• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انصاف کی اُمیدیں دم توڑگیئں

حیدرآباد دکن (بھارت) میں دس سال پرانے مقدمے کا فیصلہ بالآخر ہو ہی گیا۔ ایک خصوصی عدالت نے 2007ء کے مکہ مسجد دھماکے والے مقدمے میں سوامی اسیم آنند کے ساتھ پانچ دیگر ملزموں کو بھی بری کردیا ہے۔

سوامی اسیم آنند راشٹریا سیوک سنگھ (آر ایس ایس) ایک نام نہاد قومی خدمت گزار اور رضاکار تنظیم کا سابق رکن ہے۔ یاد رہے کہ آر ایس ایس نامی قومی رضاکار یا محب وطن تنظیم دائیں بازو کی ہندو قوم پرست جماعت ہے، جو ایک نیم فوجی ادارے کے طور پر کام کرتی ہے۔ بھارت کی موجودہ بر سراقتدار پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی نے آر ایس ایس کے ہی بطن سے جنم لیا ہے۔ 

اس وقت بھارت کی صرف دو قومی سطح کی جماعتوں میں سےایک ہے۔ دوسری جماعت کا نام انڈین نیشنل کانگریس ہے۔ بی جے پی اس وقت نہ صرف بھارت کی، بل کہ عالمی سطح پر بھی رکنیت کے اعتبار سے سب سے بڑی سیاسی جماعت سمجھی جاتی ہے۔

سوامی اسیم آنند پر کئی بم دھماکوں میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔ ان میں اجمیر شریف درگار کا دھماکا بھی شامل تھا، جو حضرت معین الدین چشتی کی درگاہ جو اجمیر راجستھان میں واقع ہے، کے باہر ہوا تھا۔ مارچ 2017ء میں ایک خصوصی عدالت نے دیویندر گپتا اور بھویشن پٹیل کو اس جرم میں عمر قیدکی سزا سنائی تھی۔

حیدرآباد کی مکہ مسجد میں دھماکا اجمیر شریف کے دھماکے سے چھ ماہ قبل ہوا تھا۔ یہ مسجد حیدرآباد دکن کے پرانے شہر میں واقع ہے۔ اب حیدرآباد بھارت کی نئی ریاست تلنگا نہ میں ہے، جو پہلے آندھیرا پردیش کا حصہ تھا۔ 2014ء میں تلنگانہ کو آندھیرا پردیش سے الگ کرکے نئی ریاست یا صوبہ بنایا گیا ،جس کی آبادی اب تقریباً چار کروڑ ہے۔

کہا جاتا ہے کہ مکہ مسجد کی تعمیر کے لیے اس وقت کے قطب شاہی حکم ران، محمد قلی قطب شاہ نے کچھ مٹی مکے سے منگواکر شامل کی تھی، اس لیے اس کا نام مکہ مسجد رکھا گیا تھا۔ قطب شاہی خاندان نے سولہویں اور سترہویں صدی میں جنوبی ہند کے علاقے گول کنڈہ میں اپنی سلطنت قائم کی تھی، جو تقریباً پونے دو سو سال قائم رہی تھی۔ اس سلطنت کے حکم ران یعنی قطب شاہی خاندان موجودہ ایران اور ترکمانستان کے سرحدی علاقوں سے ہندوستان آئے تھے اور جنوبی بھارت میں یہ پہلی شیعہ سلطنت قائم کی تھی، اس سلطنت کو بالآخر مغل حکم ران اورنگ زیب عالم گیر نے تہس نہس کرکے مغل حکم رانی قائم کی تھی۔

اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں ہندو انتہا پسندوں نے پے درپے ایسے دھماکے اور کارروائیاں کی تھیں جن کے نتیجے میں ہندو بنیاد پرستی پھیلی۔ اس سلسلے کا 2006ء میں مظاہرہ اس وقت ہوا تھا، جب مہاراشٹر کے شہر مالے گائوں میں کئی بم کے دھماکے کئے گئے۔پہلے اس کا الزام بھی اسلامی تحریک طلبا پر لگایا گیا، مگر پھر ابھی نو بھارت (Abhinav Bharat) نامی تنظیم اس کی ذمے دار نکلی تھی۔ ابھی نو بھارت تنظیم ایک ریٹائرڈ میجر رمیش ایادھیائے اور کرنل پراساد شری کانت نے 2006ء میں پونے میں بنائی تھی۔ابھی نو بھارت قائم تو پونے مہاراشٹر میں کی گئی، لیکن اس کا اثرورسوخ ہمسایہ صوبے مدھیہ پردیش میں بہت ہے۔ یاد رہے کہ ابھی نو بھارت اس پرانی تنظیم کا نیا جنم تھا، جس کو دامورد ساور کر،نے 1904ء میں قائم کیا تھا۔ رامودر ساورکر خود تو آزادی کے متوالے وکیل، سیاست دان ہونے کے علاوہ شاعر مصنف اور ڈراما نگار بھی تھے، مگر ان کی ساری تخلیقی صلاحیتوں کا مقصد بھارت کے تمام لوگوں کو ہندو بنانا تھا۔ اُنہوں نے ہی ہندو توا یعنی ’’ہندو پن‘‘ کی اصطلاح گھڑی، تاکہ پورے بھارت کو ہندو بنایا جاسکے۔

سوامی اسیم آنند اس ہی دامودر ساور کرکے پیروکار ہیں اور مالے گائوں، اجمیر شریف، مکہ مسجد کے علاوہ 2007ء میں سمجھوتہ ایکسپریس کے دھماکوں میں بھی ملوث پائے گئے تھے۔ مکہ مسجد دھماکے میں سولہ افراد جاںبحق ہوئے تھے، اس کے بعد ہجوم پر پولیس کی فائرنگ سے مزید پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ 

وہ تو شکر ہے کہ دھماکا خیز مواد ایک ماربل کے چبوترے کے نیچے چھپایا گیا تھا، جو وضو خانے کے پاس تھا اس لیے دھماکے کا زیادہ زور چبوترے کے نیچے ہی دب گیا، ورنہ ایسے دھماکے میں سیکڑوں افراد کی ہلاکت یقینی تھی۔ اس کے علاوہ قریب ہی دو اور بم پائے گئے تھے، جنہیں ناکارہ بنادیا گیا تھا۔ دھماکے کے وقت مسجد میں دس ہزار سے زیادہ افراد موجود تھے۔

2013ء میں طویل تحقیقات کے بعد یہ بات سامنے آئی تھی کہ مالے گائوں اجمیر شریف اور سمجھوتہ ایکسپریس کے ساتھ مکہ مسجد کے دھماکوں میں بھی ہندو انتہا پسند تنظیمیں ملوث تھیں۔ سوامی اسیم آنند نے ان دھماکوں میں ملوث ہونے کا اعتراف بھی کرلیا تھا، مگر پھر جب سوامی جی اپنے اعترافی بیان سے منحرف ہوگئے اور کہا کہ مجھے دبائو میں لاکر اعتراف کرایا گیا تھا۔ اب حیدرآباد کی خصوصی عدالت نے کہا ہے کہ ملزمان کے خلاف ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہیں۔ بھارت میں یہ طریقہ عام ہے کہ جب بھی دھماکے ہوتے ہیں تو فوری طور پر مقدمات مسلمانوں کے خلاف بنالیے جاتے ہیں، لیکن جب تحقیقات ہوتی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان دھماکوں کے پیچھے ہندو انتہا پسند تنظیمیں ہیں۔ 

مکہ مسجد کے مقدمے میں دو ملزمان کو تو گرفتار ہی نہیں کیا جاسکا اور ایک ملزم سنیل جوشی کو قتل کردیا گیا تھا۔ گو کہ سوامی اسیم آنند کو اس مقدمے میں بری کردیا گیا ہے، مگر سمجھوتہ ایکسپریس کے مقدمے میں وہ اب تک ملزم ہیں، لیکن 2015ء کے بعد سے ضمانت پر ہیں، چوں کہ یہ زیادہ تر دھماکے کانگریس کی حکومت کے دوران ہوئے تھے اور ان کی تحقیقات بھی بڑی حد تک اسی دور میں ہوئی تھی، اس لیے ہندو انتہا پسند تنظیمیں یہ الزام بھی لگاتی رہی ہیں کہ کانگریس نے بی جے پی اور دیگر ہندو قوم پرست تنظیموں کو نقصان پہنچانے اور مسلمان ووٹ حاصل کرنے کے لیے ہندوئوں کو ان دھماکوں میں غلط طور پر ملوث کیا ہے۔

اس کہانی کا ایک اور مرکزی کردار موہن بھاگوت بھی ہے، جو اس وقت آر ایس ایس کا سربراہ ہے۔ بھاگوت نے آر ایس ایس کی قیادت 2009ء میں سنبھالی تھی، جب ان کے پیشرو سدرشن نے 2000ء سے 2009ء تک نو سال آر ایس ایس کی قیادت کرنے کے بعد تنظیم کو موہن بھاگوت کے حوالے کردیا تھا، گو کہ بھاگوت ایک جانا پہچانا ہندو انتہا پسند اور دہشت گرد ہے، مگر بی جے پی کی حکومت نے اسے سرکاری تحفظ دے رکھا ہے۔

بھارت کی حالیہ سیاست پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح طور پر نظر آتی ہے کہ بی جے پی کی حکومت نے ہندو انتہا پسندوں کو تقریباً کھلی چھوٹ دے رکھی ہے اور مسلمان دشمنی میں اضافہ کرکے ہندو ووٹ حاصل کئے جارہے ہیں۔ اس طرح بھارت کی اکثر ریاستوں میں ہونے والے صوبائی انتخابات میں بی جے پی ہی کامیاب ہوتی رہی ہے، جس سے یہ واضح ہوررہا ہے کہ بی جے پی نے 2019ء میں آنے والے عام انتخابات کی مہم کا آغاز ابھی سے کردیا ہے اور پورے بھارت میں ہندو ووٹ حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کو مسلسل نظرانداز کررہی ہے۔ 

اس کا صاف نمونہ اترپردیش میں دیکھا جاسکتا ہے، جہاں کی بائیس کروڑ کی آبادی میں ایک بھی مسلمان وزیر نہیں ہے۔ وزیر تو چھوڑئیے بی جے پی نے کہیں بھی مسلمان امیدواروں کو ٹکٹ تک نہیں دیئے ہیں، حالاں کہ مسلم اکثریتی علاقے بھی مسلم نمائندگی سے محروم رہتے ہیں، وہاں بھی ہندو منتخب ہوکر صوبائی اور قومی اسمبلی یعنی لوک سبھا میں پہنچتے ہیں۔

مکہ مسجد دھماکے کے حالیہ فیصلے نے ہندو انتہا پسندی کو مزید مضبوط کیا ہے اور یہ کہنا تو مشکل ہے کہ عدالت نے جانب داری کی ہے، البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ پولیس نے غالباً جان بوجھ کر وہ ٹھوس ثبوت عدالت کے سامنے پیش نہیں کئے، جن کی بنا پر سوامی اسیم آنند اور دیگر ہندو انتہا پسندوں کو سزا دی جاتی۔ اب مکہ مسجد مقدمہ تقریباً ختم ہوچکا ہے اور انصاف کی امیدیں دم توڑ چکی ہیں۔

تازہ ترین