• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میاں نواز شریف قصہ پارینہ ہوجائیں گے۔۔۔۔۔؟؟

سابق وزیرِ اعظم، میاں نواز شریف کی پارلیمانی سیاست سے تاحیات نا اہلی کے فیصلے پر اُن کے مخالفین دِلی طور پر یقیناً مطمئن ہیں کہ اس حوالے سے اُن کےخاصے پُرجوش بیانات سامنے آئے، لیکن خوشی کے اظہار میں کچھ خدشات اور وسوسے بھی محسوس ہوئے، جس کی کچھ وجوہ بھی ہیں۔ یعنی اس فیصلے کے آنے سے ایک سمت تو طے ہو گئی۔ ایک اصول تو بن گیا اور ایک راستہ تو نکل آیا،تو اب اس فیصلے کی بنیاد پر بات صرف نواز شریف ہی تک محدود نہیں رہے گی، اب اس کی زد میں وہ سیاست دان بھی آسکتے ہیں، جو مستقبل میں الیکشن لڑنے کی خواہش رکھتے ہیں۔

میاں نواز شریف اور پاکستان تحریکِ انصاف کے راہ نُما، جہانگیر ترین کی تاحیات نا اہلی آئین کے آرٹیکل 62(1) ایف کے تحت عمل میں آئی۔ فیصلہ سُنائے جانے سے قبل یہ قیاس کیا جا رہا تھا کہ نا اہلی کی مدّت پانچ سے دس سال تک ہو سکتی ہے، لیکن سپریم کورٹ نے اس شِق کی تشریح اس طرح سے کی کہ’’چُوں کہ مذکورہ آرٹیکل میں نا اہلی کی مدّت کا تعیّن نہیں کیا گیا ہے، اس لیے نا اہلی تاحیات ہو گی۔‘‘ آئین کےآرٹیکلز،62,63کے خالق، سابق فوجی حُکم راں، جنرل ضیاء الحق تھے اور شاید اس لیے مواقع ملنے کے باوجود میاں نواز شریف نے اپنے سیاسی محسن کے ساتھ احسان فراموشی نہیں کی اور پارلیمنٹ میں اکثریت ہونے کے باوجود اکثریت کے ذریعے یا پھر آئینی ترمیم کر کے اس فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دیا اور ماضی میں انہوں نے جس شِق کی حمایت کی تھی، وہی اُن کی پارلیمانی سیاست کے خاتمے کا سب بنی۔ 

یہی وجہ ہے کہ 13 اپریل کو سپریم کورٹ کے جج، جسٹس عظمت سعید نے فیصلے کے اضافی نوٹ میں لکھا کہ پارلیمنٹ کے پاس ایک موقع تھا۔ جب 18ویں آئینی ترمیم یا اُس کے بعد جب 2017 ء میں الیکشن ایکٹ منظور کیا جا رہا تھا، تو اُس وقت اس شِق کو تبدیل کیا جا سکتا تھا۔ معزز جج کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب پارلیمنٹ کے پاس اس کی کوئی گنجائش نہیں رہ گئی کہ وہ اس فیصلے کو تبدیل کرے۔ تاہم، فی الحال مسلم لیگ (نون) کے زعما یہی کہہ رہے ہیں کہ اگر آیندہ ان کی جماعت کی حکومت قائم ہوتی ہے، تو وہ ان شِقوں کو تبدیل کر دے گی یا ان میں ترمیم کرے گی اور اگر مسلم لیگ (نون) کے علاوہ کسی اور جماعت کی حکومت آئی، تو وہ بھی ایسا ہی کرے گی، لیکن یہ سوال اپنی جگہ قائم رہے گا کہ جب پارلیمنٹ میں مسلم لیگ (نون) کی واضح اکثریت تھی اور پیپلز پارٹی سمیت دوسری جماعتیں بھی اس شِق کو تبدیل کرنے پر اصرار کر رہی تھیں، تو میاں نواز شریف نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ بہر حال، قرائن اس اَمر کی غمّازی کرتے ہیں کہ میاں نواز شریف کی نا اہلی سے معاملات ختم نہیں، بلکہ شروع ہوئے ہیں اور نیب کی جانب سے اُن کی طلبی اور اُن سے اس معاملے پر جواب طلب کرنے کو کہ 15مارچ 1998ء کو بہ طور وزیرِ اعظم انہوں نے غیر قانونی طور پر ضلع کاؤنسل، لاہور کے فنڈ سے ذاتی مفاد کے لیے ایک سڑک20فٹ کی بہ جائے 24فٹ چوڑی تعمیر کروائی، جس سے قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچا اور قومی مفاد کے کئی منصوبے نامکمل رہ گئے، ابتدا سمجھا جا رہا ہے۔ تاہم، اس وقت اہم سوال یہ ہے کہ وزیرِ اعظم کے منصب اور پارٹی قیادت سے محرومی کے بعد اب پارلیمانی سیاست میں حصّہ لینے پر پابندی کے بعد کیا واقعی میاں نواز شریف کی سیاست ختم ہو چُکی ہے اور کیا مُلکی سیاست میں اُن کا کردار غیر فعال ہو چُکا ہے۔

