• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آٹھ سالہ آصفہ بانو کی لاش ملی تو اس کا معصوم بدن زخموں سے چور تھا۔ ظالموں نے اسے اجتماعی جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا تھا. آصفہ کی لاش 17جنوری کو ریاست جموں و کشمیر کے جموں صوبے کے ہندو اکثریتی ضلعے کٹھوعہ سے برآمد ہوئی، اسے آٹھ دن پہلے ایک ہندو شدت پسند پولیس افسر دیپک کھجوریہ کی قیادت میں قصبے کے چند افراد نے اغوا کیا، اس کے بعد اس کو ایک ہفتے تک ایک مندر میں محصور رکھا گیا جس دوران اسےمسلسل جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا،مسلمان اقلیت سے نفرت کا یہ عالم ہے کہ ان شدت پسندوں نے مندر میں نہ صرف اپنی عبادات جاری رکھیں بلکہ آصفہ کو زیادتی اور تشدد کا نشانہ بناتے وقت بھی وہ منتروں کا چاپ کرتے رہے جیسے وہ کوئی عبادت کر رہے ہوں۔غم سے نڈھال آصفہ کے گھر والوں نے اس کی تدفین کرنی چاہی تو لاٹھیوں اور ہاکیوں سے لیس شدت پسندوں نے انہیں قبرستان جانے سے جبراً روکا اور دھمکیاں دیں، نتیجتاً رات کی تاریکی میں اس ننھی کلی کو ایک اور گاؤں لے جانا پڑا جہاں اسے سپرد خاک کردیا گیا۔
عورتوں اور بچوں پر جبر و تشدد کے بڑھتے ہوئے رحجان کی کئی سماجی اور نفسیاتی وجوہات ہیں، جنگ یا افراتفری کے دوران تو پرانے زمانے سے ہی عورتوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، عراق جنگ میں امریکی افواج نے ہزاروں عورتوں پرجسمانی تشددکیا، مغربی طاقتوں اور اسرائیل کی حمایت یافتہ عالمی دہشتگرد داعش نے عراق اور شام میں غیر مسلم عورتوں کو نہ صرف منظم طور پر جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ غلام بناکر ان کی خریدو فروخت کیلئے ضابطے بھی مقرر کئے، اسی طرح شام میں جاری خانہ جنگی میں شامی عورتوں کو بڑے پیمانے پر جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جو ہنوز جاری ہے، مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر نسل کشی کے باوجود ابھی بھی میانمار میں آنگ سانگ سوچی کی مسلمان مخالف بودھ شدت پسند حکومت بچی کھچی روہنگیا اقلیت کی عورتوں کے خلاف بڑے پیمانے پر جسمانی تشدد جاری رکھے ہوئے ہے، ریاست جموں وکشمیر میں 1990ءکی عوامی بغاوت کے بعد سے اب تک سینکڑوں عورتوں کے ساتھ جسمانی تشدد کیا گیا جو کشمیری عوام کو زیر کرنے کا ریاستی جبر اور تشدد کی پالیسی کا ایک لازمی حصّہ ہے۔
آصفہ کے ساتھ زیادتی اور قتل کے بعد ریاستی حکومت اور اس کے اداروں نے ہر ممکن طریقوں سے قاتلوں کی مدد کی، سب سے پہلے پولیس نے اہم شواہد ضائع کئے اور ساتھ ہی انصاف کی دہائی دینے والے آصفہ کے والدین اور اس کے رشتہ داروں کی جانب سے ایف آئی آر درج کرانے کی کوششیں ناکام بنا دیں، جموں کے ایک جواں سال مسلمان وکیل طالب حسین نے جب انصاف کےلئے کوششیں کیں تو ہندو شدت پسند حکمراں جماعت بی جے پی کے ارکان نے اسے تشدد کا نشانہ بنایا، اس کے بعد اسے جموں میں پولیس نے گرفتار کرکے دو دن تک غیر قانونی حراست میں رکھا یہاں تک کہ اسے ہندو شدت پسندوں کو خوش کرنے کیلئے بدنام زمانہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کرنے کا پلان بنا رہی تھی، جموں و کشمیر پولیس کے ہاتھوں یہ قانون ایک ریڈی میڈ ہتھیار ہے جس کے ذریعے ہزاروں یا شاید لاکھوں کشمیریوں کو اب تک پابند سلاسل کیا جاچکا ہے کیونکہ اس کی مدد سے پولیس کسی بھی شہری کو کوئی وجہ بتائے بغیر چھ ماہ سے دو سال تک گرفتار کرسکتی ہے۔
