• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جو کام عمران خان نے کیا وہ کوئی دوسرا سیاستدان کر تو نہیں سکا مگر اعتراضات ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ کیا حکومت، کیا میڈیا، کیا سیاسی لیڈر، کیا تجزیہ نگار سب کے سب عمران خان پر برس پڑے۔ بجائے اس کے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین کی حمایت کی جاتی اور اُن کی بہادری اور خلوص کو سلام پیش کیا جاتا، عمران خان پر پے در پے حملے جاری ہیں کہ جیسے عمران خان نے کوئی جرم کر دیا ہو۔ اگر حکومت کی طرف سے وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک نے کوئی کسر نہیں چھوڑی کہ ڈرا دھمکا کر امن مارچ کو روکا جا سکے تو مولانا فضل الرحمن نے بھی عمران خان کے خلاف خوب پروپیگنڈہ کیا۔ چوہدری نثار علی خان نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہوئے عمران خان پر اپنا غصہ نکالااور اعتراض کیا کہ امن مارچ شمالی وزیرستان کیوں نہ گیا۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ اپنی گرتی ہوئی شہرت کو سہارا دینے کے لیے یہ امن مارچ کیا جا رہا ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو چوہدری صاحب خود شمالی وزیرستان کیوں نہیں چلے جاتے؟؟؟ مولانا فضل الرحمن کا تو اپنا معاملہ اتنا متنازعہ ہے کہ خود طالبان کے نشانہ پر ہیں۔ وزیر داخلہ کاکیا کہنا، اُن کی تو کسی بات پر اعتبار ہی نہیں کیا جا سکتا اور اب تو سپریم کورٹ نے اُن کو جھوٹ بولنے پر یہ تک کہہ دیا کہ وزیر داخلہ امین نہیں رہے۔
سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ میڈیا نے بھی عمران خان کو بھی خوب آڑے ہاتھوں لیا۔ کسی نے کہا کہ عمران سیاست کر رہے ہیں تو کچھ اس بات پر مصر تھے کہ امن مارچ نجانے کتنے انسانوں کی جان لے گا۔ یہ بھی کہا گیا کہ عمران خان نے ریلی میں شامل لوگوں کی جان کو خطرے میں ڈال دیا۔ خطرے کی بات کرنے کے ساتھ ساتھ طنزاً یہ بھی کہا جاتا رہا کہ امن مارچ جنوبی وزیرستان کیوں جا رہا ہے؟؟؟ وہ شمالی وزیرستان کیوں نہیں جاتے؟؟؟ یہ بھی پوچھا جاتا رہا کہ کیا اس مارچ سے ڈرون حملے رک جائیں گے؟؟؟ سو جتنے منہ اتنی باتیں۔اصل مسئلہ کہ ڈرون حملوں کو رکنا چاہیے پر بات بہت کم ہوئی۔ سارا زور اس پر تھا کہ عمران خان نے امن مارچ کا فیصلہ کیوں کیا۔ دوسرے سیاستدانوں کی طرح اگر ہاتھ پر ہاتھ دھرے عمران خان بھی گھر بیٹھے رہتے تو کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوتا۔ تحریک انصاف کی سیاست پر اعتراض اپنی جگہ مگر کیا یہ قابل ستائش بات نہیں کہ عمران خان نے وہ کام کر دکھایا جو حکومت اور کوئی دوسری سیاسی پارٹی نہیں کر سکی۔ یہاں تو حالت یہ ہے کہ ڈرون حملے ہمارے حکمرانوں کی حمایت کے ساتھ ہو رہے ہیں اور وکی لیکس نے اس سلسلے میں پیپلز پارٹی اور حکمراں ٹولہ کی ساری منافقتوں کو پوری دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دیاتھا۔ کیا یہ حقیقت نہیں عمران پہلے دن سے امریکا کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ اور ڈرون حملوں کے خلاف ہیں؟؟؟ کیا یہ سچ نہیں کہ عمران خان پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ9/11 کے بعد کی امریکا نواز پالیسیوں کو گردانتے ہیں اور بغیر کسی لگی لپٹی کے ان پالیسیوں کی مخالفت کرتے رہے؟؟ یہ کس نے کہا کہ امن مارچ سے ڈرون حملے فوراً بند ہو جائیں گے۔ امن مارچ کا مقصد تو دنیا کو ڈرون حملوں کے ظلم سے آگاہ کرنا تھا اور اس کی مخالفت کو بڑھانا تھا۔ کیا اس مقصد کو عمران خان کسی حد تک حاصل نہیں کر سکے۔ امن مارچ تو ایک علامتی احتجاج کا طریقہ تھا۔ اگر نقاد عمران خان کی کوشش اورامن مارچ کے نتائج سے مطمین نہیں تو ذرا اس بات پر روشنی ڈالیں کہ حکومت، پاکستان مسلم لیگ ن اور ق، مولانا فضل الرحمن کی جمعیت، عوامی نیشنل پارٹی، ایم کیو ایم وغیرہ نے اب تک اس سلسلے میں کیا کیا ہے اور کون کون سے عملی اقدامات اُٹھائے ہیں؟؟؟
امریکا کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ اور ڈرون حملے اب تک چالیس ہزار سے زیادہ پاکستانیوں کی جانیں لے چکے ہیں۔ بے نظیر بھٹوکی اکتوبر 2007 میں کراچی آمد اور پھر 27 دسمبر کو راولپنڈی میں جلوسوں اور جلسہ کا انعقاد حکومتی وارنگز کی خلاف ورزی تھا۔ دونوں موقعوں پر دہشت گردی کے واقعات ہوئے اور بے نظیر بھٹو سمیت درجنوں افراد جاں بحق ہو گئے۔ مگر اُس موقع پر یہ اعتراضات تو نہ کیے گئے کہ پیپلز پارٹی یا بے نظیر بھٹو نے اپنی سیاست کے لیے اپنی اور دوسروں کی جانوں کو خطرے میں ڈال دیا۔ مگر عمران خان کے ڈرون حملوں کے خلاف امن مارچ کے موقع پران کو لوگوں کی جان کو خطرہ میں ڈالنے پر خوب کوسا گیا۔ انسانی جانوں کا ذکر ایسے کیا گیا جیسے ہمارے ملک میں انسانی جان کی بڑی قدر ہو۔ عمران بے چارا کہتا رہا کہ اُن کی امن ریلی کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں اور یہ کہ طالبان یا قبائل کے لوگ ریلی پر کوئی حملہ نہیں کریں گے مگر تحریک انصاف کے چیئرمین کی بات کو سنی ان سنی کر کے یہی کہا جاتا رہا کہ عمران نے ایک بے جا رسک لیا ہے۔ واقعی یہ رسک تھا مگر اپنی جان کا رسک لے کر عمران خان نے مسلمانوں پر امریکی ظلم کے خلاف آواز اُٹھائی۔ عمران خان نے تو کوئٹہ میں جلسہ کرکے بھی رسک لیا تھا مگر کیا وہ رسک پاکستان کی سالمیت کے لیے ضروری نہ تھا۔ ایسا کیوں ہے کہ عمران اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر سیاست کر رہے ہیں جب کہ ہمارے ”سمجھدار“ سیاستدان اپنے آپ کو کسی ایسے خطرہ میں ڈالنے کیلئے تیار نہیں بلکہ اپنی جان کو بچا بچا کر میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو کی پالیسی پر گامزن ہیں۔
تازہ ترین