• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیشنل لائبریری اسلام آباد میں شامی صاحب کے ہمراہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو براہ راست سننے کا موقع ملا۔ کچھ ڈپلومیٹس اور سیاستدانوں کے علاوہ بڑی تعداد میں دانشور اور میڈیا کے خواتین و حضرات شریک تھے یوں لائبریری کا چھوٹا سا ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ پُرجوش نعرے لگانے والوں کی بھی کمی نہ تھی۔ نواز شریف کے ساتھ اسٹیج پر براجمان پختون شخصیات کو ملاحظہ کرتے ہوئے ہم نے شامی صاحب سے کہا کہ کتنا اچھا ہوتا اگر ان میں سندھ کی نمائندگی بھی موجود ہوتی۔ ٹیکسلا کے چوہدری صاحب کی جتنی بھی اہمیت ہو گی اس امر میں کوئی شائبہ نہیں کہ اُن کی 35 سالہ طویل رفاقت محض آمرانہ مسافت کی حد تک تھی۔ آج پھر نواز شریف اور نون لیگ پر ابتلاء کا دور ہے جس میں انہیں چوری کھانے والے ’’مٹھوئوں‘‘ کی نہیں ہر مشکل میں ساتھ نبھانے والے مخلص ساتھیوں کی ضرورت ہے۔ اس نوع کے فیصلے کرنے کے لیے مزید تاخیر کی گنجائش کہاں ہے؟ البتہ مستقبل میں یہ امید کی جا سکتی ہے کہ بدلا ہوا نیا انقلابی یا نظریاتی نواز شریف اپنے اگلے موسمِ بہار میں، جو چاہے تاخیر سے آئے، ہر دو کرداروں کے فرق کو لازماً پیشِ نظر رکھے گا۔
اسلام آباد میں غلطیوں کے حوالے سے بحث ہو رہی تھی تو درویش نے بڑی ’’غلطی برادر ملک سے ا پنے دیرینہ تعلق کو سنبھال نہ پانا‘‘ قرار دیا جس کے ردِعمل میں وہ اپنی مضبوط پشت پناہی سے ہی محروم نہیں ہوئے بلکہ اپنے اصل حریفوں کو بھی کامل سپیس عنایت فرما دی جنہوں نے اُسے پُر کرنے میں لمحہ بھر کوتاہی نہیں کی۔ اپنی سوسائٹی کا دستور ہے کہ بندہ ہو یا جانور اپنے پیچھے موجود قوت کی بنیاد پر ہی آوازیں بلند کرتا ہے۔ پارلیمنٹ کے والی وارث اور کسٹوڈین تو آپ ہی تھے آپ کی مرضی کے بغیر اہم ترین دوستوں کے حوالے سے لاتعلقی یا قطعی غیر جانبداری کی قرارداد کیسے منظور ہو گئی۔ آپ نے کس برتے پر اپنے میثاقی دوستوں سے نظریں چرائیں یا روا رکھی جانے والی زیادتیوں پر چشم پوشیاں کیں۔ ہماری خواہشات ترک بھائیوں کی طرح عوامی طاقت کے سڑکوں پر نکلنے اور ٹینکوں کے سامنے کھڑے ہو جانے کی ہیں جبکہ پارٹی مضبوطی کے اقدامات سابق کھلاڑی کی پارٹی سے بہت زیادہ بہتر نہیں ہیں۔ درویش اپنے تمام احباب سے عرض گزار ہے کہ اگر آپ عزت اور محبت کے خواستگار ہیں تو آس پاس یا دور نزدیک کا فرق کیے بغیر فوری طور پر دوسروں کو عزت و محبت سے نوازیں۔
