• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پانی نہ بجلی یہ ہے کراچی
کراچی، بجلی اور پانی کی عدم فراہمی، شہری سڑکوں پر آ گئے، سپر ہائی وے بلاک۔ کراچی میں امن تو فوج، پولیس نے فراہم کر دیا، کیا پانی بجلی بھی رینجرز اور پولیس کی ذمہ داری ہے؟ پی پی جو سندھ میں برسراقتدار ہے، ن لیگ کی مخالفت اور حکمرانی میں کیڑے نکالنے میں پیش پیش ہے اس نے اپنے گریبان میں بھی جھانکا ہے، کہ کراچی ایک طویل عرصے سے بجلی پانی کو ترس رہا ہے اس کا ہی کچھ مداوا کر دے، مرکز بھی شاید یہ چاہتا ہے کہ الزام پی پی کے گلے پڑے اس لئے ہاتھ کھینچ لیا ہے، حکومت سنبھالنے کا شوق ہر سیاسی پارٹی کو ہے مسائل حل کرنے کی فرصت، توفیق کسی کو نہیں، شہری جو بڑی چاہت سے کسی کو حکمران بناتے ہیں، بعد میں پچھتاتے ہیں، اور ان کا بس صرف سڑکوں پر چلتا ہے، اور سڑکیں مسائل کےستائے لوگوں کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے ہی شاید بنائی جاتی ہیں اس لئے سندھ حکومت کے سینے میں ٹھنڈ ہے کہ کیا کر لیں گے سڑکیں ہیں ان پر آ کر احتجاج کریں گے اور تھک ہار کرنا امیدی کا ہار گلے میں پہنے گھروں کی لوٹ جائیں گے، ووٹ لینے اور ڈیلیور نہ کرنے کا سلسلہ یوں تو چاروں صوبوں میں جاری ہے، لیکن سندھ کا پہلا نمبر، دمادم مست قلندر، بلاول ہائوس جو چیخ چیخ کر سیاسی نو سربازی روسٹرم پر دکھاتا ہے، وہ کیوں اپنے وزیر اعلیٰ کو فعال نہیں بناتا، ملک کے سب سے بڑے اور اہم شہر کراچی میں بدانتظامی ایک معمول بن چکا ہے، چیف جسٹس خود ہر مسئلے کا نوٹس لیتے پھرتے ہیں اور جن کی ذمہ داری ہے وہ مزید مطمئن ہو گئے ہیں کہ عدلیہ ہے اب ہمارے حصے کا کام بھی وہ کرے گی، مگر ہم اس کے کاموں کا اثر عوام تک نہیں پہنچنے دیں گے، تھر میں موت کا رقص ہو رہا ہے، اور سندھ حکومت تماشائی بنی بیٹھی ہے، یہ اذیت پسندی کی عادت کب حکومت سندھ ترک کرے گی؟ پانی، بجلی اور گرمی کا زور چلتا ہے مگر کراچی کے ذمہ داران بے حس ہیں، جو پارٹی اپنی ناک تلے کچھ نہیں کر پاتی وہ پورے ملک میں بلند بانگ جلسے کس منہ سے کرتی ہے۔
٭٭٭٭
یاراں فراموش کردند عشق
ایک بڑا مشہور فارسی شعر ہے؎
چناں قحط سالی شد اندر دمشق
کہ یاراں فراموش کردند عشق
دمشق میں ایسا قحط پڑا کہ یار لوگوں کو عشق بھول گیا) عاشق حضرات اس قدر مفلس و قلاش ہو گئے کہ محبوب کو آئے دن قتل کرنے کی خبریں عام ہو گئیں۔ وہ جو کہتے ہیں کہ ’’ڈھڈ نہ پیاں روٹیاں تے سبے گلاں کھوٹیاں‘‘ کے مصداق اس وقت حسن بھی محفوظ نہیں، عشق کی تنگدستی کا یہ عالم ہے کہ عشاق، محبوب لواحقین سمیت مار ڈالتے ہیں، حالات ایسے ہیں کہ جب انسان رو نہیں سکتا تو ہنس پڑتا ہے اور یوں رونے ہنسنے میں فرق مٹ جاتا ہے، ایک صاحب کو کسی سے بہت زیادہ عشق ہو گیا، کچھ عرصہ بعد کسی دوست نے پوچھا بتائو یار تمہارا عشق اب کہاں تک پہنچا؟ عاشق نے کہا میں نے عشق ترک کر دیا ہے، بھلا کیوں دوست نے پوچھا کہنے لگا:میں عشق افورڈ نہیں کر سکتا اس لئے میں نے محبوب کو چوہے مار گولیاں کھلا دیں، کیونکہ ابھی ان کے نرخ نہیں بڑھے، غم روزگار کی ستم ظریفی نے ممتا کا تصور بھی پارہ پارہ کر دیا، مائیں بچوں کو قتل کرنے لگی ہیں، بیٹے باپ کو ماں کو بھائی کو یوں مار ڈالتے ہیں کہ اس طرح تو دشمن بھی نہیں کرتا، محرومی و افلاس ایسا مشروب ہے جسے پی کر انسان کے اندر کا درندہ زندہ ہو جاتا ہے اور باہر آ کر واردات کر دیتا ہے، کتنی ہی خوش فہمیاں خوش خیالیاں جن کے سہارے زندگی اچھی کٹ جاتی ہے اب راستے ہی میں دم توڑ جاتی ہیں کہ تلخ حقیقت کا دور دورہ ہے وہ جھوٹ موٹ کی خوشی کو بھی دم بھر کے لئے زندہ نہیں رہنے دیتا، اس کا ذمہ دار بھی انسان خود ہی ہے، اور اس قسم کے انسان زیادہ تر تیسری دنیا جواب چوتھی دنیا بن چکی ہے میں پائے جاتے ہیں، قصہ مختصر یہ کہ چند خوشحال کروڑوں بدحالوں کے زور پر لوٹ مار کرتے ہیں، اور انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں، اور اگر کوئی پوچھے تو نالی کا رخ اس کی طرف کر دیا جاتا ہے خوف و ہراس خدا کی زمین پر رقص میں اور تماش بین محو نظارہ اب زبانیں بھی گنگ، اشاروں کنایوں سے بھلا بھڑاس کب نکلتی ہے۔
٭٭٭٭
ڈنگ ٹپائو مٹی پائو
ایک پڑھے لکھے دوست نے اپنے پڑھے لکھے دوست سے پوچھا دوست آج کس موضوع پر لکھ رہے ہو اس نے ترت جواب دیا ڈنگ ٹپائو پر، اور کچھ دنوں بعد یہ عالم کہ ڈنگ ٹپانا بھی مشکل ہو گیا، اگر سچ پوچھیں تو سارے موضوعات ایک طرح کے ہیں، جیسے ایک ہی رقاصہ لباس اور میک اپ بدل بدل کر اسٹیج پر آتی ہے، کیونکہ تھیٹر کے پاس فقط ایک رقاصہ ہی رہ گئی ہے، جسے دیکھ دیکھ کر تماشائیوں نے دیکھنا چھوڑ دیا، گویا ایک ہی کہانی سب کی زبانی، یا داستان ایک داستان سرا ہزار، ایک انار بھی اب باقی نہیں رہا مگر ہر طرف بیمار ہی بیمار، انسان ایک خاص حد تک خود کو دھوکا دے کر وقت گزاری کر سکتا ہے، عذاب کا لمحہ وہ ہوتا ہے جب اس کے پاس دھوکے بھی باقی نہ رہیں، یہ جو لوگ کہتے ہیں کہ حالات کے جبر نے مار دیا ان کو شاید یہ معلوم نہیں ہوتا کہ جبر بھی اختیار کی پیداوار ہے، ہم آج اگر کسی حوالے سے مجبور ہیں تو اپنے اختیار سے، اور اختیار ایک ایسا ٹول ہے جس کا صحیح استعمال کسی کسی کو آتا ہے، ذرا سی غلطی ہوئی اور انسان اختیار سے جبر کی کھائی میں گر گیا، مٹی پائو فارمولا کے موجد نے بھی اب یہ کہنا چھوڑ دیا ہے، کیونکہ صورتحال یہ ہے کہ وہ مٹی کہاں سے لائوں جو تیرے اوپر ’’پائوں‘‘ مٹی بہت مہنگی ہو گئی ہے، اتنی کہ اب سر پر دوپٹہ کیا سر پر چھت بھی نہیں، خدا نے سارا کچھ جیسے ایک کمرے میں مہیا کر کے تمام تر طریقے بھی سکھائے، اور خود ایک طرف ہو گیا کہ یہ انسان ونڈ کے کھاتے ہیں یا گتھم گتھا ہو کر سب کچھ گنوا بیٹھتے ہیں، ہم نے عقل و خرد، شرم و حیا، ہمت و محنت، اخلاق و محبت سب کی کوئی لاج نہ رکھی، بلکہ انہیں ترک ہی کر دیا، انسان اس لئے اشرف ہے کہ اس کے پاس عقل، علم، اختیار ہے اور ان کے ہوتے ہوئے وہ ذلیل و خوار ہے تو قصور کس کا ہے خالق کا کہ مخلوق کا؟
٭٭٭٭
باتیں اور اندازے
....Oماروی میمن: جی حضوری نہ کرنے والوں کو پارٹی میں سائیڈ لائن کر دیا جاتا ہے،
آخر یہ چینل کس مرض کی دوا ہیں، ان پر واویلا کریں، باقی یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہمیں شکایت چوتھی اسٹیج پر کیوں ہو جاتی ہے؟
....Oعمران خان:اعلیٰ عدلیہ پر دبائو ڈالنے کیلئے سسلین مافیا کے ہتھکنڈے ناقابل قبول ہیں۔
خان صاحب فرد جرم عائد نہ کریں، یہ حرکت ہمارا کوئی مشترکہ دشمن بھی کر سکتا ہے،
....Oملک چلایا نہیں جاتا مزید صوبے بنانے کے خرچے ایجاد کرنے پر توجہ مرکوز ہے،
چار صوبے ہی کافی ہیں ان کی گورننس درست ہونی چاہئے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین