• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شام پر امریکی حملہ کیا مطلوبہ نتائج حاصل ہوں گے؟

شام پر امریکی حملہ کیا مطلوبہ نتائج حاصل ہوں گے؟
شامی دارالحکومت، دمشق کی آبادی سے امریکی میزائل گزرنے کا ایک منظر

نہتّے شہریوں پر شامی فوج کے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو جواز بناتے ہوئے امریکا نےبرطانیہ اور فرانس کی مدد سے شام پر حملوں کا آغاز کردیا ہے۔ پہلے حملے میں امریکا کے ٹاما ہاک کروز میزائلز اور برطانیہ کے اسٹروم شیڈو میزائلز نے دمشق اور حمص کے قریب مختلف فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔امریکا کے دفاعی حکام کے مطابق، پہلے حملے میں شام کے سائنسی تحقیقی ادارے اور کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرے کو بھی ہدف بنایاگیا۔

خیال رہے کہ امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کائونسل سے قرارداد منظور کروانے میں ناکامی کے باوجود شام پر حملہ کیا۔دوسری جانب شامی حکومت کا ماننا ہے کہ بیرونی جارحیت کا بھرپور جواب دیا جارہا ہے اور حملوں کے خلاف میزائل دفاعی نظام فعال کردیا گیا ہے۔قبل ازیں، شامی حکومت نے اپوزیشن کے آخری مضبوط گڑھ، دوما پر کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کیا تھا، جس کے سبب کم از کم 80افراد ہلاک اور تقریباً 500زخمی ہوئے تھے۔ اس پرامریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ نے نہایت سخت ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے شام اور اس کے حلیف ممالک، رُوس اور ایران کو دھمکی دی کہ انہیں اس حملے کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی اور پھر انہوں نے شام پر حملے کا اعلان بھی کر دیا۔ 

یاد رہے کہ گزشتہ برس بشار الاسد کی افواج کی جانب سے اپنے شہریوں پر کیمیائی حملے کے بعد امریکا نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے شام کے اُس فوجی اڈّے کو تباہ کر دیا تھا، جہاں سے حملہ آور طیاروں نے اُڑان بَھری تھی۔ تاہم، اس مرتبہ امریکا کے علاوہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے بھی رُوس اور شام کے خلاف جارحانہ ردِعمل ظاہر کیا، مگر رُوس نے، جو شامی حکومت کا حلیف ہے، نہ صرف کیمیائی حملے کے الزام کو مسترد کیا، بلکہ امریکا کی جانب سے کسی بھی قسم کی فوجی کارروائی کا جواب دینے کی دھمکی بھی دی۔ نیز، اقوامِ متّحدہ کی سلامتی کائونسل میں کیمیائی حملے پر خود کو مجرم قرار دینے کی قرارداد کو ویٹو بھی کر دیا۔

کیمیائی حملے کی زد میں آنے والا، دوما، مشرقی شام کا وہ آخری شہر ہے، جہاں شامی اپوزیشن کے بچے کُھچے گروپس، جنہیں شامی حکومت ’’باغی‘‘ قرار دیتی ہے، سرکاری فوج کے ساتھ جنگ میں مصروف تھے۔ غوطہ کی فتح کے بعد بشار افواج اور رُوس کے حوصلے خاصے بلند ہو گئے تھے اور وہ پورے شام سے اپوزیشن کا قلع قمع کرنے کا تہیہ کر چُکے تھے۔ 

ابتدا میں امریکا، عرب ممالک اور تُرکی شامی اپوزیشن کی مدد کر رہے تھے، لیکن پھر ان کے مفادات نے انہیں شامی خانہ جنگی سے ہاتھ کھینچنے پر مجبور کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ رُوس کی معاونت سے شامی فوج اپنے ہی شہروں پر بم باری کرنے لگی اور اس کے ساتھ ہی ایرانی فوج اور اس کی حمایت یافتہ ملیشیاز کے ساتھ مل کر اپنے شہریوں کے خلاف زمینی جنگ بھی لڑ رہی تھی۔یہاں ایک دِل چسپ اَمر یہ ہے کہ بشار الاسد، ایران اور رُوس اپنی کارروائیوں کو جائز قرار دینے کے لیے شامی اپوزیشن کو’’ دہشت گرد‘‘ قرار دیتے ہیں، جب کہ رواں برس کے آغاز ہی میں شامی صدر، بشارالاسد اور اُن کے اتحادیوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ شام و عراق سے داعش سمیت دوسری دہشت گرد تنظیموں کا صفایا ہو چُکا ہے۔ 