یاد رہے کہ میاں نواز شریف اس وقت مُلک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سپریم لیڈر ہیں اور اُن پر پابندی کے باوجود بھی عوام اُنہیں اپنا قائد اور اُن کے رفقاء انہیں ’’دِلوں کا وزیرِاعظم‘‘ قرار دیتے ہیں۔ تادمِ تحریر اُن کی پارٹی بھی خاصی حد تک مستحکم ہے اور اُن کے جلسوں میں عوام کی تعداد اور اُن کا جوش و خروش بھی دیدنی ہوتا ہے۔ نیز، اُن کی سیاست پر پابندیاں عاید ہونے کے نتیجے میں اُن کی ہم دردی کے ووٹ میں بھی اضافہ ہوتا دِکھائی دیتا ہے۔ 

اب ایک پہلو تو یہ ہے کہ ان فیصلوں نے تو میاں نواز شریف کی مقبولیت پر کوئی اثر نہیں ڈالا، لیکن یہ بھی دُرست ہے کہ جماعتی سطح پر اُن کی مشکلات میں اضافہ ضرور ہوا ہے اور پارٹی کے سرکردہ رہنما، جن میں ارکانِ پارلیمنٹ بھی شامل ہیں، اپنے قائد کی نا اہلی کے بعد اپنے مستقبل کے حوالے سے متفکّر ہو گئے ہیں، پھر ان خدشات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ مسلم لیگ (نون) کی حکومت کے بعد، جس کی آئینی مدّت ختم ہونے میں چند ہفتے رہ گئے ہیں، جماعتی سطح پر کیا صُورتِ حال ہو گی، جب کہ یہ پہلو بھی پیشِ نظر رہے کہ میاں خاندان کے اُن افراد کے خلاف، جو سیاست میں ہیں اور جو کاروبار کرتے ہیں، بدعنوانیوں کے مقدّمات کی ایک طویل فہرست ہے، جن کو انتخابات سے قبل منظرِ عام پر لا کر کارروائی شروع ہو سکتی ہے، لیکن میاں نواز شریف کی حالت اب اُس شخص کی سی ہے، جس کی ساری کشتیاں جل چُکی ہیں اور اب اُن کے لب و لہجے میں مزید جارحیت آ سکتی ہے۔ 

اُن کے بیانات سے ایسا لگتا ہے کہ وہ جیل جانے پر بھی آمادہ ہیں اور خود اُن کی صاحب زادی، مریم نواز اپنے جلسوں میں کہہ چُکی ہیں کہ’’ ہمیں ہتھکڑیوں اور کال کوٹھڑیوں میں بھیجنا چاہتے ہیں، تو ہم اس کے لیے بھی تیار ہیں۔‘‘ میاں نواز شریف کو اُن کے اپنوں نے یہ یقین دہانی بھی کروائی ہے کہ اگر وہ جیل چلے جاتے ہیں، تو عوام میں اُن کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہو گا اور ہم دردی کے ووٹ میں بھی۔ گو کہ اس حوالے سے ماضی کی تاریخ خاصی تکلیف دہ ہے، لیکن شاید خود میاں نواز شریف کے پاس بھی اب اس کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہ گیا۔

سابق وزیرِ اعظم، میاں محمد نواز شریف کو یہ ’’اعزاز‘‘ بھی حاصل ہے کہ وہ تین مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کے عہُدے پر فائز ہوئے، لیکن ایک مرتبہ بھی اپنے منصب کی آئینی مدّت مکمل نہ کر سکے۔ میاں محمد نواز شریف، جنہوں نے 25دسمبر 1949ء کو لاہور کے ایک کاروباری گھرانے میں آنکھ کھولی، اُن کے خاندان کے پاس وسائل کی کمی نہیں تھی۔ البتہ شُہرت اور توجّہ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اختیار کی خواہش اُن کا خواب تھا۔ 

