• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی لٹریچر فیسٹیول اختتام پذیر ہو چکا ہے ۔ یہ بہت بڑا ادبی میلہ تھا ، جس میں کراچی کا حقیقی لبرل، روشن، انسان دوست اور درگزر کرنے کاچہرہ نظر آیاہے ۔ اس تین روزہ لٹریچر فیسٹیول میں تقریباً 100نشستیں منعقد ہوئیں۔ ایک وقت میں پانچ پانچ نشستوں کا انعقاد ہوا اور ہر نشست میں لوگوں کا جم غفیر تھا۔ خاص طور پر نوجوانوں کی پرجوش شرکت دیکھی گئی ۔ ان نشستوں میں ہم عصر ’’ لیجنڈز ‘‘ کے ساتھ گفتگو کے علاوہ شاعری ، نثری ادب ، موسیقی ، فلم ، ڈرامہ ، تنقید ، مقامی زبانوں کے ادب ، عہد حاضر کے دیگر ادبی اور فلسفیانہ سوالات کے حوالے سے ہمارے عہد کے بڑے لوگوں نے اظہار خیال کیا ۔ اس ادبی میلے میں تقریباً 20کتابوں کی تقریب رونمائی ہوئی ۔ پاکستان ، ہندوستان اور دنیا کے مختلف ملکوں سے ادیبوں ، شاعروں ، دانشوروں اور مختلف فنون سے وابستہ نامور شخصیات نے شرکت کی ۔ کلاسیکی ادب اور کلاسیکی موسیقی پر بھی متعدد نشستیں منعقد ہوئیں ۔ ہر شعبے کی نامور 300 سے زائد شخصیات نے اس میلے میں آکر اسے ایک تاریخی حیثیت دے دی ۔ ان تین دنوں میں میرے اندازے کے مطابق ڈھائی لاکھ سے زیادہ کراچی کے لوگوں نے شرکت کی ۔ دوسرے دن شام کو ایک یادگار مشاعرہ بھی ہوا ، جس میں ہم عصر بڑے شعرا سمیت بہت سے شعرا نےکلام پیش کیا ۔ ایک بہت بڑا کتب میلہ بھی سجایا گیا تھا ، جہاں تینوں دن اسٹالز پر لوگوں کا رش رہا ۔پہلی مرتبہ اس میلے میں جرمنی کی طرف سے امن انعام کا بھی اعلان کیا گیا اور مختلف شعبوں کی ممتاز شخصیات کو ایوارڈ بھی دیئے گئے ۔ کراچی لٹریچر فیسٹیول کا اہتماآ کسفورڈ یونیورسٹی پریس نے کیا تھا جو اس شہر میں کلچر، ادب اور کتابوں پر بڑا کام کر رہا ہے۔ اس طرح کا میلہ وہ لاہور اور اسلام آباد میں بھی کرتا ہے۔ یہ7 واں فیسٹیول تھا ۔ امریکہ ، برطانیہ ، جرمنی ، فرانس اور اٹلی سفارت خانوںکے علاوہ پاکستان کے متعدد اداروں نے بھی اس کے انعقاد میں تعاون کیا ۔ پہلے دن امریکی قونصل جنرل، برٹش ہائی کمشنر، جرمن قونصل جنرل، فرانسیسی سفارت کار ، اٹلی کے قونصل جنرل اور دیگر ملکوں کے سفارت کار خود اس میلے میں تشریف لائے اور انہوں نے اسے بہت زیادہ اہمیت دی ۔ افتتاحی سیشن میں ڈاکٹر پرویز ہود بھائی اور فہمیدہ ریاض نے بنیادی خطاب کیا ۔ ان تین دنوں میں جو کچھ ہوا ، وہ سالوں میں ہوتا ہے ۔
