• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بیسویں صدی کے اوائل میں امریکہ میں مشہور ہونے والا یہ جملہ ابلاغیات کے ہر طالب علم نے پڑھ اور سن رکھا ہے کہ’’ ایک تصویر ہزار الفاظ سے بہتر ہوتی ہے‘‘۔ یقینا ایک تصویر وہ سب کچھ انتہائی جامع انداز میں بیان کر دیتی ہے جو مجھ جیسا کج فہم شاید کئی صفحات کالے کرنے کے بعد بھی سمجھانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔اسی لئے کہاجاتا ہے کہ تصویریں بولتی ہیں اور بعض اوقات تو تحقیق کرنے والے لیونارڈو ڈی ونچی کی شاہکار تخلیق مونا لیزا کی پر اسرار مسکراہٹ کا پس منظر جاننے کے لئے بھی برسوں تیاگ دیتے ہیں۔ تصویروں کی زبان سمجھنے والے جہاں چہرے کے تاثرات سے متعلقہ شخص کے جذبات تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں وہیں روشنی کے زیر و زبر سے ان کہی کا سراغ بھی لگا لیتے ہیں لیکن میری طرح جنہیں تصویروں کی زبان ذرا کم سمجھ آتی ہے وہ قیافے لگانے پر ہی اکتفا کرتے ہیں اور دکھائی دینے والی تصویر میں اپنی مرضی کے رنگ بھرنا شروع کر دیتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی گزشتہ ہفتے پاک فوج کے تعلقات عامہ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کی طرف سے جاری کی گئی اس نادر تصویر کے ساتھ کیا گیا کہ ہر کسی نے اس میں اپنی مرضی کے رنگ بھرے۔ تصویر کو نادر اس لئے کہا کہ یہ تصویر جو کہانی پیش کر رہی تھی وہ پاک وطن میں خال خال ہی دیکھنے اور سننے کو ملتی ہے۔ اس نادر تصویر میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف ایک کھلی فوجی جیپ کی ڈرائیونگ نشست پر براجمان ہیں جبکہ ان کے ساتھ والی نشست پر وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف تشریف فرما ہیں۔عقب میں فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کے سربراہ میجر جنرل محمد افضل سوار ہیں۔ یہ تصویر گوادر،تربت،ہوشاب شاہراہ کے افتتاح کے موقع پر اس وقت لی گئی جب آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے وزیر اعظم محمد نواز شریف کو بذات خود گاڑی ڈرائیو کر کے اس نو تعمیر شاہراہ کامعائنہ کرایا۔ یہ تصویر پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان موجودہ تعلقات کی کہانی بیان کرنے کے لئے کافی ہے۔ ریاستی اداروں کے درمیان پائی جانے والی اسی’’ہم آہنگی‘‘ کا ذکر جناب وزیر اعظم نے اسی موقع پر خطاب کرتے ہوئے ان الفاظ میں خود بھی کردیا تھا کہ وہ اقتصادی راہداری منصوبے میں ذاتی دلچسپی لینے پر جنرل راحیل شریف کے مشکور ہیں جنہوں نے حکومت کی مدد کے لئے ایک ساتھ چلنے کا وعدہ کیا ہے۔ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پریہ تصویر جاری کی تو سول اور عسکری قیادت کے اس بے مثال اتحاد پر کوئی جل گیا تو کسی نے دعا دی۔اس تصویر کو اب تک ساڑھے تین ہزار سے زائد افراد لائیک کر چکے ہیں جبکہ ڈیڑھ ہزار سے زیادہ افراد نے اسے ری ٹویٹ کیا ہے۔ جیسا میں نے اوپر بیان کیا کہ اس تصویر میں ہر ایک نے اپنی مرضی کے رنگ بھرنے کی کوشش کی ہے تو اس تصویر پر سول اور عسکری قیادت کے درمیان’’ تعلقات‘‘کے تناظر میں جو تبصرے کئےگئے ہیں ان میں سے اکثر تو ناقابل بیان ہیں تاہم سب سے زیادہ استعمال کیا جانے والا جملہ یہ ہے کہ پاکستان کو ترقی اور سلامتی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لئے آرمی چیف ’’ڈرائیونگ سیٹ‘‘ پر ہیں۔ پاکستان میں مختلف طبقہ ہائے فکر کے درمیان پائی جانے والی یہ سوچ درحقیقت ملکی تاریخ کے اس پس منظر کی عکاسی کرتی ہے جس میں مسلح افواج براہ راست یا بلواسطہ طور پر نصف سے زیادہ مدت تک اقتدار میں شراکت دار رہی ہیں۔ یہی وہ ’’تابناک‘‘ ماضی ہے جو بھلائے نہیں بھولتا اور دودھ کے جلوں کو چھاچھ بھی پھونک کر پینے پرمجبور کر دیتا ہے۔ بھلے دو تہائی اکثریت حاصل کر لو لیکن دھڑکا ہر دم لگا رہتا ہے کہ ابھی پائوں کے نیچے سے زمین سرکی کہ سرکی۔ عسکری قیادت بے شک بارہا جمہوریت کی مکمل حمایت کا اعادہ کرے لیکن وہم کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا۔ سپہ سالا ایک غیر معمولی اقدام کے طور پر مدت ملازمت کے خاتمے سے دس ماہ قبل ہی توسیع نہ لینے کا اعلان بھی کر دے تو اپنے کانوں پر یقین نہیں آتا۔ سیاسی قیادت ہر سانس میں ’’ایک پیج‘‘ پر ہونے کا راگ الاپتی رہے لیکن کھسر پھسر اور سازشی تھیوریاں چین نہیں لینے دیتیں۔ سول اور عسکری قیادت کے درمیان ملکی تاریخ کے بہترین تعلقات کے باوجود آخر یہ سوچ پیچھا کیوں نہیں چھوڑتی آئیے جائزہ لیتے ہیں۔ آج حکومت ختم ہوئی کہ کل، کے خوف میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے گرتے پڑتے پانچ سالہ آئینی مدت پوری کی تو جمہوریت کی مضبوطی کا گمان ہونے لگا ،اسی خوش فہمی میں سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کی کارروائی شروع کر دی گئی لیکن یہ بھلا دیا گیا کہ وہ مسلح افواج کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔ یہی وہ غلطی تھی جو موجودہ حکومت اور عسکری قیادت کے درمیان بحال ہوتے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کا نقطہ آغاز بنی۔ اسی دوران وفاقی وزراء خواجہ آصف اور سعد رفیق کے بیانات نے جلتی پر تیل کاکام کیا جبکہ لاپتہ افراد کے مقدمے میں خواجہ آصف کی مدعیت میں نائب صوبیدار کے خلاف ایف آئی آر کاٹی گئی تو تلخیاں بڑھ گئیں اور جنرل راحیل شریف کو باور کرانا پڑا کہ’’پاک فوج‘‘ کے وقار کا ہر صورت دفاع کیا جائے گا۔وزیر اعظم نے معاملات سلجھانے کے لئے پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں خطاب کرتے ہوئے جنرل راحیل شریف کو نوجوان آرمی افسران کے لئے رول ماڈل قراردیا تاہم چند دن بعد ہی معروف صحافی حامد میر پر قاتلانہ حملے اور حکومتی بیانات نے سخت کشیدگی پیدا کر دی،رہی سہی کسر وزیر اعظم کے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت نے پوری کر دی۔ پھرملکی تاریخ کے طویل ترین دھرنے نے جمہوری حکومت کو نہ صرف انتہائی کمزور کر دیا بلکہ’’ طاقت وروں‘‘ کے رحم و کرم پر بھی چھوڑ دیا۔ حکومت تو بچ گئی لیکن اس کے بعد داخلی اور خارجی متعدد محاذوں پر اختیارات سے دست برداری کی صورت میں وہ کچھ کرنا پڑا جسے یاردوست’’سافٹ کو‘‘ پکارتے ہیں۔ عسکری قیادت نے آپریشن ضرب عضب کے آغاز سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فیصلہ سازی کا اختیار تو اپنے ہاتھ میں لے ہی لیا تھا تاہم اے پی ایس حملے کے بعد جمہوریت پسندوں نے فوجی عدالتوں کے قیام کی لئے اکیسویں آئینی ترمیم کی منظوری اور ایپکس کمیٹیوں میں عسکری حکام کی شمولیت کو ممکن بنا کر سویلین بالادستی سے ہاتھ کھینچ لیا۔ کراچی آپریشن کی کمان ہو یا افغانستان کیساتھ تعلقات کی نوعیت، بھارت کے ساتھ خارجہ پالیسی کی حکمت عملی ہو یا امریکہ کے ڈو مورکے مطالبے پر جوابی بیانیہ،مشرق وسطی کی صورتحال میں پاکستانی موقف ہو یا خلیجی ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات میں ثالثی کا کردار ،فیصلہ سازی کا پنڈولم عسکری قیادت کی طرف جھک گیا۔ ملک بھر میں عسکری قیادت کی مقبولیت کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا اور دہائیوں بعد پہلی بار عسکری قیادت کے پوسٹرز کراچی کی شاہراوں پر بھی آویزاں نظر آئے۔ بلدیاتی الیکشن میں امیدوار اپنے پوسٹرز پر عسکری قیادت کی تصویر کو اپنی کامیابی کی ضمانت سمجھنے لگے اور لوگ ان سے عقیدت کا اظہار مساجد کو ان کے نام سے منسوب کر کے کرنے لگے۔ ماضی کے برعکس یہاں جمہوری قیادت نے دانشمندی کا مظاہرہ کیا اور عسکری قیادت کی اس مقبولیت سے ’’خائف‘‘ہونے کی بجائے اس سے تال میل بڑھانے کی حکمت عملی اختیارکر لی،حتیٰ کہ گڈ گورننس کی وارننگ کو بھی سر آنکھوں پر لیا۔عسکری قیادت سے متواتر ملاقاتوں اور ہر اہم معاملے پر مشاورت کے ذریعے مکمل ہم آہنگی کا پرچار کیاگیا۔ نئی روایت قائم کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف نہ صرف اہم بیرونی دوروں پرعسکری قیادت کو اپنے ہمراہ لے جاتے ہیں بلکہ ملکی ترقی اور خوشحالی کے ہر اہم منصوبے کا فیتہ بھی عسکری قیادت کو شانہ بشانہ لے کر کاٹتے ہیں۔اس پس منظرمیں آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری کی جانے والی یہ تصویر بخوبی عکاسی کر رہی ہے کہ سول اور عسکری قیادت کے درمیان نہ صرف اہم قومی امور پر مکمل اتفاق رائے پایا جاتا ہے بلکہ ان کے درمیان ملکی تاریخ کی بہترین ورکنگ ریلیشن شپ بھی ہے۔
تازہ ترین