مسلمانوں کے احتجاج کے نتیجے میں بالآخر پولیس نے جب قاتلوں کا سراغ لگاکر انہیں گرفتار کیا تو ہندو شدت پسند جماعت راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور بی جے پی کے رہنما وجے شرما نے ہندو ایکتا منچ کے نام سے ایک تحریک شروع کی جس کا مقصد ملزموں کو عوامی دباؤ کے ذریعے بچانا مقصود تھا، ہندو ایکتا منچ نے قومی جھنڈے اور ہتھیاروں کے ساتھ کئی جلسے جلوس نکالے جن میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی اور جے شری رام کے نعروں میں قاتلوں کی رہائی کا مطالبہ کیا، ان جلسوں میں سرکاری ملازموں، وکلا اور سیاستدانوں نے شرکت کی، خود وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کی کابینہ میں شامل دو ہندو شدت پسند وزرا نے بھی ان جلسوں میں شرکت کی جن میں وزیر جنگلات چوہدری لال سنگھ نے مشتعل ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے اسے قتل کا ایک معمولی واقعہ قرار دیا، اس سارے ہنگامے میں محبوبہ مفتی تماشا دیکھتی رہی اور تو اور ریاستی خواتین کمیشن کی سربراہ اور حکومتی پارٹی کی اہلکار نعیمہ مہجور نے بھی کوئی تبصرہ کرنا گوارہ نہیں کیا، مہجور جو کسی زمانے میں بی بی سی کی براڈکاسٹر رہی ہیں اور وہاں سے نوکری ختم ہونے کے بعد کشمیر میں مسلم مخالف حکومتی مشینری کا حصّہ ہیں نے اس سے پہلے فوج کیجانب سے کشمیری عورتوں پر تشدد کی ذمہ داری خود ان عورتوں پر ڈالی تھی اور انہیں صلاح دی کہ وہ گھروں سے نہ نکلیں۔
گزشتہ ہفتے کے اوائل میں جب پولیس بالآخر قاتلوں کے خلاف ضلع کٹھوعہ کی عدالت میں چارج شیٹ داخل کرنے جارہی تھی تو کالے کوٹوں میں ملبوس ہندو شدت پسند وکلانے انہیں احاطہ عدالت کے اندر داخل ہونے سے روک دیا اور نعرے بازی کی، قانون کے ان ’’محافظوں‘‘ نے اس پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ کٹھوعہ بار ایسوسی ایشن نے بعد میں ایک اخباری بیان کے ذریعے اپنے اس فرقہ واریت سے بھرپور قبیح عمل کا پر زور انداز میں دفاع کیا، انہوں نے محبوبہ مفتی کی ہندو شدت پسندوں کی ساجھے داری میں قائم حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا کہ وہ ’’لوگوں کے جذبات کو سمجھنے سے قاصر ہے‘‘ اس کے ساتھ ہی انہوں نے جموں کی بار ایسوسی ایشن کے ساتھ ملکر عام ہڑتال کی کال دی جو جموں صوبے کے ہندو اکثریتی تین اضلاع میں کامیاب رہی، جسمانی تشدد اور قتل کے مجرموں کے حق میں وکلا کا یہ احتجاج عالمی میڈیا میں بڑی خبر بن گیا شاید اسلئے کہ دنیا میں ایسا پہلی بار ہوا ہو کہ قانون کے پاسدار اسطرح کھل کر مجرموں کے حق میں سامنے آئے، اس کے بعد بھارتی میڈیا کو بھی معصوم آصفہ یاد آگئی اور یہاں کے سیاستدانوں اور عوامی شخصیتوں کو بھی میڈیا جو عام طور پر مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتا ہے وہی انصاف کی دہائی دینے لگا،اسکی ایک وجہ بھارتی ریاست اتر پردیش میں اناو میں بی جے پی کے ایک ممبر اسمبلی کے ہاتھوں ایک عورت کاجسمانی تشدد اور اسکے بعد پولیس کی حراست میں انصاف کی دہائی دینے والے اسکے والد کی موت بھی ہے، اسطرح دیکھتے دیکھتے بھارت بھر میں کٹھوعہ اور اناو میں جسمانی تشددکی کارروائیوں اور قاتلوں کیخلاف عوامی جذبات کی وہ لہر اٹھی کہ بالآخر بی جے پی کے دو وزراء کو استعفیٰ دینا پڑا اور وزیراعظم مودی نے مجرموں کے خلاف کارروائی کا وعدہ کیا، اگرچہ یہ بات حوصلہ افزا ہے مگر کشمیر میں لوگ زیادہ پر امید نہیں ہیں کیونکہ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ لوکل جج صاحبان بھی فرقہ وارانہ رنگ میں رنگے ہوئے ہیں، مزید براں کشمیریوں کے خلاف جسمانی تشددکے کسی بھی واقعے میں ابتک انصاف نہیں ہو سکا ہے۔
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین