• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کون جانتا تھا کہ2011میں وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور ڈاکٹر عمر سیف مابین ملاقات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ یہ ملاقات خدائی رحمت کا اشارہ ثابت ہوئی۔ پارہ صفت شخصیت میاں شہباز شریف کے ساتھ ایک ایسا متحرک فرد جڑ گیا جس نے پنجاب کو ڈیجیٹل بنانے کے منصوبہ کا چیلنج قومی فرض سمجھ کر قبول کیا۔ اس منصوبے کا نہ صرف باقاعدہ آغاز ہوا بلکہ کامیابیوں کی ایک نئی داستان رقم کرگیا۔ جس سنجیدگی سے میاں شہبازشریف نے مرحلہ وار تحقیقاقی تجاویز کی منظوری دی عین اسی پیج پر رہتے ہوئے اتنی ہی تندہی وتوانائی سے ڈاکٹر عمر سیف نے اپنی ٹیم کو منصوبوں پر لگا دیا ہر مرحلہ پر اسکی نگرانی کی، فیڈ بیک موصول کیا اور بہتری کے تمام ممکنات ڈھونڈے۔ بات کہنے کی نہیں بلکہ آنکھوں دیکھا حال ہے کہ تکمیل شدہ اور زیر تکمیل ای پروجیکٹس کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ واقعی یہ وہ جناتی منصوبے تھے جنھیں مکمل کرنا تو دور شروع کرنا بھی آسان نہ تھا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی ہدایات پر پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ نے نہ صرف پنجاب بلکہ سندھ، بلوچستان اور یہاں تک کہ خیبر پختونخوا کو بھی اپنی خدمات فراہم کی ہیں اب اس ادارے کی قابلیت اور اہلیت کا ڈنکا پوری دنیا میں بجنا شروع ہوگیا ہے۔ حج کے نظام کی کامیابی کے بعد نائجیریا کو بھی یہ نظام بنا کردیا گیا جس کے بعد دبئی اور قازقستان سمیت کئی ملکوں میں منصوبے مکمل کئے گئے۔ پنجاب کی ڈیجیٹلائزیشن کے منصوبے میں پنجاب کا ای پورٹل بنانا اور تمام محکموں کو آن لائن لانا جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ موجودہ صورتحال کچھ یوں یہ ہے کہ 2012 میں ڈینگی عفریت سے نجات کے حصول سے شروع ہونے والے ڈیجیٹل انقلاب کے ضمن میں 13 بڑے منصوبے مکمل کردئیے گئے ہیں۔145 اسپتالوں میں ڈینگی ٹریکنگ سسٹم کی موجودگی کے بعد اس کا خاتمہ کردیا گیا ہے۔ ویکسینیشن نظام کے تحت پنجاب کے36اضلاع میں اہلکاروں کی اسمارٹ فونز کے ذریعے نگرانی سے موثر نتائج موصول ہورہے ہیں۔ مراکز صحت میں حاضری کیلئے نصب بائیو میٹرک حاضری کے نظام کی بدولت ڈاکٹروں کی حاضری 53فیصد سے بڑھ کر 87فیصد ہو گئی ہے۔ ادویات کی خریداری کیلئے بھی نظام وضع کردیا گیا ہے۔ پلان9 منصوبہ کے تحت گریجویٹ افراد کو کاروبار کے مواقع فراہم کرنے کیلئے 4.2ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا حصول ممکن ہوچکا ہے۔ 900 سے زائد نوجوان روزگار منصوبے مکمل ہوچکے ہیں۔ اراضی ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن کے جاری منصوبہ میں ساڑھے 5 کروڑ اراضی مالکان کا اندراج ہوچکا ہے جس سے پٹوار کلچر کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ اب تک 86لاکھ فردات کا اجرا اور 6 لاکھ کے لگ بھگ انتقال کئے جاچکے ہیں۔ پنجاب بھر میں 8ای خدمت مراکز کا قیام عوامی خدمت کی نئی مثال ہے جہاں ایک چھت تلے پیدائش، وفات، کریکٹر سرٹیفیکیٹ، نکاح نامہ، طلاق، گاڑیوں کی رجسٹریشن و دیگر سہولیات دستیاب ہیں۔ الیکٹرانک اسٹامپ پیپرز کے اجرا میں جعل سازی ناپید ہوچکی ہے۔66ارب روپے مالیت کے 24 لاکھ کے لگ بھگ پیپرز جاری کئے جاچکے ہیں۔ ہوٹل آئی سافٹ وئیر اور پنجاب بھر میں مختلف عوامی مقامات پر مفت وائی فائی کی سہولت بھی فراہم کی گئی ہے۔ ریستورانوں کو ای نظام کے تحت ٹیکس نیٹ میں لاکر 2 ارب سے زائد ٹیکس وصول کیا گیا۔ شہریوں سے رابطے کے مراکز میں 30خدمات بارے21لاکھ کالیں موصول ہوئیں جن میں سے قابل عمل معاملات میں شہریوں کو ساڑھے چار لاکھ کالیں کی گئیں۔ لٹریسی اینڈ نیومریسی ڈرائیو سسٹم کے اجرا سے پورے پنجاب کے اسکولوں کے تدریسی اور انتظامی معاملات کی مانیٹرنگ رئیل ٹایم میں ممکن ہوگئی ہے اور حقیقی طور پر پنجاب سے گھوسٹ اسکولوں کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ پنجاب کے 714 تھانوں کو کمپیوٹرائزڈ کردیا گیا ہے۔ ایف آئی آر، شکایات کی رجسٹریشن، شہریوں کی بائیو میٹرک تصدیق، مجرموں کے کوائف کا ڈیٹا بینک بنا دیا گیا ہے جس کی مدد سے مجرموں کی کریمنل ہسٹری معلوم کرنا آسان ترین ہو گیا ہے۔ یہ الیکٹرانک انقلاب ایک دن میں نہیں آیا بلکہ اس کے پس منظر میں چھ سالوں کی شبانہ روز جدوجہد ہے۔ ایک طرف تبدیلی کا محض نعرہ لگانے والے حاسدین ہیں جنہوں نے اپنے صوبہ میں ایک بھی قابل ذکر منصوبہ مکمل تو دور شروع بھی نہ کیا وہ خود تو کچھ کرتے نہیں اور پنجاب میں ہونے والے ہر منصوبہ کو مشکوک بنانے کیلئے جھوٹا پروپیگنڈا کررہے ہیں۔ دوسری طرف وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف ہیں جنہوں نے تمام تر جھوٹے پروپیگنڈا کے باوجود ڈیجیٹل پنجاب جیسے عظیم خواب کی منظوری دی اور ڈاکٹر عمر سیف جیسے وطن کے سپوت نے اپنی محنتی اور مخلص ٹیم کی محنت شاقہ سے یہ ممکن بنا ڈالا۔ پاکستان پائندہ باد
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین