• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بر سر اقتدار آنے کے بعد امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں تلخی کا عنصر نمایا ں ہونے لگا ہے۔گزشتہ کچھ عرصے سے واشنگٹن کی جانب سے اسلام آباد کیخلاف مسلسل الزام تراشی،دہشت گردی کیخلاف وطن عزیزکی جانی و مالی قربانیوں کو سراہنے اور تسلیم کرنے کے بجائے دہشت گردوں کی معاونت کا الزام غلط طور پر عائد کرتے ہوئے پاکستان کو گرے لسٹ میںشامل کرنا اور اب امریکہ میں پاکستانی سفارتی عملے کی بلا اجازت نقل و حرکت پر پابندی جیسے اقدامات باہمی تعلقات میں روز بروز گہری ہوتی خلیج کی طرف نشاندہی کرتے ہیں جو بہر صورت فریقین کے ساتھ ساتھ پورے خطے کے مفاد میں نہیں ۔ ایک خبر رساں ادارے کوانٹرویو دیتے ہوئے امریکی معاون نائب وزیر خارجہ تھامس شینن کا کہنا تھا کہ پاکستانی سفارت کار اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی اجازت کے بغیر امریکہ میں آزادانہ سفر نہیں کرسکیں گے۔پابندیوں کا اطلاق یکم مئی سے ہوگا اور چالیس کلومیٹر کے علاقے سے باہر جانے کیلئے سفارتی عملے کو امریکی انتظامیہ سے اجازت لینا ہوگی۔پابندی کو معمول کا اقدام قرار دیتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم نے یہ قدغن پاکستان میں امریکی سفارت کاروں کی آزادانہ نقل و حرکت پر پابندی کے جواب میں لگائی ۔ واضح رہنا چاہئے کہ سیکورٹی وجوہات کے باعث فاٹا اور کچھ شہروں میں غیر ملکی سفارتی اہلکاروں کی نقل حرکت کو محدود کیا گیا تھا جبکہ دیکھا جائے تو قبائلی علاقوںاورکراچی میں نقص امن کے خدشات کے باعث اپنے شہریوںکے تحفظ کیلئے خود امریکی حکومت کی جانب سے بارہا سفری انتباہ جاری کیا جاتا رہا ہے،ایسی صورت میں سفارتی عملے کے تحفظ کیلئے کئے گئے پاکستانی اقدام کو بطور جواز پیش کرنا امریکہ کا کسی طور قابل فہم رویہ نہیں۔ریاستوں کے مابین دوطرفہ مفادات کے فروغ اور امن کا قیام یقینی بنانے کیلئے دنیا کے تمام ملکوں کے سفارتی عملے کو عالمی قوانین کے تحت خصوصی تحفظ حاصل ہوتا ہے جسے کوئی فریق بھی نظر انداز نہیں کرسکتا۔ اس ضمن میںامریکہ کی بطور عالمی طاقت یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سفارتی اہلکاروں کو دئیے گئے استثنا کے قانون پر فی الفور عمل کرے۔

تازہ ترین