• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

استحصال کیخلاف جنگ پر کچھ لوگ عدلیہ کےدشمن بنے،صدر سپریم کورٹ بار

استحصال کیخلاف جنگ پر کچھ لوگ عدلیہ کےدشمن بنے،صدر سپریم کورٹ بار

کراچی(ٹی وی رپورٹ)صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن پیر کلیم خورشید نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے جس بہادری سے استحصال کیخلاف جنگ لڑی ہے اس میں ن لیگ کے علاوہ بھی کئی لوگ ان کے دشمن بن گئےعدلیہ کو ہراساں کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دیں گے، عدلیہ مخالف تقاریر نشر کرنے پر پابندی کا حکم سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے، آئین کے تحت عدلیہ اور افواج کیخلاف بات کرنا نااہلی کا سبب بن سکتا ہے، ریٹائرڈ جج صاحبان کو پبلک لائف میں نہیں آنا چاہئے، موجودہ حالات میں کوئی ماہر معاشیات نگراں وزیراعظم بن سکتا ہے۔ وہ جیو نیوز کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“میں میزبان حامد میر سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں سابق گورنر پنجاب لطیف کھوسہ ،ن لیگ کے رہنما سینیٹر جاوید عباسی نے بھی بات کی ،سینئر وکیل اکرام چوہدری نے کہا کہ اعجاز الاحسن کے گھر پر حملہ اس مائنڈ سیٹ کی نشاندہی کررہی ہے جو عدلیہ اور احتسابی عمل کے حق میں نہیں ہے۔ ماہر قانون بابر اعوان نے کہا کہ سب کو پتا ہے عدلیہ کے ساتھ کون لڑ رہا ہے، لوہے کا چنا جب کورٹ سے نکلا تو بہت غصے میں تھا، پنجاب کا خادم اعلیٰ اور رانا سانگا روز عدلیہ کیخلاف بیان دیتے ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن کے گھر پر فائرنگ کرنے والوں کی واضح نشاندہی ہونی چاہئے۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ آرٹیکل 63کے تحت افواج پاکستان یا عدلیہ کیخلاف ہرزہ گوئی کرنے والا رکن اسمبلی نااہل ہوسکتا ہے جسٹس اعجاز الاحسن کے گھر پر گلو بٹوں سے پولیس کے تحفظ کے ساتھ حملہ کروایا گیا ، نواز شریف ہمیشہ لاڈلے رہے اور اب بھی لاڈلے ہیں، پیمرا اپنا کام نہیں کررہا تبھی نالش کی ضرورت پڑی، صدر سزا معاف کرسکتا ہے لیکن عدالتی فیصلہ نہیں بدل سکتا ، نگراں وزیراعظم کیلئے عشرت حسین کے نام پر متفق نہیں ہوں گے، ن لیگ کے ساتھ نگراں وزیراعظم کے نام پر متفق نہیں ہوں گے وہ ہمارے نام سے متفق ہوسکتے ہیں۔جاوید عباسی نے کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن کے گھر پر فائرنگ کی مکمل تحقیقات ہونی چاہئے، جیوڈیشل مارشل لاء لگانے کی بات کرنے والے کیخلاف بھی توہین عدالت ہونی چاہئے۔میزبان حامد میر نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا آئین میڈیا کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے، آج سپریم کورٹ کے جج صاحبا ن نے بھی کہا کہ میڈیا کی آزادی اسی وقت ممکن ہے جب عدلیہ بھی آزاد ہوگی، آزاد عدلیہ آزاد میڈیا کی بھی ضمانت ہے، آرٹیکل 19میں ہمیں مادرپدر آزادی نہیں دی گئی اس میں کچھ پابندیاں بھی ہیں، اس میں ایک پابندی توہین عدالت نہ کرنے کی بھی ہے لہٰذا میڈیا کوا س سلسلے میں محتاط رہنا چاہئے اور توہین عدالت والے مواد کو نشر نہیں کرنا چاہئے ورنہ ایسا لگے گا کہ ہم عدلیہ کی آزادی پر حملہ آور نہیں ہورہے بلکہ خود میڈیا کی آزادی پر حملہ آور ہورہے ہیں۔پیر کلیم خورشید نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن کے گھر پر حملے کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی بنائی جائے، جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی اور ایم آئی سمیت تمام ایجنسیوں کے نمائندے شامل ہونے چاہئیں،سپریم کورٹ نے جس بہادری سے استحصال کیخلاف جنگ لڑی ہے اس میں ن لیگ کے علاوہ بھی کئی لوگ ان کے دشمن بن گئے ، عدلیہ کو ہراساں کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دیں گے، عدلیہ کے احترام پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا ہے۔ پیر کلیم خورشید کا کہنا تھا کہ عدلیہ مخالف تقاریر نشر کرنے پر پابندی کا حکم سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے، یہ معاملہ پیمرا پر چھوڑ دینا چاہئے تھا کہ پیمرا وہاں کیا آرڈر پاس کرتا ہے، پیمرا کے دائرہ اختیار کو preemptنہیں کرنا چاہئے تھا،آئین کے تحت عدلیہ اور افواج کیخلاف بات کرنا نااہلی کا سبب بن سکتا ہے، صدر کو سزا معاف کرنے کے اختیار سے متعلق پیرا میٹرز سپریم کورٹ حاکم علی کیس میں سیٹل کرچکی ہے۔پیرکلیم خورشید نے کہا کہ ریٹائرڈ جج صاحبان کو پبلک لائف میں نہیں آنا چاہئے، اگر ان سے غلطی ہوگئی تو لوگ ان پر تنقید کریں گے، موجودہ حالات میں کوئی ماہر معاشیات نگراں وزیراعظم بن سکتا ہے، عشرت حسین آزمودہ ہیں وہ نگراں وزیراعظم کیلئے موزوں نہیں لگتے ہیں، عدلیہ میں غیرمتنازع لوگ ہیں جو سب کیلئے قابل قبول ہوسکتے ہیں، جسٹس (ر) ناصر الملک کے نام پر کسی کو اعتراض نہیں ہوگا ، بطور چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کا کردار بھی شفاف رہا ہے۔سابق گورنر پنجاب لطیف کھوسہ نے کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن کے گھر پر گلو بٹوں سے پولیس کی حفاظت میں حملہ کروایا گیا ، اس حملہ کی تحقیقات پولیس نے کیں تو کچھ نہیں نکلے گا، جسٹس اعجاز الاحسن کے گھر پر فائرنگ عدلیہ کو خائف کرنے کیلئے کی گئی، ن لیگ یہ خوفناک کھیل پہلے جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ بھی کھیل چکی ہے، نواز شریف کو جسٹس سجاد علی شاہ نے بلایا تو انہوں نے سپریم کورٹ پر حملہ کروادیا تھا، جسٹس اعجاز الاحسن شریف خاندان کیخلاف احتساب عدالت میں چلنے والے کیسوں کے مانیٹرنگ جج ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن کا ایک گھر چھوڑ کر مریم نواز کا گھر ہے۔

تازہ ترین