• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کتاب کون خریدے گا،اِس گرانی میں۔۔۔۔؟؟

اقوامِ متحدہ کے ادارے، یونیسکو نے 1995ء میں اسپین کے شہر، بارسلونا میں( جو کاتالونیا کا دارالحکومت ہے) منائے جانے والے ایک ثقافتی تہوار کو ’’عالمی یومِ کتاب‘‘ کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا، تو متعدّد مُمالک نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا۔ اسپین میں 23اپریل کا دن عوامی ہیرو کی حیثیت رکھنے والے مصنّف، سینٹ جارج کی سال گرہ کی نسبت سے اہم ہے۔ 

اس دن لوگ ایک دُوسرے کو گلاب کے پھول تحفے میں دیتے ہیں۔ 1923ء میں کتابوں کی دُکانوں کے مالکان کی تحریک پر لوگ گلاب کے ساتھ ساتھ کتابیں بھی تحفے میں دینے لگے۔ رفتہ رفتہ اس دِن نے عوامی، ثقافتی تہوار کی صُورت اختیار کرلی۔ بارسلونا کی سڑکوں اور بازاروں میں ہزاروں اسٹالز پر لاکھوں کی تعداد میں گلاب اور کتابیں فروخت ہوتی ہیں۔ اس دن کی اہمیت اس حوالے سے دوچند ہو جاتی ہے کہ یہ انگریز ڈراما نگار، ولیم شکسپیئر اور ہسپانوی شاعر، مگل دے سیروانتیس (Miguel de cervantes) کا یومِ وفات ہونے کے علاوہ، دیگر کچھ عالمی اَدیبوں کی ولادت یا وفات کا دن بھی ہے۔ 

سو، دُنیا کے ایک سو سے زاید مُلکوں میں یہ دن بڑے اہتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ یورپ اور امریکا میں اسکول کے طلبہ یونی فارم کے بجائے ایک مخصوص لباس زیب تن کر کے آتے ہیں اور اُنہیں پابند کیا جاتا ہے کہ وہ نصابی کتب کے بجائے اپنی پسندیدہ کوئی کتاب ساتھ لے کر آئیں۔ خاص طور پر جرمنی میں یہ دن بڑے جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے، اس دن کتابوں کی فروخت عروج پر ہوتی ہے۔ یاد رہے، 2004ء میں ’’عالمی یومِ کتاب‘‘ کے موقعے پر چار ارب یورو کی کتابیں فروخت ہوئی تھیں۔

پاکستان میں یہ دن ہر سال آتا ہے اور بڑی خاموشی سے گزر جاتا ہے، حتیٰ کہ پاکستان کے بڑے بڑے پبلشرز اور بُک سیلرز کی جانب سے بھی کوئی خاص سرگرمی دیکھنے میں نہیں آتی۔ ایک اندازے کے مطابق، پاکستان میں تقریباً ساڑھے چار ہزار اشاعتی ادارے ہیں، جب کہ کتابوں کے فروخت کنندگان(بُک سیلرز) کی تعداد اس سے دُگنی، چوگنی ہو سکتی ہے، لیکن زیادہ تر اشاعتی ادارے درسی کتابوں کی اشاعت میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ 

علمی نوعیت کی کتابیں چھاپنے والے ادارے، چند سو ہی ہوں گے۔ پاکستان میں کتابوں کی اشاعت کا کام تکون یا مثلّث پر مشتمل ہے، مصنّف، ناشر اور بُک سیلر۔ اس تکون کا سب سے کم زور پہلو مصنّف ہے اور اس سے کچھ تھوڑا بہتر، ناشر۔ تکون کی سب سے مضبوط کڑی بُک سیلر یعنی کتب فروش ہے۔ وہ ایک پیسا لگائے بغیر پچاس تا ساٹھ فی صد کمیشن کماتا ہے۔ کتاب فروخت ہو جائے تو نفع پکّا، نہ ہو، اسٹال پر پڑی رہ جائے، تو کوئی غم یا نقصان نہیں۔ کتاب، مصنّف یا ناشر کو واپس چلی جائے گی، خواہ اسٹال پر پڑے پڑے اس کی صُورت بگڑ جائے، بُک سیلر کو کچھ لینا دینا نہیں۔ 

اگر کتاب براہِ راست مصنّف نے بُک سیلر کو فروخت کرنے کے لیے دی ہے، تو وہ رقم کی ادائی میں ٹال مٹول کرتا رہے گا۔ چکر پر چکر لگوائے گا۔ اگر معاملہ دُوسرے شہر کا ہے تو سمجھ لیجیے، ستّر فی صد صُورت میں رقم نہیں ملے گی۔ فون کریں، خط پر خط لکھیں، کچھ نہیں ہوگا۔ ساری کی ساری رقم ہڑپ۔ اس تکون سے دُور پرے وہ قاری ہے، جو کتاب خریدنا چاہتا ہے، لیکن کتاب پر لکھی ہوئی قیمت دیکھ کر اُس کے ہوش اُڑ جاتے ہیں، بڑی خوشامد کے بعد بُک سیلر اُسے دس فی صد رعایت دیتا ہے، جب کہ ناشر نے یہ کتاب اُسے پچاس فی صد یا زاید کمیشن پر دی ہوتی ہے۔ 

ایک ہزار روپے والی کتاب، وہ قاری کو نو سو روپے میں ٹکاتا ہے، یعنی چار سو روپے خالص نفع! ہلدی لگی نہ پھٹکری۔ جب کہ باقی پانچ سو روپے میں کاغذ، طباعت اور جِلدبندی سمیت دیگر مصارف بھی لاگت میں شامل ہوتے ہیں۔ ناشر کو کیا منافع ہوا، اس کا اندازہ آپ خود کر لیجیے۔

اس عام تاثر کے برعکس کہ فیس بُک، موبائل فونز وغیرہ کی وجہ سے کتب بینی کی روایت دَم توڑ رہی ہے، پاکستان میں کتابوں کی اشاعت میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ گزشتہ برسوں میں متعدّد نئے اشاعتی ادارے وجود میں آئے ہیں۔ علاوہ ازیں، کتابیں تحریر کر کے اُنھیں خود چَھپوانے کا رُجحان بھی بڑھ گیا ہے۔ بیرونِ مُلک مقیم پاکستانی اپنی یادداشتیں، شاعری، سفرنامے، ناول وغیرہ تحریر کرکے پاکستان میں ان کی اشاعت کا بندوبست کرتے ہیں۔ 

اس رُجحان کو دیکھتے ہوئے پاکستان میں متعدّد ایسے اشاعتی ادارے قائم ہوگئے ہیں، جو نوآموز مصنّفین کی کتابیں چھاپ کر جہاں ایک طرف ان کے جذبۂ ذوق کی تسکین کرتے ہیں، وہاں خود ان کا کاروبار بھی چمکتا جا رہا ہے۔ یہ ادارے کاغذ، طباعت، کمپوزنگ/ کتابت، جلدبندی وغیرہ کے تمام اخراجات مصنّف سے وصول کرتے ہیں۔ جس میں ان کا نفع بھی شامل ہوتا ہے۔ عام طور پر ایسی کتابیں ہزار یا پانچ سو کی تعداد میں شایع کی جاتی ہیں۔ 

اشاعتی ادارے یکمشت قیمت وصول کر کے کتابیں’’گاہک‘‘ یعنی مصنّف کے حوالے کر دیتے ہیں۔ مصنّف اگر چاہے تو آدھی قیمت پر یہ کتاب اُسی اشاعتی ادارے کو فروخت کر سکتا ہے۔ بالعموم، اشاعتی ادارے یہ خسارے کا سودا کرنے کا تکلّف نہیں کرتے اور مصنّف کو ہزار یا پانچ سو کتابوں کا ڈھیر خود ہی اُٹھانا پڑتا ہے۔ پھر ہوتا یہ ہے کہ مصنّف اپنے جاننے والوں، دوستوں اور عزیز و اقارب کو اپنی کتاب زندگی بھر تحفتاً بانٹتا نظر آتا ہے۔ 

اس کے باوجود، کتاب کے کچھ نسخے بچ رہتے ہیں۔ ہمارے ایک مرحوم دوست، افسر آذر جو اُردو کے بہترین افسانہ نگار تھے، ان کے اَدبی قامت کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اُردو کے صفِ اوّل کے ناول نگار، عزیز احمد ان کو اپنے پسندیدہ افسانہ نگاروں میں شمار کیا کرتے تھے۔ ترجمہ نگاری میں بھی ان کا ثانی نہیں تھا۔ ایک مرتبہ انھیں اپنے افسانوں کا مجموعہ شایع کرنے کا خیال آیا۔ سو، اپنی تمام جمع پونجی اس کام میں لگا دی، ایک دن ملاقات ہوئی تو ہم نے ایسے ہی دریافت کرلیا کہ پہلا ایڈیشن کتنی تعداد میں شایع ہوا ہے، کہنے لگے ’’گھر کی چھت تک لگا ہوا ہے، اب تک ایک نسخہ بھی فروخت نہیں ہوا‘‘ اُن ہی دنوں کراچی میں شدید بارشیں ہوئیں، اُن کا قیام لیاقت آباد میں تھا، مکان کی خستہ چھت بارشوں کی تاب نہ لا سکی، پورے گھر میں پانی بھر گیا اور افسانوی مجموعے کی تمام جلدیں بھیگ کر خراب ہوگئیں۔ ایک خستہ حال جلد آج بھی ہمارے پاس موجود ہے۔ 

پاکستان میں بلاشبہ ہزاروں نہیں، لاکھوں ایسے مصنّفین ہیں، جو بڑے شوق اور چائو سے کتاب چَھپواتے ہیں، لیکن مارکیٹنگ کا تجربہ نہ ہونے کے سبب کتابیں، گھر کے کباڑ خانے کی زینت بنی رہتی ہیں اور اگر بلاوا آ جائے اور عُمر کی نقدی ختم ہو جائے، تو ورثا کتابوں کا یہ ڈھیر کباڑیوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔

ایک مقامی پبلشر، رشید بٹ، لوگوں میں کتب بینی کے رُجحان میں کمی کو کتاب کے زوال کا سبب قرار دیتے ہیں۔ وہ کراچی کے سنہرے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’ تیس پینتیس سال پہلے، صرف ریگل چوک پر پچیس تیس بُک اسٹالز تھے، لوگ شام کو اپنے دفتروں سے نکل کر، ریگل چوک پر پہنچ کر اپنی پسند کی کتابیں خریدتے تھے۔ وہاں شام کو ایک میلے کا سماں ہوا کرتا تھا۔ 

پھر ہوا یہ کہ اَسّی کے عشرے کے ابتدائی برسوں میں کراچی کی سڑکوں پر ایک بھوت ناچنے لگا، کلاشنکوف چلنے لگی، لمبی لمبی مدّت کے لیے کرفیو نافذ رہنے لگا۔ شہر میں ہر طرف غیر یقینی حالات پیدا ہوگئے۔ لوگوں کے دِلوں میں دہشت بھر گئی، پتا نہیں کب اور کہاں گولی چل جائے، لہٰذا ہر شخص اپنے کام کی جگہ سے نکل کر سیدھا گھر پہنچنے لگا۔ اس طرح یہ بُک اسٹالز پہلے ویران ہوئے اور پھر ختم ہوتے چلے گئے۔ 

اب ریگل چوک پر صرف تین چار بُک اسٹالز ہیں۔ اسی طرح سنگر شو روم سے زینب مارکیٹ کی طرف جانے والی زیب النساء اسٹریٹ پر کتابوں کی بڑی بڑی دُکانیں تھیں، ایک دُکان تو پانچ منزلہ تھی، کتابیں ہی کتابیں، اب وہاں کپڑوں اور جوتوں کی دُکانیں کُھل گئی ہیں۔ یہ اس وجہ سے ہوا کہ لوگوں میں کتب بینی کی عادت نہیں رہی، البتہ جن کے خمیر میں مطالعہ شامل ہے، وہ اب بھی پڑھ رہے ہیں، لیکن سنجیدہ پڑھنے والے بہت کم رہ گئے ہیں۔‘‘

ایک زمانہ تھا، ہر کتاب ایک ہزار کی تعداد میں چھاپی جاتی تھی اور یہ پہلا ایڈیشن کہلاتا تھا۔ ابنِ صفی اُردو کے واحد اَدیب ہیں، جن کے ناولز کے ایڈیشن بازار میں آتے ہی فروخت ہو جاتے تھے اور لوگ باقاعدہ بُک اسٹالز پر لمبی لمبی قطاریں لگا کر اُنھیں خریدتے تھے، اس طرح ہفتے مہینے کے دَوران کئی کئی ایڈیشنز شایع ہوتے تھے، ایسی مقبولیت پھر ’’سب رنگ ڈائجسٹ‘‘ کے حصّے میں آئی، لیکن اب یہ سب خواب و خیال کی باتیں لگتی ہیں۔ 

اب عالم یہ ہے کہ ایڈیشن کی تعداد، ہزار سے پانچ سو ہوئی اور اب تین سو پر آ گئی ہے، مگر یہ تین سو نسخے فروخت ہو جانا بھی بڑی بات ہے۔ مصنّف سو ڈیڑھ سو نسخے تو اپنے دوست احباب کی نذر کر دیتا ہے۔ اگر کسی صاحبِ اختیار سے دوستی ہے یا کوئی ایس ایچ او یا کسٹم آفیسر ہے، تو بقیہ نسخے جبراً فروخت ہونے کی صُورت نکل آتی ہے۔

جدید ٹیکنالوجی کتابوں کی صنعت میں ایک نئی رُوح پھونکنے کا سبب بنی ہے۔ جس زمانے میں کتابت کا رواج تھا، کاتبوں کے نخرے اُٹھانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔ یہ ایک ایسی منزل تھی، جس تک پہنچنے کے لیے رقم کے ساتھ اپنا وقار اور آبرو کھونے کی بھی نوبت آ جاتی تھی۔ کسی بھی پرانے ادیب کی تحریر پڑھ لیجیے، سب ہی کاتب کا رونا روتے ملیں گے۔ اکبر الٰہ آبادی’’ کونسلوں میں سیٹ‘‘ لکھتے تھے، کاتب ’’گھونسلوں میں بیٹ‘‘ لکھ ڈالتا۔ نشتر الٰہ آبادی، ’’ن‘‘ سے محروم ہوکر شتر الٰہ آبادی ہو جاتے ہیں، ’’پکاسو‘‘ پر لکھے ہوئے مضمون کی کتابت کے دَوران کاتب صاحب کو مغالطہ ہوگیا کہ تحریر کنندہ شاید ’’ر‘‘ لکھنا بھول گیا ہے، لہٰذا وہ پکاسو کے نام کے آگے ’’ر‘‘ لکھتے چلے گئے۔ اب خیر ایسا نہیں ہوتا، کاتبوں کے نخرے اور قصّے ماضی کا حصّہ بن چکے، لیکن کمپوزنگ کرنے والے بھی کچھ کم نہیں ہیں، ایسی ایسی غلطیاں کرتے ہیں کہ آدمی اپنا سر پیٹ ڈالے، لیکن پروف ریڈر اچھا ہو، تو یہ غلطیاں پکڑ میں آ جاتی ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ناشر حضرات، کاغذ خریدنے سے طباعت و اشاعت اور جلدبندی تک ہر جگہ رقم خرچ کرتے ہیں، لیکن دو افراد کو معاوضہ دینے کے نام پر اُن کی جان نکل جاتی ہے۔ ایک مصنّف، دُوسرا پروف ریڈر، حالاں کہ تحریر کا وقار اچھی پروف ریڈنگ ہی پر منحصر ہے۔

جدید ٹیکنالوجی سے کمپوزنگ، مواد میں غلطیاں لگانا، پیراگراف کو اُوپر نیچے کرنا، فونٹ سائز کو بڑھانا یا کم کرنا، متن اور سُرخیوں کے لیے علیٰحدہ علیٰحدہ رسم الخط اختیار کرنا، بہت آسان ہوگیا۔ اس وجہ سے طباعت کی خُوب صُورتی بھی بڑھی ہے اور نفاست اور معیار بھی بہتر ہوا ہے، لیکن بڑا فائدہ یہ ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے مواد کی ترسیل آسان ہوگئی ہے۔ بیرونِ مُلک مقیم افراد اپنی کتابیں، جرائد اور تحقیقی مقالے پاکستان کے پبلشنگ اداروں سے تیار کروا رہے ہیں، پھر یہ سارا مواد متعلقہ مُلکوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔ اس طرح پاکستان میں لوگوں کو روزگار کے نئے مواقع حاصل ہوئے ہیں۔ 

کمپوزنگ، ڈیزائننگ یا پیج میکنگ وغیرہ کے اخراجات یورپ اور امریکا کے مقابلے میں بہت کم ہیں اور اسی طرح طباعت و اشاعت کی لاگت بھی، لیکن پاکستان سے طبع شدہ کتابیں یا رسائل وغیرہ باہر بھیجنے کے اخراجات زیادہ ہیں۔ کتاب کی لاگت میں، اصل خرچ کاغذ کا ہے۔ پاکستان کا مقامی کاغذ، عالمی معیار کا مقابلہ نہیں کر سکتا، لہٰذا بیش تر ناشر درآمدی کاغذ استعمال کرتے ہیں، جو زیادہ تر انڈونیشیا سے برآمد کیا جاتا ہے۔ عموماً کتابیں 23x36/16 سائز پر شایع کی جاتی ہیں، اس سائز کے ہلکے کاغذ کا رِم مارکیٹ میں 1600 روپے اور اس سے بہتر یعنی ستّر گرام کے آفسٹ پیپر کے رِم کی قیمت 2800 روپے ہے، گویا کتابی سائز کے 32 سادہ صفحات کی قیمت ساڑھے تین روپے اور ستّر گرام کے آفسٹ پیپر کی ایک شیٹ جس کے 32 صفحات بنتے ہیں، ساڑھے پانچ روپے میں پڑے گی۔ یہ صرف کاغذ کی قیمت ہے، اب اگر طباعت و اشاعت کے ساتھ اور دیگر اخراجات ساٹھ پیسے فی صفحہ شامل کر لیے جائیں، تو ایک سو ساٹھ صفحے کی کتاب کے ایک نسخے پر 90 روپے لاگت آئے گی۔ 

پبلشنگ کے قواعد کے مطابق، چھاپنے والے کو اس کی قیمت تین گُنا زائد یعنی 270 روپے مقرر کرنا ہوگی، کیوں کہ بُک سیلرز یہ کتاب65 فی صد کمیشن پر اُٹھائے گا۔ اس طرح ناشر کو کتاب کے ایک نسخے پر قریباً چالیس روپے بچیں گے، وہ بھی پورا ایڈیشن فروخت ہونے کی صُورت میں، سو پچاس اعزازی نسخے تو مفت ہی میں نکل جائیں گے۔ اب اگر اُس نے کتاب 500 کی تعداد میں چھاپی ہے، تو زیادہ سے زیادہ نفع بارہ ہزار روپے رہے گا اور اگر سو پچاس نسخے فروخت ہونے سے بچ گئے، تو نفع، نقصان میں بدل جائے گا۔ کتابوں کی صنعت کی ترقّی میں سب سے بڑی رُکاوٹ یہی عوامل ہیں۔ 

سب سے پہلے بُک سیلرز کا کمیشن کم کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں ایسا دُوسرا کوئی کاروبار نہیں ہے، جس میں اس قدر کمیشن دیا جاتا ہو۔ اکثر بُک سیلرز سڑک یا فٹ پاتھ پر کاروبار کرتے ہیں۔ جس کا اُنھیں کوئی کرایہ نہیں دینا پڑتا، نہ اُن پر دُوسرے ٹیکسز لاگو ہوتے ہیں۔ جب کہ ناشر طرح طرح کے ٹیکسز کی زد میں رہتا ہے اور اس کے دفتری اخراجات بھی ہوتے ہیں۔ محدود تعداد میں کتابوں کی اشاعت کی وجہ سے اس کا منافع بھی گھٹ جاتا ہے، لہٰذا ایسی صُورت میں پہلی چُھری مصنّف کے گلے پر چلتی ہے، جسے اپنی محنت کا خاطر خواہ معاوضہ ہی نصیب نہیں ہوتا۔

کتابوں کے فروغ کے لیے ہر سطح پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں میں مطالعے کا رُجحان اگر کم ہو رہا ہے، سنجیدہ قاری گم ہوگیا، تو اس کا سبب تلاش کرنا چاہیے۔ کتابیں مہنگی ہیں، مصنّف کو معاوضہ نہیں ملتا، لوگ موبائل، انٹرنیٹ اور دیگر مشاغل پر ہزاروں روپے خرچ کر دیتے ہیں، مگر چند سو روپے کی کتاب اُلٹ پلٹ کر واپس رکھ دیتے ہیں۔ بڑے گھرانوں میں کچھ کتابیں اور رسائل ڈرائنگ روم کی خُوب صُورتی اور صاحبِ مکان کے ذوق کی علامت کے طور پر سجا دی جاتی ہیں۔ یہ سب باتیں عرصے سے کہی جا رہی ہیں، مگر حل کسی کے پاس نہیں ہے۔ 

حتیٰ کہ اُن کے پاس بھی نہیں، جو کتابوں کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ شہر میں بڑے بڑے بُک فیسٹیولز منعقد ہوتے ہیں، مگر اُن کا مقصد صرف اُن پرانی کتابوں کو ٹھکانے لگانا ہوتا ہے، جو گودام میں جگہ گھیر رہی ہوتی ہیں، یا پھر کسی اشاعتی ادارے کو اپنی مارکیٹنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اخبارات میں مفت کی تشہیر الگ ہو جاتی ہے، مگر بے چارے ادیب کو تو مفت کی چائے تک نہیں ملتی۔ راحت اندوری کا یہ شعر کتنا برمحل ہے۔؎

میں سوچتا ہوں کوئی اور کاروبار کروں

کتاب کون خریدے گا، اس گرانی میں

تازہ ترین