عوامی طاقت پر ایمان رکھنے والا کوئی ایک شخص بھی اس اصولی بیانیے کی مخالفت نہیں کر سکتا کہ اقتدار کا سر چشمہ عوام ہیں۔ انسانی حرمت و تکریم کا لازمی و فوری تقاضا ووٹ کی حرمت و تکریم ہے۔ پارلیمنٹ کے تقدس یا بالادستی کی بنیاد عوامی اعتماد پر استوار ہے۔ نواز شریف اپنے بیانیے کی وضاحت میں یہ کہہ رہے تھے کہ کسی کو حکمرانی سونپنا پاکستانی عوام کا اختیار ہے جس کا اظہار وہ اپنے ووٹ سے کرتے ہیں 70سالہ تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے وہ بتا رہے تھے کہ 20وزرائے اعظم آئے مگر کوئی بھی بوجوہ مدت پوری نہ کر سکا، آج بھی حالات ماضی سے مختلف نہیں۔ پاکستان کی پوری تاریخ اس نوع کے تماشوں سے بھری پڑی ہے یہاں ووٹ کے تقدس کو تماشا بنا دیا گیا ہے اگر یہ بے توقیری جاری رہی تو میں آنے والے دنوں میں بہت بڑا انتشار دیکھ رہا ہوں۔ اب ملک میں زبان بندی کی غیر مہذب پابندیاں نہیں لگائی جا سکتیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے اپنی تقریر میں پنجابی الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ میاں صاحب بظاہر تو آپ سب کے ساتھ بہتر چلے ہیں کوئی اندر کی بات ہے تو وہ آپ ہمیں بتائیں۔ نواز شریف نے جواب میں کہا کہ اندر کی باتیں بہت زیادہ ہیں میں علیحدگی میں آپ کو بتاؤں گا اور وقت آنے پر عوام کو بھی تمام صورتحال سے آگاہ کروں گا۔ مولانا فضل الرحمٰن نے ایک کہنہ مشق سیاستدان کی طرح گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی فرد حکومتی ذمہ داری اپنے ہاتھوں میں لے ہمیں یہ قبول نہیں، آف شور کمپنیاں چھپانے والے تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں۔
محمود اچکزئی نے کہا کہ میں نے پارلیمنٹ میں جو چار تجاویز پیش کی تھیں اگر انہیں قبول کر لیا جاتا تو آج یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی ہمیں آئندہ کے لیے یہ حلف بھی لینا ہوگا کہ کوئی بھی ڈکٹیٹر نہ بنے۔ ہم کسی کو یہ اجازت نہیں دیں گے کہ وہ اب آئین کے ساتھ کوئی کھلواڑ کرے۔ سیمینار میں موجود محترمہ مریم نواز کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ فکرمند نہ ہوں۔ اس موقع پر نوجوان نسل میں مریم نواز کے لیے غیرمعمولی و الہانہ پن ملاحظہ کیا گیا جنہوں نے اپنی خطابت اور تحریک سے نسل نو کو نیا ولولہ دینے میں نواز شریف کی پوری معاونت کی ہے۔ عوامی نعروں کی گونج میں انہوں نے اٹھ کر سب کا شکریہ ادا کیا۔ مشکلات کے اس دور میں نواز شریف کے لیے یہ لمحات امید کی ایک نئی کرن قرار دیئے جا رہے ہیں۔
اس امر میں کوئی اشتباہ نہیں کہ نواز شریف نے جس انتشار کی بات کی ہے، وہ کسی بھی حوالے سے قومی مفاد میں نہیں ہے ، وہ بھی ان حالات میں کہ انتخابات سر پر ہیں۔ یہاں موجود دوستوں میں یہ بحث بھی ہوتی رہی کہ نگران وزیراعظم کسے ہونا چاہئے۔ درویش کا خیال تھا کہ شاید فخر امام متفقہ طور پر سامنے لائے جا سکتے ہیں۔ جیو کی ناروا بندش پر بھی مباحثہ ہوتا رہا بہرحال محترم مہتاب عباسی صاحب کی دعوتِ طعام کا شکریہ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین