• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حیرت ہوتی ہے کہ پاکستان میں وزیر اعظم اور حکومت کی تبدیلی کے لئے کتنے جتن کئے جاتے ہیں جبکہ جاپان جیسے جمہوری ملک میں ایک چھوٹی سی غلطی بھی مقبول وزیر اعظم کی تبدیلی کا سبب بن جاتی ہے، پاکستان میں میاں نواز شریف کی حکومت کے قیام کے فوراََ بعد ہی بعض عناصر نے حکومت کے خاتمے کے لئے تانے بانے بننا شروع کردیئے تھے جو دیکھنے والوں کو نظر بھی آنےلگے،میاں نواز شریف سے بھی بعض ایسی غلطیاں سرزد ہوئیں جسے جمہوریت پسند قوتوں نے بھی محسوس کیااور حکومت کو باور کرانے کی کوششیں بھی کیں کہ ایک طویل عرصے کی کوششوں اور انتظار کے بعد میاں نواز شریف کو وفاق میں حکومت بنانے کا موقع ملا ہے انہیں سرد جنگ اور مخالفت سے بچ کرپانچ سال پورے کرنے پر توجہ دینی چاہئے۔ حالات کچھ معمول پر بھی آئے لیکن پھر جنرل مشرف کے مسئلے پر ایک بار پھر معاملات بگڑنے لگے اور جب دیکھا گیا کہ حالات خطرناک رخ اختیار کرسکتے ہیں تو مشرف کو پاکستان سے جانے کی اجازت دے دی گئی اور حکومت نے مدت تو جیسے تیسے کرکے پوری کرلی لیکن میاں صاحب کو نااہل ہونا پڑا اوراب جیل کی سزا کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ حکومت وقت اپنی آخری ہچکیاں لے رہی ہے، مفاد پرست ارکان اسمبلی موجودہ حکومت سے بھرپور فوائد اٹھانے کے بعد اپنی وفاداریاں تبدیل کرنے میں مصروف ہیں ۔جس کے بعدمیاں نواز شریف کے ہاتھوں سے طاقت اس طرح نکل رہی ہے جیسے بند مٹھی سے ریت نکلتی ہے۔ عمران خان کے اعتماد میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے اور مستقبل میں شیروانی صرف ان کی ذاتی زندگی میں ہی نہیں بلکہ سیاسی زندگی میں بھی نظر آنے لگی ہے ۔یہ پاکستان کی سیاست کا حال ہے جہاں جمہوریت کبھی مستحکم نہیں ہوسکی۔ توقع ہے کہ موجودہ حکومت کے خاتمے اور اگلی حکومت کے قیام کے بعد سب مل کرجمہوریت کو مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ اب جاپان کی مضبوط جمہوریت میں موجودہ وزیر اعظم کو درپیش مشکلات کاجائزہ لیتے ہیں ۔جاپان کے وزیر اعظم شنزو آبے وزارت عظمیٰ کے چھ سال مکمل کرچکے ہیں جبکہ حکومت کے خاتمے میںکئی سال باقی ہیں تاہم گزشتہ سال سامنے آنے والا کرپشن کا ایک الزام شاید اب ان کواپنی مدت پوری نہ کرنے دے ۔ہوا یہ تھا کہ وزیر اعظم شنزو آبے اور ان کی اہلیہ نے اپنے ایک مشترکہ دوست کو جاپان کے شہر اوساکا میں اسکول کھولنے کے لئے سرکاری زمین کی خریداری پر نصف رعایت دلوانے میں کردار ادا کیا۔ اس اسکینڈل نے جاپانی حکومت کی بنیادیں ہلادیں اور چند ماہ قبل جاپانی وزیر اعظم کو اس اسکینڈل سے بچانے کے لئے وزارت خزانہ نے زمین کی خریداری کے کاغذات میں سے جاپانی وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کا نام جعلی طریقے سے نکال دیا ۔جب یہ بات کھل کر سامنے آئی تو یہ الزام شاید خطرناک ثابت ہوا اور جاپانی وزیر اعظم پر مستعفی ہونے کے لئے دبائو مزید بڑھ گیا۔ اب جبکہ جاپان کو شمالی کوریا کی جانب سے سخت خطرے کا سامنا ہے اور امریکہ اور جاپان مشترکہ طور پر جنوبی کوریا کے ساتھ مل کر شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کے خاتمے کے لئے کوشاں ہیں اور جاپانی وزیر اعظم شنزو آبے موجودہ ہفتے میں ہی امریکہ کے دورے پر ہونگے ایسے وقت میں ان پر مستعفی ہونے کادبائو شاید جاپان کے مفاد میں نہ ہو لیکن گزشتہ روز ہی پارلیمنٹ کے سامنے جاپانی وزیر اعظم کے خلاف پچاس ہزار افراد نے مظاہرہ کرتے ہوئے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔ جس سے لگتا ہے کہ اب شنروآبے کا عہدے پر رہنا آسان نہ ہوگا۔ جاپان کے سابق اور مقبول ترین وزیر اعظم جونیچی کوئزومی بھی ان کی مخالفت میں سامنے آگئے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ جاپان کو ایٹمی توانائی بطور بجلی بنانے کے لئے استعمال نہیں کرنی چاہیے ۔وزیر اعظم شنزو آبے جاپان میں ایٹمی پاور پلانٹ کو بجلی تیار کرنے کے استعمال کے حق میں ہیں لہٰذا جاپان میں حالیہ ہونے والے پول میں شنز وآبے کی مقبولیت کم ہوکر صرف چھبیس فیصد رہ گئی ہے جبکہ آئندہ وزیر اعظم کے لئے جاپان کے سابق وزیر دفاع شیگرو اشیبا کو ستائیس فیصدتائید حاصل ہے، ان کے بعد سابق جاپانی وزیر اعظم کوئزومی کے صاحبزادے شنجیرو کوئزومی کو موجودہ وزیر اعظم کے متبادل کے لئے پچیس فیصد عوام کی حمایت حاصل ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جاپان میں تبدیلی بہت زیادہ دور نہیں ۔جاپانی سیاسی ذرائع کا کہنا ہے کہ جاپان کے موجودہ وزیر اعظم شنزوآبے کے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ قریبی تعلقات بھی ان کا عہدہ برقرار رکھنے میں مدد نہیں دے سکیں گے۔ شاید جاپانی وزیر اعظم حالیہ مہینے یا اگلے ماہ امریکہ جنوبی کوریا اور شمالی کوریا کے ساتھ ہونے والے اہم مذاکرات میں بطور وزیر اعظم شرکت نہ کرسکیں لیکن دیکھنایہ ہے کہ حالیہ تبدیلی کب تک رونما ہوتی ہے۔ جاپان جیسے ترقی یافتہ ملک جہاں جمہوریت انتہائی مضبوط ہے میں تبدیلی کا امکان ہے لیکن اس تبدیلی کے لئے سیاست دانوں اور پارلیمنٹ کے اندر ہی ہلچل ہوئی ہے اور یہیں سے تبدیلی آئے گی۔ صرف ایک سیاسی غلطی ایک کرپشن کا معاملہ ہی جاپانی وزیر اعظم کی مقبولیت میں کمی کا سبب بنا اور نظام نے اپنا کام شروع کیا اور وزیر اعظم کی کرسی میں ارتعاش پیدا ہوا یہ سب ایک مثالی جمہوریت کا حسن ہے جس کی پاکستان کو اشد ضرورت ہے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین