• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ میں بیرون ملک اثاثوں کا پتہ لگانے کی رپورٹ پیش

سپریم کورٹ میں بیرون ملک اثاثوں کا پتہ لگانے کی رپورٹ پیش

اسلام آباد (انصار عباسی) مختلف سرکاری اداروں بشمول نیب، ایف بی آر، ایف آئی اے، ایس ای سی پی، انٹیلی جنس بیورو اور اسٹیٹ بینک نے موجودہ قوانین، دو طرفہ معاہدوں اور کثیرالملکی معاہدوں کے تحت پاکستانی شہریوں کے بیرون ملک موجود اثاثوں کا کھوج لگانے اور ان کی واپسی کیلئے سپریم کورٹ کو اپنی کوششوں سے آگاہ کیا ہے۔ ان ایجنسیوں نے اپنی کوششوں کے نتائج، جس میں کامیابیاں اور ناکامیاں دونوں شامل ہیں، کا ذکر ایک رپورٹ میں کیا ہے۔ یہ رپورٹ سپریم کورٹ کی جانب سے پاکستانی شہریوں کے بیرون ملک موجود بینک اکائونٹس اور جائیدادوں کا کھوج لگانے کیلئے تشکیل دی جانے والی کمیٹی نے حال ہی میں عدالت میں جمع کرائی ہے۔ ایف بی آر نے رپورٹ میں اعتراف کیا ہے کہ جن افراد کا نام پاناما، بہاماس اور پیراڈائز لیکس میں سامنے آیا تھا ان کی معلومات کے حصول کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکیں کیونکہ ان ممالک کا پاکستان کے ساتھ کوئی ٹیکس معاہدہ نہیں ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وزارت خارجہ کے توسط سے سفارتی چینلز استعمال کرکے ان ملکوں سے معلومات کے حصول کی کوششیں بھی کارگر ثابت نہیں ہوئیں۔ تاہم، ایف بی آر کا کہنا ہے کہ ملکی سطح پر ایف آئی اے اور ایس ای سی پی کی مدد سے ادارے نے 366؍ ایسے افراد کا کھوج لگایا ہے جن کا نام پاناما لیکس میں اور 38؍ کا پیراڈائز لیکس میں سامنے آیا تھا۔ متحدہ عرب امارات کے حوالے سے ایف بی آر کا کہنا ہے کہ ادارے کی جانب سے اماراتی حکام کو درخواست کی گئی ایسے پاکستانی شہریوں کے متعلق معلومات فراہم کی جائیں جنہوں نے وہاں جائیدادیں خریدی ہیں، تاہم اماراتی حکام نے اس درخواست کا جواب نہیں دیا۔ ادارے کا کہنا ہے کہ بعد میں ایف آئی اے نے مخصوص معلومات پر مشتمل ایسے 100؍ پاکستانیوں کی فہرست فراہم کی جنہوں نے متحدہ عرب امارات میں مبینہ طور پر ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ان افراد کے حوالے سے معلومات کی فراہمی کی درخواست کی گئی اور متحدہ عرب امارات کے حکام نے 53؍ ایسے افراد کی تفصیلات فراہم کیں جنہوں نے ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ ایف بی آر متحدہ عرب امارات کے حکام کی فراہم کردہ معلومات کے تحت مزید کارروائی کر رہا ہے۔ انٹیلی جنس بیورو نے سپریم کورٹ کو ہُنڈی اور حوالہ کے متعلق اپنی کارروائیوں سے آگاہ کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، آئی بی نے 952؍ ہُنڈی / حوالہ ڈیلروں سے حاصل کر دہ معلومات ایف آئی اے اور نیکٹا کو فراہم کیں اور اس طرح ایف آئی اے کی تحقیقات کا آغاز ہوا۔ غیر ملکی زر مبادلہ کو بیرون ملک اسمگل کرنے کے ایک مخصوص کیس میں آئی بی نے ایف آئی اے کے ساتھ مل کر ایک انٹیلی جنس آپریشن کیا جس کے نتیجے میں چار مختلف ایکسچینج کمپنیوں کے ذریعے 2016ء میں بھاری رقوم بیرون ملک بھجوائے جانے کا انکشاف ہوا۔ ایف آئی اے کے حوالے سے رپورٹ میں لکھا ہے کہ ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کی ہدایتا کے بعد لاہور اور کراچی کے زونل دفاتر نے ایسے پاکستانی شہریوں کیخلاف نئی انکوائریز شروع کی ہیں جن کے پاس دبئی میں جائیدادیں ہیں، 662؍ ایسی جائیدادوں کو ہدف بنایا گیا ہے جن کی تفصیلات موجود ہیں۔ رپورٹ میں مزید لکھا ہے کہ 216؍ افراد کیخلاف 31؍ تازہ انکوائریز ایف آئی اے لاہور آفس کی جانب سے شروع کی گئیں جبکہ ایف آئی اے کراچی آفس کی جانب سے 390؍ افراد کیخلاف 20؍ نئی انکوائریز شروع کی گئی ہیں۔ سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے حوالے سے رپورٹ میں لکھا ہے کہ ایس ای سی پی نے پاناما لیکس میں سے 155؍ افراد کی نشاندہی کی جو پاکستان میں رجسٹرڈ 600؍ کمپنیوں کے ڈائریکٹرز تھے۔ تاہم، اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ صرف پانچ کمپنیوں کے علاوہ باقی کسی کمپنی نے بیرون ملک سرمایہ کاری کی معلومات ظاہر نہیں کیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسی 600؍ کمپنیوں کی تفصیلات ایف بی آر اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو فراہم کی گئی ہیں تاکہ مزید اسکروٹنی اور کارروائی کی جا سکے۔ ایسی ہی معلومات بہاماس اور پیراڈائز لیکس کے معاملے میں بھی ان اداروں کو فراہم کی گئیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے رپورٹ میں کہا ہے کہ بینک کی جانب سے 20؍ ممالک میں بینکنگ ریگولیٹری اداروں کے ساتھ باہمی تعاون / سپروائزری کیلئے مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے ہیں۔ ان مفاہمتی یادداشتوں میں بینکاری کے قوانین بنانے اور بینکاری میں نگرانی کے معیارات وغیرہ کے تعین کے حوالے سے معلومات اور تجربات کے تبادلے پر زور دیا گیا ہے تاہم اسٹیٹ بینک متعلقہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کرکے انہیں مشکوک افراد اور کارپوریٹ اداروں کی مطلوبہ بینکنگ معلومات فراہم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ قومی احتساب بیورو (نیب) کا کہنا ہے کہ اس نے غیر ممالک کے ساتھ 405؍ میوچوئل لیگل اسسٹنس (ایم ایل اے) / قانونی معاونت کی درخواست کیلئے اقدامات شروع کر رکھے ہیں تاکہ کرپشن اور بدعنوانی کے متعلق معلومات اور شواہد حاصل کیے جا سکیں۔ ان میں 186؍ درخواستوں کے تحت معلومات اور شواہد حاصل کیے جا چکے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نیب اینٹی منی لانڈرنگ قوانین کے تحت بھی تحقیقات کر سکتا ہے۔ اس ضمن میں، فنانشل مانیٹرنگ یونٹ نے نیب کو 165؍ مشکوک ٹرانزیکشنز اور کرنسی ٹرانزیکشنز کی تفصیلات فراہم کی ہیں جن پر منی لانڈرنگ کے خلاف بنائے گئے قوانین کے تحت تحقیقات اور کارروائی کی جا رہی ہے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ان 165؍ کیسز میں سے 67؍ کیسز انکوائری / انوسٹی گیشن کے مرحلے میں ہیں، 11؍ ریفرنسز پر ٹرائل جاری ہے، 2؍ میں فرد جرم عائد کی گئی ہے۔ نیب نے ان کیسوں میں 455؍ ملین (45؍ کروڑ) روپے کی ریکوری بھی کی ہے اور ساتھ ہی ملزمان کے اثاثے منجمد بھی کیے گئے ہیں۔

تازہ ترین