اُن کی عملی سیاست کا آغاز 1970ء کی دہائی کے آخر میں ہوا اور 1981ء میں اُس وقت کے فوجی حُکم راں، جنرل ضیاء الحق کے دَورِ اقتدار میں جنرل جیلانی نے اُن کی سیاسی تربیت بلکہ پرورش کی اور اسی دوران انہیں پنجاب کا وزیرِ خزانہ بنا یا گیا اور پھر فوجی حکومت کی نوازشات اور تابع داری نے انہیں ضیاء الحق کے دَور ہی میں پنجاب کا وزیرِ اعلیٰ بھی بنا دیا اور یہ کامرانی انہیں 1985ء میں یعنی صوبائی وزیرِ خزانہ بننے کے محض 4برس بعد حاصل ہوئی۔ 1988ء میں جب بے نظیر بُھٹّو جلا وطنی ختم کر کے وطن واپس آئیں اور مُلک کی وزیرِ اعظم بنیں، تو اُس وقت بھی میاں محمد نواز شریف پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ تھے۔ 

تاہم، اسی دوران وہ پنجاب سے نکل کر وفاق کی سیاست میں داخل ہوئے۔ 1990ء میں انہوں نے اسلامی جمہوری اتحاد کی سربراہی کی اور مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے کام یابی حاصل کرنے کے محض دو سال بعد ہی پہلی مرتبہ مُلک کے وزیرِ اعظم بن گئے۔ اس عرصے میں جہاں خود انہوں نے اپنے سیاسی سفر میں تیزی سے ترقّی کی، وہیں وزیرِ اعظم بننے کے بعد اُن کا کاروبار بھی حیرت انگیز طور پر دن دوگنی، رات چوگنی ترقّی پاتا گیا، جس کے باعث مبیّنہ طور پر اُن پر کرپشن کے الزامات لگنا شروع ہو ئے اور تین سال بعد اُس وقت کے صدر، غلام اسحٰق خان نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے انہیں وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے معزول کر دیا، لیکن وہ اس فیصلے کے خلاف عدالت میں چلے گئے اور اُس وقت کے چیف جسٹس، نسیم حسن شاہ نے میاں نواز شریف کو بہ طور وزیرِ اعظم بحال کرنے کے احکامات جاری کر دیے، لیکن پھر فوج کے دبائو کے باعث صدر، غلام اسحٰق خان اور میاں نواز شریف دونوں ہی کو اپنے اپنے مناصب سے محروم ہونا پڑا۔

1997ء کے عام انتخابات میں میاں نواز شریف بھاری اکثریت سے کام یابی حاصل کرنے کے بعد دوسری مرتبہ مُلک کے وزیرِ اعظم منتخب ہوئے ، لیکن اپنے ہی مقرر کردہ چیف آف آرمی اسٹاف، جنرل پرویز مشرّف سے اُن کے اختلافات کے باعث حالات اس نہج پر پہنچ گئے اور بد اعتمادی کی ایسی فضا پیدا ہوئی کہ دونوں شخصیات کو یہ خوف لاحق ہو گیا کہ ’’اگر پہلے مَیں نے وار نہ کیا، تو وہ کر جائے گا۔‘‘ انہیں کیفیات میں وزیرِ اعظم میاں نواز شریف نے اُس وقت کے فوج کے سربراہ، جنرل پرویز مشرّف کو اُس وقت عُہدے سے ہٹانے کا اعلان کر دیا کہ جب وہ ایک غیر مُلکی سفر سے واپس آ رہے تھے اور جہاز میں موجود تھے۔ 

تاہم، فوجی بغاوت کام یاب ہوئی اور فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور نواز شریف جلا وطن ہو گئے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں انہیں ایک مرتبہ پھر کام یابی حاصل ہوئی، لیکن وہ تیسری مرتبہ بھی اپنے منصب کی مدّت مکمل نہ کر سکے۔ 2016ء میں پاناما پیپرز کے منظرِ عام پر آنے کے بعد اُن کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوا اور جولائی 2017ء میں سپریم کورٹ نے انہیں وزارتِ عظمیٰ کے منصب کے لیے نا اہل قرار دے دیا۔

اس گھر کو آگ لگ گئی…

میاں نواز شریف قصہ پارینہ ہوجائیں گے۔۔۔۔۔؟؟

بعض سیاسی حلقے، جن میں خود مسلم لیگی زعما بھی شامل ہیں، میاں نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ سے ہٹائے جانے سے لے کر اُن کی تا حیات نا اہلی تک کی ذمّے داری خود اُن کی صاحب زادی، مریم نواز کی طرزِ سیاست پر بھی عاید کرتے ہیں۔ باپ اور بیٹی کی سیاست کا موازنہ کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف بنیادی طور پر ایک صُلح جُو اور معاملہ فہم شخص تھے، لیکن مریم نواز کا جارحانہ طرزِ سیاست، جس میں بُردباری کی بہ جائے ’’ایڈونچر‘‘ کا عُنصر زیادہ نمایاں ہے، اُنہیں اس سطح پر لے آیا ہے۔ 

پھر ایک سوچ یہ بھی ہے، جسے ’’سازشی تھیوری‘‘ بھی قرار دیا جاتا ہے کہ مریم نواز نے میاں نواز شریف سے اُن کے مزاج کے برعکس فیصلے کروائے اور بالخصوص عدلیہ کے خلاف بیانات دلوا کر انہوں نے خود کو لیڈر بنانے کی جو کوشش کی تھی، اُس میں وہ خاصی کام یاب نظر آتی ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی اس مٔوقف کے حامی افراد بھی موجود ہیں کہ اگر میاں نواز شریف اپنی صاحب زادی کے مشوروں پر عمل نہ کرتے اور روایتی انداز اختیار کرتے ہوئے اپنے مخالفین کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے، تو مُلکی سیاست کی تاریخ میں اُن کا ذکر کچھ اچھے الفاظ میں نہ ہوتا۔ 

میاں نواز شریف قصہ پارینہ ہوجائیں گے۔۔۔۔۔؟؟

یہ سوچ رکھنے والے افراد نہ صرف میاں نواز شریف کو اپنی صاحب زادی کے مشورے قبول کرنے اور اُن پر چلنے کو اُن کا دُرست فیصلہ قرار دیتے ہیں، بلکہ مریم نواز کو مستقبل میں شریف خاندان کی سرِفہرست سیاست دان بھی قرار دیتے ہیں۔ 

اسی طرح بعض حلقوں اور طبقوں کی دانست میں میاں نواز شریف پر کرپشن، منی لانڈرنگ اور اقامے سمیت دیگر الزامات کے باعث اُن کے سیاسی زوال کا سبب اُن کے صاحب زادگان، حسن نواز اور حسین نواز بھی ہیں، جو اپنے والد کے بے تحاشا سرمائے سے بنائے جانے والے اثاثوں اور جائیدادوں سے مغرب میں انتہائی پرتعیّش زندگی گُزار رہے ہیں، لیکن جب اُنہیں پاکستان آنا پڑا، تو وہ اپنی تضاد بیانی سے معاملات کو اُلجھا کر اور اپنے والد کو چھوڑ کر خود اُسی آسودہ زندگی کی طرف لوٹ گئے اور مبیّنہ طور پر اپنے اہلِ خانہ پر یہ بھی واضح کردیا کہ وہ عدالتوں اور مقدّمات کے چکر میں نہیں پڑنا چاہتے۔ علاوہ ازیں، یہ اطلاعات بھی آئیں کہ اس حوالے سے مریم نواز کی اپنے بھائیوں سے خاصی تلخی بھی ہوئی تھی۔ 

نیز، یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ میاں نواز شریف کے سیاسی زوال میں اُن کے بعض’’ خونی رشتے ‘‘بھی شامل ہیں، جنہیں یہ احساس بڑی شدّت سے تھا کہ اُن کے منصب میں درجات کی بلندی اُسی صورت ممکن ہو گی کہ جب میاں نواز شریف کے سیاسی درجات میں تنزّلی ہوگی۔ بہرحال، بعض فیصلوں کے نتائج ہی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ صحیح تھے یا غلط …اور یہ فیصلہ مستقبل قریب میں ہو ہی جائے گا کہ مریم نواز نے خود جو فیصلے کیے اور جو اپنے والد سے کروائے، وہ دُرست تھے یا غلط۔۔                    

تازہ ترین