• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی مفادات اورتقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان میں کس طرح آئین وقانون سے ماورأ من مانے اقدامات کئے جاتے رہے،ان کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پرویز مشرف کے دور آمریت میں جب آفتاب شیرپاؤ ملک کے وزیرداخلہ تھے،حوالگی کاکوئی معاہدہ نہ ہونے کے باوجود چارہزار پاکستانیوں کو خفیہ طریقے سے ڈالروں کے عوض دوسرے ملکوں کے حوالے کردیاگیا اورپارلیمنٹ سمیت کسی نے بھی انسانی حقوق کی پامالی کانوٹس نہیں لیا۔اس تلخ حقیقت کا انکشاف کرتے ہوئے پیر کو لاپتہ افراد کمیشن کے سربراہ جسٹس(ر) جاوید اقبال نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں بتایا کہ پرویز مشرف نے اتنی بڑی تعداد میں پاکستانیوں کو غیر ملکیوں کے ہاتھوں فروخت کرنے کااعتراف بھی کیا تھا مگر ان سے کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ پارلیمنٹ آئین اورعدالتیں ہونے کے باوجودان افرادکوآخر کیسے اورکس قانون کے تحت دوسرے ملکوں کے حوالے کیاگیا۔جسٹس(ر) جاوید اقبال نے جوقومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین بھی ہیں کہا کہ پارلیمنٹ کوپرویز مشرف اوران کے وزیرداخلہ کے اس اقدام کی تحقیقات کرنی چاہئے تھی مگر وہاں سے کوئی آواز نہیں اٹھی۔تعجب خیز امر یہ ہے کہ پاکستان میں قانون کومطلوب بعض معروف شخصیات سمیت بہت سے لوگ بیرونی ملکوں میں موجود ہیں لیکن یہ ممالک حوالگی کے دوطرفہ معاہدے کی عدم موجودگی یادوسری وجوہات کو جواز بنا کر انہیں پاکستان کے حوالے کرنے سے انکار کررہے ہیں جبکہ ایک ڈکٹیٹر نے کسی جواز کے بغیر اتنی بڑی تعداد میں پاکستانیوں کو ڈالر لے کر دوسرے ملکوں کی تحویل میں دے دیا۔یہی نہیں بلکہ کئی غیر ملکیوں کوبھی جوپاکستان میں جاسوسی اوردوسرے جرائم میں ملوث پائے جاتے رہے،انہیں مقدمات چلائے اور سزائیں دلائے بغیر سیاسی مصلحتوں کی آڑ میں بحفاظت باہر جانے دیاگیا۔یہ رویہ قومی مفاد ہی نہیں،ایک خود مختار قوم کی غیرت کے بھی منافی ہے۔جسٹس (ر)جاوید اقبال نے لاپتہ افراد کے حوالے سے بعض فکر انگیز،انکشافات کئے ۔انہوں نے بتایا کہ کمیشن کو4929لاپتہ افراد کے کیس موصول ہوئے جن میں سے فروری2018تک3218کیس نمٹائے جاچکے ہیں۔اس وقت1710کیسز پرتحقیقات ہورہی ہے۔ان کی بریفنگ کے مطابق لاپتہ ہونے والوں میں سے70فیصد سے زائد افراد عسکریت پسندی میں ملوث پائے گئے۔لوگوں کی گم شدگی میں ملک دشمن گروپ بھی ملوث ہیں جو انہیں اپنی اغراض کے لئے اٹھالیتے ہیں لیکن الزام آئی ایس آئی اورایم آئی پر لگادیا جاتا ہے ۔بلوچستان میں لاپتہ افراد کے حوالے سے سامنے آنے والے اعداد وشمار بھی حقائق کے برخلاف ہیں۔وہاں مختلف گروپس بھی لوگوں کواپنے ساتھ لے جاتے ہیں اورانہیں لاپتہ قرار دیا جاتا ہے۔اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ برائے لاپتہ افراد کی جانب سے کمیشن کو368کیسز موصول ہوئے جن میں سے زیادہ تر کاتعلق سندھ سے ہے۔جسٹس(ر)جاوید اقبال کی یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ ملک میں کام کرنے والی غیر ملکی این جی اوزپاکستان کی بجائے غیر ملکوں کے مفاد میں کام کررہی ہیں اورانہیں فنڈنگ بھی انہی ممالک کی جانب سے ہوتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ایسی این جی اوز پرپابندی لگنی چاہئے لاپتہ افراد کمیشن کے سربراہ کایہ بھی کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کے اہل خانہ ریاست کی ذمہ داری ہیں۔اگر لاپتہ افراد دہشت گردی میں ملوث ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے اہل خانہ بھی دہشت گرد ہیں۔ریاست کو ان کی خبر گیر ی کرنی چاہئے۔جسٹس(ر) جاوید اقبال نے لاپتہ افراد اورغیر ملکیوں کو بیچے جانے والے پاکستانیوں کے بارے میں جوحقائق بیان کئے ہیں،پالیسی سازوں کوان پرتوجہ دینی چاہئے اورحکومتوں کی جانب سے اس معاملے میں جو کوتاہیاں سرزد ہوئی ہیں ان کی تحقیقات کے علاوہ ایسی بے قاعدگیوں کا اعادہ روکنے کےلئے ٹھوس اقدامات کئے جانے چاہئیں۔

تازہ ترین