اس میلے میں جا کر بڑے عرصے بعد یہ خوشگوار احساس ہوا کہ ’’ یہ اصل کراچی ہے ۔ ‘‘ ایک زمانہ تھا ، جب کراچی میں ہر جگہ مشاعرے اور موسیقی کے پروگرام ہوا کرتے تھے ۔ کراچی کے اسٹیج ڈرامے دیکھنے کیلئے دوسرے شہروں سے لوگ آتے تھے ۔ کافی اور ٹی ہاؤسز پر ادیبوں ، شاعروں اور دانشوروں کی محفلیں لگتی تھیں۔ ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کی وجہ سے کراچی کی پہچان ہوتی تھی ۔ سارے ادبی ، فلسفیانہ اور سیاسی مباحث کا مرکز کراچی ہوتا تھا اور کراچی کا بیانیہ پورے ملک میں چلتا تھا کیونکہ کراچی کا چہرہ لبرل اور روشن خیال چہرہ تھا ۔ یہاں پاکستان کے ہر علاقے کی تہذیب و ثقافت اور ادب کی ترویج ہوتی تھی ۔ رواداری کا ماحول تھا ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کراچی کے لوگوں کے بارے میں یہ تاثر تھا کہ وہ پڑھے لکھے ہیں اور یہاں ہونے والے علمی مباحث سے دیگر لوگوں کو تحریک ملتی ہے ۔پھر اچانک یہ منظر غائب ہو گیا جو اب کافی عرصے بعد دوبارہ ابھر رہا ہے ۔ کراچی لٹریچر فیسٹیول میں پہلے والا کراچی نظر آیا ۔ فرق صرف یہ تھا کہ ہماری جگہ نئی نسل نے لے لی ہے ۔ فیسٹیول کی تمام نشستوں میںبہت سے روکھے اور پیچیدہ موضوعات پر باتیںبھی ہوتی رہیں ۔ اسکے باوجود لوگ خصوصاً نوجوان پورے انہماک سے یہ باتیں سنتے رہے ۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ لوگوں نے جو سوالات کئے ، ان سے یہ بات واضح ہو گئی کہ مباحث کا تسلسل ٹوٹا نہیں ہے اور یہ خدشہ غلط ثابت ہوا کہ ہم اپنا ورثہ نئی نسل میں منتقل نہیں کر سکے ہیں ۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ آج کے نوجوان اپنی تہذیب ، تاریخ ، ثقافت اور ادب سے بیگانہ ہو گئے ہیں ۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے انہیں دیگر مباحث میں الجھا دیا ہے لیکن کراچی لٹریچر فیسٹیول میں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ نوجوان اپنے شاعروں اور ادیبوں کو نہ صرف جانتے ہیں بلکہ ان کی تحریروں کے بارے میں بھی وہ تنقیدی نظر رکھتے ہیں ۔ کراچی لٹریچر فیسٹیول میں شہر کے ہر طبقے ، ہر علاقے اور ہر کمیونٹی کے لوگ موجود تھے اور یہ حقیقت جان کر بھی خوشی ہوئی کہ ان کے درمیان ڈائیلاگ کا مضبوط رشتہ بھی موجود ہے ۔ یہاں ڈاکٹر ادیب رضوی، ڈاکٹر ہارون احمد، انیس ہارون، غلام قادر تھیبو، قاضی ساجد، دنشا آواری، جمی اینجینیئر، فریال گوہر، انور مسعود، امر سندھو، باری میاں اور بیشمار دوست احباب سے ملاقات ہوئی۔یہ ایک حیرت انگیز اجتماع تھا ، جس نے اس مایوسی سے نکالا ، جو کراچی کے حالات کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی ۔
آج پاکستان سمیت پوری دنیا تشدد ، انتہا پسندی اور عدم رواداری کے عذاب سے دوچار ہے ۔ عالمی اجتماعی دانش اس تشدد اور انتہا پسندی کے خلاف برسرپیکار ہے کیونکہ تہذیبوں کی بقاء کا سوال پیدا ہو گیا ہے ۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں دنیا کے کچھ علاقوں میں جو تھوڑی بہت کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں ، ان میں ایک کامیابی کراچی کے حالات کا بہتر ہونا بھی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ رینجرز اور پولیس کی کارروائیوں سے کراچی میں خوف کا ماحول ختم ہوا ہے ۔ کراچی میں امن قائم ہو رہا ہے۔المیہ یہ ہے کہ کراچی میں امن قائم ہونے میں یہاں کے حکمرانوں اور سیاست دانوںنے کوئی کوشش نہیں کی بلکہ انھوں نے اپنی کرپشن اور لوٹ مار میں شامل سہولت کاروں اور جرائم پیشہ افراد کو تحفظ دیا اور امن کے آپریشن میں رکاوٹیں ڈالیں۔یہی وجہ ہے کہ آج شہر کے کاروباری افراد، مرد خواتین بچے اور بزرگ سب رینجرز کی موجودگی چاہتے ہیں اور انکے لئے دعاگو ہیں۔لوگ اب گھروں سے نکلتے ہیں اب کراچی آرٹس کونسل میں روزانہ میلہ لگا ہوتا ہے ۔عالمی مشاعروں اور عالمی اردو کانفرنسوں کا انعقاد ہوتارہتا ہے۔ اس کے علاوہ کراچی میں فوڈ فیسٹیول بھی منعقد ہوتے ہیں اور کئی ایونٹس یہاں ایک ساتھ چل رہے ہوتے ہیں ۔ کراچی لٹریچر فیسٹیول حالیہ دنوں کا بہت بڑا اور تاریخی ایونٹ ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ فوج ، نیم فوجی اور سویلین فورسز نے تشدد اور انتہا پسندی کے خلاف کامیاب جنگ لڑی ہے اور قربانیاں بھی دی ہیں لیکن اس جنگ کو حتمی فتح اس وقت حاصل ہو گی ، جب سول سوسائٹی یہ جنگ لڑے گی اور یہ جنگ فن ، ادب اور ثقافت کو فروغ دے کر مستقل طور پر جیتی جا سکتی ہے ۔ ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں سے مختلف مذاہب ، قوموں ، نسلوں اور گروہوں کے درمیان ہم آہنگی اور محبت پیدا ہوتی ہے۔ انتہا پسندی اور عدم رواداری کے رویئےکمزور ہوتے ہیں۔ اس جنگ میں لوگوں کو آگے آنا ہے ۔ کراچی کے امن میں ان ہی لوگوں کا ہاتھ ہے۔ انتہا پسندی اور عدم رواداری کے خلاف ہندوستان میں آواز زیادہ توانا اور موثر ہے ۔ وہاں مذہبی انتہا پسندی کے خلاف سب نے آواز اٹھائی ۔ بڑے بڑے لوگوں نے اپنے سرکاری اعزازات اور ایوارڈز واپس کر دیئے ۔ انہوں نے یہ پیغام دیا کہ وہ امن ، رواداری اور پرامن بقائے باہمی کی حمایت کرتے ہیں ۔
کراچی لٹریچر فیسٹیول ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کی شرکت کو دیکھ کر یہ احساس ہوا کہ ہمارے ہاں بھی انتہا پسندی اور عدم رواداری کے خلاف توانا اور موثر آواز موجود ہے ۔ لاکھوں افراد اپنے ادیبوں اورشاعروں سے متعلق باتیں سننے یا ان کی باتیں سننے پہنچے ہوئے تھے ۔ وہ اپنی ہزاروں سال پرانی تاریخ سے رشتہ جوڑنے کیلئے موجود تھے ۔ انہیں معلوم ہے کہ پاکستان کے بڑے لوگ کون ہیں اور کون پاکستان کی پہچان ہیں ۔ اس میلے میں لوگوں کے جوش و خروش نے نہ صرف کراچی کا نیا لبرل اور روشن چہرہ نمایاں کیا بلکہ یہ امید بھی پیدا کی کہ ہماری آنے والی نسلیں اپنے عظیم تہذیبی اور ثقافتی ورثے سے نہ صرف جڑی ہوئی ہیں بلکہ وہ اس کی حفاظت بھی کر سکتی ہیں اور یہ کہ اب بھی کراچی جاگتا ہے ۔
تازہ ترین