اس موقعے پر ایرانی صدر، حسن روحانی کا کہنا تھا کہ دمشق اور بغداد کو بچانے میں ایرانی فوج اور ملیشیاز نے بنیادی کردار ادا کیااوررُوسی صدر، پیوٹن نے مشرقِ وسطیٰ کے ایک فوجی اڈّے میں کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا کہ جنگ جیتنے کے بعد ماسکو شام سے اپنی افواج واپس بلا رہا ہے۔ سو، ناقدین حیران ہیں کہ جب رواں برس کے آغاز ہی میں شام سے دہشت گردوں کا صفایا ہو چُکا ہے، تو پھر بشار الاسد اور اُن کے حلیف ممالک یہاں کس کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں؟

شامی شہریوں پر کیمیائی حملے کے بعد امریکی صدر نے شام اور رُوس کو مخاطب کرتے ہوئے یہ ٹویٹ کیا تھا کہ ’’امریکی میزائلز آرہے ہیں۔‘‘ جب کہ امریکی حُکّام کا کہنا تھا کہ ان کے پاس فوجی کارروائی کے لیے بہت سے آپشنز موجود ہیں۔ شام پر امریکی حملے سے قبل فوجی ماہرین کا ماننا تھا کہ امریکا اور اس کے حلیف ممالک نے سوچ بچار پر کافی وقت صَرف کر دیا اور اب ان کے لیے شام پر حملے کا حق استعمال کرنا ممکن نہیں۔ 

پھر فیصلے میں تاخیر کی وجہ سے شامی فوج کو منتشر ہونے کا وقت بھی مل گیا۔ اسی طرح شامی فوج نے اپنے جنگی طیاروں کو لتاکیہ اور طرطوس کے فوجی اڈّوں پر منتقل کر دیا، جہاں رُوس کا دِفاعی نظام ان کی حفاظت کے لیے موجود ہے۔ یعنی اب حملے کی صُورت میں بڑی طاقتوں کے مابین تصادم کا اندیشہ ہے۔عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ شامی فورسز کےمنتشر ہونے کے بعد مغربی اتحادیوں کے لیے شامی فوج کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کو تباہ کرنا ضروری ہو گا، جسے رُوس اور ایران کی مدد سے تشکیل دیا گیا ہے اور اسی کے نتیجے میں شامی فوج کام یابیاں حاصل کر رہی ہے۔ 

عسکری ماہرین کے مطابق، امریکا اور اس کے اتحادیوں کو شام پر بنکرز تباہ کرنے والے بموں اور میزائلز سے حملہ کرنا ہو گا اور صرف اسی صُورت ہی شام کے فوجی ڈھانچے کو تباہ کرنے کے بعد بشار الاسد کو مذاکرات پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ عسکری ماہرین یہ مشورہ بھی دیتے ہیں کہ شام کے فضائی اڈّوں کو نشانہ بنایا جائے اور انہیں اس قدر نقصان پہنچایا جائے کہ وہ دوبارہ قابلِ استعمال ہی نہ رہیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ برس امریکی میزائلز کا نشانہ بننے والا خان شیخون کا فوجی اڈّا حملے کے چند ماہ بعد ہی فعال ہو گیا تھا۔ نیز، یہ تجویز بھی دی جا رہی ہے کہ شام میں ’’نو فلائی زون‘‘ قائم کر دیا جائے۔ 

مگر پھر یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کیا فوجی کارروائیوں سے شام میں جاری ظلم و جبر کی رات ختم ہو جائے گی اور شامی شہریوں کو سُکھ نصیب ہو گا؟ماہرین کا ماننا ہے کہ شاید فوری طور پر تو ایسا ممکن نہ ہو سکے، لیکن اگر شامی حکومت کم زور پڑتی ہے، تو پھر اُسے اقوامِ متحدہ کے تجویز کردہ ’’امن روڈ میپ‘‘ پر عمل درآمدکے لیے مجبور کرنا ممکن ہو گا، جس میں شام میں عبوری حکومت کا قیام اور عام انتخابات کا انعقاد شامل ہے۔ خیال رہے کہ کسی بھی فوجی آپریشن کی کام یابی کے لیے اُسے تنازعے کے سیاسی حل سے جوڑنا ضروری ہوتا ہے، وگرنہ طوائف الملوکی پھیل جاتی ہے اور عراق اور لیبیا میں ایسا ہی ہوا، مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ان مثالوں کے پیشِ نظر عالمی برادری اپنی ذمّے داریوں سے چشم پوشی کا مظاہرہ کرے۔

یاد رہے کہ شام میں بشار الاسد کو فتح دِلوانے میں رُوس نے بنیادی کردار ادا کیا۔ وگرنہ آج سے دو برس قبل تک مُلک کے تین چوتھائی حصّے پر اپوزیشن کا قبضہ تھا اور بشار الاسد کی افواج، ایرانی فوج اور حزبُ اللہ سمیت دوسری ملیشیاز کی حمایت کے باوجود ہر محاذ پر پسپا ہو رہی تھیں۔ پھر رُوسی صدر، پیوٹن نے میدان میں اُترنے کا فیصلہ کیا۔ مشرقِ وسطیٰ میں ایران، رُوس کا حلیف تھا، لیکن شام کے پڑوس میں واقع، تُرکی کسی بھی صُورت بشار الاسد کو قبول کرنے پر آمادہ نہ تھا۔ 

مگر پھر حالات نے پلٹا کھایا اور تُرکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد انقرہ اور واشنگٹن کے درمیان دُوریاں پیدا ہونا شروع ہو گئیں۔ کچھ عرصے بعد تُرک صدر، رجب طیّب اردوان نے کُردوں کی مزاحمت کو کچلنے کے لیے فوجی طاقت کا استعمال شروع کر دیا، جنہیں امریکا کی حمایت حاصل تھی۔ جنگ جُو کُرد تنظیم، پیش مرگا نے عراق میں موصل سمیت دیگر علاقوں میں داعش کے خلاف جنگ لڑی تھی ۔ 

اس وقت امریکا کُردوں کی حمایت سے دست بردار ہونے پر آمادہ نہیں، جب کہ تُرکی انہیں اپنی سالمیت کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف فوجی کارروائی کر رہا ہے اور شامی علاقے، عفرین پر تُرک فوج کا قبضہ اسی پیش رفت کا حصّہ ہے۔ امریکا سے مایوس ہونے کے بعد اردوان نے رُوس کی جانب دیکھا، جو پہلے ہی شام کے معاملے پر کسی ایسے حلیف کا منتظر تھا، جو اسے ’’ محفوظ راستہ‘‘ فراہم کرنے میں مدد دے۔ نیز، رُوسی فوج کو نکالنے اور بشار الاسد کی حکومت قائم رکھنے میں بھی اس کی معاونت کرے اور اس سلسلے میں تُرکی سے بہتر کون سا مُلک ہو سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پیوٹن نے ماضی کی تمام تلخیاں بُھلا کر تُرکی کا ساتھ دیا۔

مبصّرین کے مطابق، اردوان ایک ایسے وقت میں اپنی حمایت پر اپنے رُوسی ہم منصب کے شُکر گزار تھے کہ جب پورا مغرب ان پر تنقید کر رہا تھا۔ دِل چسپ بات یہ ہے کہ رُوس نے نیٹو کا رُکن ہونے کے باوجود تُرکی میں جدید میزائل دِفاعی نظام، ایس فور کی تنصیب کی منظوری دی۔ اس کے علاوہ رواں برس مارچ کے اوائل میں پیوٹن خود تُرکی پہنچے، جہاں انہوں نے اپنے تُرک ہم منصب کے ساتھ مل کر رُوس کی مدد سے تعمیر کیے گئے پہلے ایٹمی بجلی گھر کا افتتاح کیا۔ 

اسی موقعے پر ایرانی صدر، حسن روحانی بھی انقرہ پہنچے اور وہاں ایک مرتبہ پھر رُوس کے زیرِ اہتمام ہونے والے مذاکرات کے ذریعے شامی مسئلے کے حل کی کوششوں پر بات چیت ہوئی، جب کہ اس سے قبل فروری میں رُوس کے سرمائی دارالحکومت، سوچی میں ہونے والے مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے تھے، کیوں کہ ان میں شامی بُحران کی اہم ترین فریق ، شامی اپوزیشن شریک نہیں تھی۔ اس وقت ماسکو اور تہران کی کوشش ہے کہ شام میں فتح حاصل کرنے کے بعد یہ ثابت کیا جائے کہ شام کے استحکام کے لیے بشار الاسد کا مزید چند برس تک برسرِ اقتدار رہنا ضروری ہے۔ 

دوسری جانب کُردوں کی بغاوت اور ان کے خلاف فوجی کارروائی کے بعد تُرک صدر، اردوان کو بہت سے سمجھوتے کرنے پڑ رہے ہیں، جن میں غالباً بشار الاسد کا برسرِ اقتدار رہنا بھی شامل ہے۔ انہوں نے یورپ اور امریکا سے فاصلے اس قدر بڑھا لیے ہیں کہ اب انہیں ہر قدم پر رُوس کی ضرورت ہے اور اسی لیے اردوان، بشار کو فوری طور پر اقتدار سے ہٹانے کے اپنے مطالبے میں لچک پیدا کر چُکے ہیں۔ تاہم، اس کے نتیجے میں انہیں اپنے عرب دوستوں سے دُوری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ خیال رہے کہ اردوان کے پہلے10سالہ دَورِ حکومت میں مُلک میں جس قسم کی اقتصادی ترقّی دیکھنے میں آئی تھی، اُس نے تُرکی کو اسلامی دُنیا کے لیے ایک رول ماڈل بنا دیا تھا، لیکن پے در پے بُحرانوں کی وجہ سے اس کی ترقّی کی رفتار بھی بہت سُست ہو چُکی ہے۔

اس صُورتِ حال میں عرب دُنیا کی قیادت مکمل طور پر سعودی عرب کے پاس چلی گئی ہے اور سعودی ولی عہد، شہزادہ محمد بن سلمان کے اندرونِ مُلک اقدامات نے پوری دُنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ اکثر ناقدین کا خیال تھا کہ سعودی عرب کی طاقت وَر علما کائونسل ان تبدیلیوں کی سخت مخالفت کرے گی اور ولی عہد کو نقصان پہنچے گا، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ حتیٰ کہ جب ولی عہد نے سعودی شہزادوں کو زیرِ حراست لیا تھا، تو اس وقت بھی بہت سے مبصّرین نے انقلاب کی پیش گوئی کی تھی، لیکن تب بھی کوئی انقلاب نہ آیا۔ 

مُلک میں عدم اطمینان کی فضا پیدا نہ ہونے کے بعد شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکا اور یورپ کا دورہ کیا اور وہاں کُھل کر اپنی مستقبل کی اقتصادی و خارجہ پالیسی پر اظہارِ خیال کیا۔ نیز، مغرب کو اپنے اُن اقدامات سے آگاہ کیا کہ جن کی مدد سے وہ سعودی معاشرے کو جدید دُنیا سے ہم آہنگ کرنا چاہتے ہیں۔ سعودی ولی عہد کے اس دورے کے نتیجے میں اوباما دَور میں سعودی عرب اور امریکا کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج ختم ہو گئی۔

اس موقعے پر انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ سعودی عرب ہی خطّے کا لیڈر ہے اور وہ کسی کی مداخلت برداشت نہیں کرے گا۔ نیز، انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر مسئلہ فلسطین’’دو ریاستی حل‘‘ سے طے ہو جاتا ہے، تو انہیں یہودیوں کے لیے خطۂ زمین پر کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت ہوا کہ جب امریکی صدر، ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے کی شدید مخالفت کر رہے ہیں اور ایران پر عاید اقتصادی پابندیوں نے اس کی معیشت کو غیر معمولی دبائو کا شکار کر رکھا ہے، جس کا اندازہ اس اَمر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اپریل میں 53,000ایرانی ریال، ایک امریکی ڈالر کے مساوی ہو گئے تھے اور ایران کے مرکزی بینک نے ایرانی ریال کی مزیدبے قدری روکنے کے لیےایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں اس کی وقعت43,000مقرّر کر دی، جو ہر لحاظ سے تباہ کُن ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شامی خانہ جنگی میں براہِ راست ملوّث ہونے کی قیمت بہرحال تہران کو ادا کرنا پڑ رہی ہے۔

گرچہ رُوس تو اس دلدل سے نکلنے کے اعلانات کر رہا ہے، تاہم اس بارے میں ایران کا مٔوقف غیر واضح ہے۔اس وقت رُوس کی پوری کوشش یہی ہو گی کہ کسی بھی طرح امریکا اور یورپی طاقتوں سے براہِ راست تصادم سے بچا جا سکے، کیوں کہ بہ صُورتِ دیگر شام میں جو فتوحات اس نے اور ایران نے بشار الاسد کو دِلوائی ہیں، وہ خطرے سے دوچار ہو جائیں گی۔ رُوس، شام اور ایران کو ان فتوحات کو مستحکم کرنے کے لیے وقت درکار ہے اور اس مقصد کے لیے رُوس سمجھوتے پر آمادہ ہو جائے گا، وگرنہ اس کے قدم مشرقِ وسطیٰ سے اُکھڑ جائیں گے، جو یہ بڑی مشکل سے جمانے کی کوشش کر رہا ہے۔ 

تین برس قبل بھی جب شامی حکومت پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام عاید کیا گیا تھا، تو رُوس نے آخری لمحات میں سابق امریکی صدر، باراک اوباما اور سابق امریکی وزیرِ خارجہ، جان کیری کو رام کر کے شام میں اپنے حلیف کی حکومت بچالی تھی اور شاید اس کے بعد ہی پیوٹن نے شام میں فوجی مداخلت کر کے ایک بڑا جوا کھیلنے کا فیصلہ کیا، جس میں وہ بڑی حد تک کام یاب رہے۔ 

اگر دیکھا جائے، تو مشرقِ وسطیٰ حقیقت میں یورپ ہی کا میدانِ سیاست ہے، لیکن یورپی حکومتیں بھی اس اَمر پر متّفق ہو گئی تھیں کہ شامی شہریوں کا اپنی حکومت کے ہاتھوں قتل کیا جانا، ایک انسانی المیہ تو ہو سکتا ہے، مگر ان کا براہِ راست اس سے کوئی لینا دینا نہیں، لیکن جب برطانیہ میں اپریل کے آغاز میں دو افراد پر نرو ایجنٹ سے حملے کا معاملہ سامنے آیا، تو پوری مغربی دُنیا رُوس کے خلاف متّحد ہو گئی۔ بہر کیف، اس وقت شامی اپوزیشن متّحد نہیں اور ان کا کوئی متفقہ لیڈر نہ ہونے کی وجہ سے انہیں مزید تقسیم کرنا بھی آسان ہے۔ 

اس سے قطعِ نظر کہ شامی اپوزیشن کو دانستہ طور پر تقسیم کیا گیا، اس کے نتیجے میں عالمی طاقتوں کو شام میں اپنا کھیل کھیلنے اور اپنے مُہروں کو آگے بڑھانے میں مدد ملی رہی ہے ،جس کے سبب گزشتہ 7برس میں لاکھوں شامی شہری باشندے لقمۂ اجل بن چُکے اور کروڑوں بے گھر ہیں۔

تازہ ترین