• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے سامنے کسی شاعر کا چراغ نہیں جلتا ( پہلی قسط…)

   
میرے سامنے کسی شاعر کا چراغ نہیں جلتا (  پہلی قسط…)

محمد مقبول حسین کانجو

صاحب! میں ایک شاعر ہوں۔ چھپا ہوا دیوان تو خیر کوئی نہیں ہے، مگر کلام، خدا کے فضل سے اتنا ہے کہ اگر میں مرتب کرنے بیٹھوں تو کم ازکم چار پانچ دیوان تو مرتب کر سکتا ہوں۔ اپنی شاعری کے متعلق اب میں خود کیا عرض کروں، البتہ مشاعروں میں جانے والے، اگر کسی مشاعرے میں میرا کلام سن چکے ہیں تو وہ بتائیں کہ میرے متعلق عام رائے کیا ہے۔ البتہ اتنا میں بھی جانتا ہوں کہ جب مشاعرے میں میرے نام کا اعلان ہوتا ہے تو سامعین بے قابو ہوکر اُس وقت تک تالیاں بجاتے ہیں، جب تک کہ پڑھنے کے لیے اسٹیج پرآ نہ جائوں، جب تک میں پڑھتا رہتا ہوں، داد کے شور سے مشاعرہ گونجتا رہتا ہے۔ 

مجھ کو اچھی طرح یاد ہے کہ ایک مرتبہ میرا ایک شعر آٹھ مرتبہ مجھ سے پڑھوایا گیا، پھر بھی سامعین نے یہی کہا تھا کہ سیری نہیں ہوئی۔ یہ سب کچھ میں خود ستائی کے طورپر عرض نہیں کررہا۔ میرا قول تو یہ ہے کہ ’’من آنم کہ من دانم۔‘‘ میں تو یہ سب کچھ اس لیے عرض کررہا ہوں کہ مجھے اپنے متعلق تھوڑا بہت اندازہ ہے۔ میں اُن شاعروں میں سے نہیں ہوں، جو محض ایک تخلص پال کر بیٹھ رہتے ہیں اور زندگی بھر میں بس ایک آدھ غزل کہنے کے گنہگار۔ خصت! یہاں تو بقول شخصے؎

عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں

ابھی ہوش سنبھالا ہی تھا کہ گھر میں شعر و شاعری کے چرچے سنے۔ مشاعروں کے کھیل کھیلے اور آخر پندرہ برس کی عمر ہوگی کہ پہلی غزل اس شان سے مشاعرے میں پڑھی کہ گھر پر بڑی بوڑھیوں نے نظر اتاری اور باہر اس فن کے بڑے بڑے مشاقوں نے اعتراف کیا کہ صاحبزادے نے پالنے ہی میں پائوں دکھائے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ شاعری کی ابتدا اسی عمر میں ہوئی، جس کے متعلق شاعر کہہ گیا ہے کہ ؎

برس پندرہ کا ہو کہ سولہ کا سِن

جوانی کی راتیں امنگوں کے دن

داد جو ملی تو حوصلے اور بڑھ گئے۔ اب دن رات بس ایک ہی مشغلہ ہے، غزل گوئی اور غزل سرائی، جس مشاعرے میں پہنچ گئے جھنڈے گاڑ آئے۔ اپنے سامنے کسی کا چراغ نہ جلنے دیا۔ جس طرح میں غزل کہہ دی، اس کو اپنا لیا اور خاص شہرت حاصل کی، گرہ لگانے میں۔ قصہ کوتاہ کچھ ہی دنوں میں مقامی مشاعروں کے علاوہ دُور دُور سے بلاوے آنے لگے۔

آج یہاں مشاعرہ ہے تو کل وہاں، آج اس شہر میں ہے تو کل اُس شہر میں۔ یہ سچ ہے کہ اس طرح تعلیم ضرور ناقص رہ گئی، مگر شاعر ہونا مسلّم ہو گیا۔ آواز میں قیامت کا سوز تھا اور دھن بنانے کا سلیقہ خداداد، پھر کلام کی لطافتیں، مختصر یہ کہ سب کچھ مل جل کر مشاعرہ لوٹنے میں مدد دیتا تھا۔ ایک نمائش کے مشاعرے میں تو تمغہ تک دیا گیا، اخباروں میں تصویریں چھپیں۔ رسالوں کے ایڈیٹروں نے بڑی منّت کے خطوط لکھے کہ میں اپنا تازہ کلام بھیجوں۔ بے شمار رسالے اور اخبار مفت آنے لگے، اُن میں میرا کلام بڑے امتیاز کے ساتھ چھپنے لگا۔ 

بڑے بڑے سالانہ نمبروں میں صرف میری غزل کو جلی حروف میں اور خوشنما حاشیے کے اندر ایک پورے صفحے پر چھاپا گیا۔ مختصر یہ کہ آپ کی دعا سے شہرت اور مقبولیت کی کوئی کمی نہ رہی ۔ یہاں تک کہ کچھ ہی دنوں کے بعد مشق اس قدر بڑھ گئی کہ بہت سے نوجوان اپنی اپنی غزلیں اصلاح کے لیے لانے لگے اور اب ضرورت اس کی پیش آئی کہ ذرا اس فن کا مطالعہ بھی کر لیا جائے کہ یہ فاعلاتن فاعلات آخر کیا بلا ہوتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ پیدائشی اور فطری شاعروں کے لیے اُن چیزوں کی ضرورت نہیں ہوا کرتی، مگر شاگردوں کو سمجھانے اور استاد بننے کے لیے معلومات کا حاصل ہونا ضروری ہوتا ہے۔ 

بہرحال اس سلسلے میں جتنی کتابیں دیکھیں، اتنی ہی طبیعت الجھی کہ یہ ہیں کیا خرافات؟ آخر کتابوں کا ایک سیٹ مل گیا۔ شاعری کی پہلی کتاب، دوسری کتاب، تیسری کتاب۔ ان کتابوں کو سلسلہ وار پڑھنے سے خود تو خیر کچھ سمجھ میں نہ آیا، مگر دوسروں کو سمجھانے کے لیے مواد ضرور مل گیا ۔ اب شاگردوں کی غزلوں پر اصلاح کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ 

ان شاگردوں کا مشاعروں میں چمکنا تھا کہ شاگردوں کی تعداد، دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرنے لگی، یہاں تک کہ عام ہوگیا کہ ہر مشاعرے کے دن درجنوں شاگرد حلقہ باندھے بیٹھے ہیں اور میں اُن کو غزلیں لکھوا رہا ہوں کہ یہ مطلع تم لکھ لو، یہ شعر تم لکھ لو۔ شاگردوں سے اور کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو، مگر اتنا ضرور ہوتا ہے کہ خود اپنے کو اوّل تو اساتذہ کی صف میں جگہ ملتی ہے، دوسرے استاد کی غزل پر شاگرد واہ وا کا وہ شور مچاتے ہیں کہ مشاعرہ ہی سر پر اٹھالیتے ہیں، اگر کبھی کوئی بد خواہ اعتراض کر بیٹھے تو یہی شاگرد مرنے مارنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ گویا استاد کی اچھی خاصی طاقت ہوتے ہیں یہ شاگرد۔

گھر میں اللہ کے فضل و کرم سے کھانے پینے کی کوئی کمی نہ تھی۔ وثیقہ بندھا ہوا تھا، باپ دادا بھی اتنا چھوڑگئے تھے کہ چار کو کھلا سکیں، لہٰذا فکرِ معاش کا تو کوئی ذکر ہی نہیں ۔ لے دے کے بس فکرِ سخن ہی تھی۔ شاگردوں کو بھی کبھی کسی خدمت کا موقع نہ دیا، بلکہ اُن ہی کی خدمت جو ہوسکی، وہ کی، یعنی مفت کی غزلوں کے علاوہ اکثر کو مفت کی روٹیاں بھی مل جاتی تھیں، اگر کبھی کوئی شاگرد رساول، مکھن، خالص دودھ، دیسی گھی یا اپنے گائوں سے گُڑ وغیرہ بھی لے آیا تو یہی فکر رہتی تھی کہ اُس کا بدلہ کیونکر اتارا جائے۔ 

ایک مرتبہ ایک تنبولی شاگرد نے سرسوں کے تیل کی قیمت لینے سے انکار کردیا، نتیجہ یہ کہ اگلے مشاعرے میں نہ صرف نہایت زور دار غزل کہہ کر اُن کو دی، بلکہ اُن کا ریل کا ٹکٹ بھی خود ہی خریدا۔ غرض کہ شاعری کو تجارت یا روزگار کی صورت تو کبھی دی ہی نہیں اور نہ ہی اس کی ضرورت پیش آئی کبھی۔ اُن ہی حالات میں زندگی بڑے مزے میں بسر ہورہی تھی کہ ایک دم سے وہ انقلاب آگیا، جس نے دنیا ہی زیر و زبر کرکے رکھ دی۔ اپنا سب کچھ چھوڑ کر اس طرف آجانا پڑا، گھر گیا، گرہستی گئی، وثیقہ گیا، مختصراً کہ آپ ’’واحد حاضر‘‘ رہ گئے اور باقی سب کچھ ’’جمع غائب‘‘ اور تو اور کھانے پینے کے لالے پڑگئے۔ دو روٹیوں کا سہارا تک کوئی نہ رہا۔ دل میں کہا، جان ہے تو جہان ہے

’’ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا‘‘

مگر آخر کب تک نہ گھبراتے ، پردیس میں کوئی جان نہ پہچان۔ ایک نفسا نفسی کا عالم، سب کو اپنی اپنی پڑی ہے۔ آخر کار خاندانی وضع کے خلاف روزگار کی تلاش میں نکلنا پڑا۔ یاد آیا کہ اسی شہر سے ایک رسالہ نہایت آب و تاب سے نکلا کرتا تھا، جس کے ایک سالنامے میں انگور کی خوشنما بیل کے حاشیے کے اندر میری ایک غزل چھپی تھی اور ایڈیٹر صاحب نے اس پر اپنا ایک نوٹ بھی دیا تھا کہ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ لسان الزمن، حضرت محبوب سبحانی نے اپنے تازہ رشحات سے ہمارے سالنامے کو نوازا۔ امید ہے کہ حضرت محبوب سبحانی آئندہ بھی ہم کو اس فخر کا موقع عطا فرماتے رہیں گے، چنانچہ اسی رسالے کے دفتر کا رخ کیا اور پوچھتے پوچھتے رسالے کے دفتر پہنچ گئے۔ ایڈیٹر صاحب سے اپنا تعارف کرایا، وہ حسبِ توقع دوڑے اور چائے کا کپ اور کیک لے کر آئے۔ 

سگریٹ کی ڈبیا کھول کر دکھ دی۔ دیا سلائی خود جلائی اور دیر تک ہماری ہجرت پر مسرت کا اظہار کرتے رہے کہ صاحب بہت اچھا ہوا، جو آپ تشریف لے آئے۔ تھوڑی دیر کے بعد موقع دیکھ کر اور اُن کو بے حد خلیق پاکر عرض کیا ’’بھائی جان‘ آتو گیا ہوں، مگر واضح رہے کہ سب کچھ چھوڑ کر آیا ہوں اور خاندانی وضع کے خلاف اس پر آمادہ ہوں کہ کہیں ملازمت اختیار کروں۔ وہ نہایت اطمینان سے بولے، ملازمت؟ بہرحال ابھی تو آپ آئے ہیں، کچھ نہ کچھ ہو ہی جائے گا۔ آپ جیسے قابل آدمیوں کے لیے ملازمت کی کیا کمی ہوسکتی ہے۔ بہرحال آپ نے یہ تو فیصلہ کر ہی لیا ہوگا کہ آپ کس شعبے میں ملازمت اختیار کرنا پسند کریں گے۔ 

عرض کیا، بھائی اپنا شعبہ تو ظاہر ہے کہ زندگی بھر سوائے ادبی خدمت کے اور کوئی کام ہی نہیں کیا۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب تک ادبی خدمت کوذریعۂ آمدنی بنانے کا خیال بھی نہ آیا تھا، مگر اب حالات نے مجبور کردیا ہے۔

(جاری ہے)

تازہ ترین