمنسٹی سکیم دی تھی اسمیں ایک فیصد ٹیکس دینے سےکالے کو سفید کرنے کی کشش تھی لیکن اب یہ 5فیصد ہے تو کوئی بھی سرمایہ دار ٹیکس کے پیچیدہ نظام کے ہوتے ہوئے بیرون ملک سے اپنی رقوم کو لانے سے گریز کریگا اور ہو سکتا ہے کہ چند مخصوص افراد جنہوں نے بے نامی جائیدادیں بنا رکھی ہیں وہ استفادہ کر یں ۔ لیکن ایسا ہوتا ہوا بھی نظر نہیں آتا کیونکہ ایسا ہونے سے عدالتوں میں چلنے والے کیسز غیر متعلقہ ہو جائینگے ۔ دوسری طرف چیف جسٹس آف پاکستان نے غیر ملکی کھاتوں کا پہلے از خود نوٹس لیتے ہوئے حکومت سے دبئی اور بیرون ملک جائیدادیں خریدنے والوں کی فہرستیں منگوائی ہیں اور اب اس اسکیم کا جائزہ لینے کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔ پاکستان میں پیسہ واپس لانے کی صرف ایک ٹھوس وجہ نظر آتی ہے کہ ستمبر 2018ء میں بیرون ملک خفیہ اثاثے رکھنے والوں کا پول کھلنے والا ہے۔ کیونکہ پاکستان اقتصادی تعاون و ترقی کی عالمی اور کثیرالجہتی تنظیم (او ای سی ڈی) کا 2016ء کا رکن بن گیا ہے اور دنیا کے 80سے زائدممالک ایک بین الاقوامی معاہدے پر دستخط کر چکے ہیں ۔ اس معاہدے کے مطابق اگر بیرون ملک اثاثے رکھنے والے ڈکلیئرنہیں کرتے تو ستمبر2018ء سے خود کار نظام کے تحت خفیہ اثاثے رکھنے والوں کا پول کھل جائیگا اور انکی جائیدادیں بھی ضبط کی جا سکتی ہیں۔
یہ اسکیم حکومت ایسے وقت میں لارہی ہے جب اسکو یہ یقین ہوگیا کہ اب انکی حکومت نہیں آسکتی، حالانکہ 2015ء کا بجٹ پیش کرتے وقت اسحاق ڈار نے ایسی اسکیم لانے کا علان کیا تھا پھر نومبر 2016ء میں ایف بی آر کی شدید مخالفت کے باوجود اسکی منظوری دی گئی اور اب انکو یقین ہوگیاکہ حرام کو حلال کرنے کا یہ آخری موقع ہے ،وزیراعظم کا یہ دعویٰ کرنا کہ اسکا مقصد ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا ہے تو قطعی طور پر معنی نہیں رکھتا کیونکہ اسوقت 20کروڑ 70لاکھ ملک کی آبادی میں سے صرف12لاکھ افراد ایسے ہیں جو ٹیکس نیٹ میں ہیں، ان میں سے 5لاکھ صفر کی ریٹرن جمع کراتے ہیں جبکہ صرف سات لاکھ افراد ٹیکس دیتے ہیں اور ان میں سے بھی 90فیصد افراد کا تعلق تنخواہ دار طبقے سے ہے ، جہاں تک ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کا تعلق ہے تو وہ لوگوں کے اندر اس اعتماد کو پیدا کرنے اور بحال کرنے سے ہی ممکن ہے کہ یہ جو ٹیکس اکٹھا ہوگا وہ صحیح معنوں میں ملکی ترقی اور شہریوں کو صحت، تعلیم اور بہتر زندگی گزارنے کی سہولتیں فراہم کرنے پر خرچ ہوگا اور ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کو بھی کم کرنا ہوگا ۔ لیکن اگر انکااعتماد بحال نہیں ہوتا تو پھر حرام کو حلال کرنے کی جتنی مرضی پُرکشش ا سکیمیں لے آئیں وہ کامیاب نہیں ہونگیں اور نہ ہی حرام حلال ہو سکتاہے!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین