• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چنیوٹ مائننگ کیس ،اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ 8 برس بعد بھی انکوائری میں ناکام

  اسلام آباد (شاہد اسلم )چنیوٹ مائننگ کیس میں اینٹی کرپشن 8 برس گزرنے کے باوجود بھی انکوائری میں ناکام ہے،ای آر پی ایل کمپنی نے پنجاب منرل ڈیولپمنٹ کے ساتھ 2007 میں معاہدہ کیا تھا۔دوسری جانب اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل بریگیڈئیر ریٹائرڈ مظفر علی رانجھا کاکہنا ہے کہ نامزد ملزمان کو جلد سے جلد گرفتار کرلینگے اور ارشد وحید کو انٹرپول کی مدد سے ملک میں واپس لائینگے۔سرکاری ذرائع کاکہنا ہے کہ دو ریٹائرڈ سرکاری افسران انتقال کرچکے ہیں۔تحریک انصاف کے ایم پی اے سبطین خان کاکہنا ہے کہ انہیں سیاسی طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے اور انہیں تفتیش کرنے والوں کی طرف سے کلین چٹ مل چکی ہے۔تفصیلات کے مطابق دی نیوز کو معلوم ہوا ہے کہ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ پنجاب نااہلی کے باعث اربوں ڈالر کے چنیوٹ میں معدنی لوہا نکالنے کے معاہدے کی ہائی پروفائل انکوائری آٹھ سال بعد بھی مکمل نہیں کرسکا ،موجود ہ وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کی ہدایات پر اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ نے سال 2010 میں پنجاب منرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن (PUNJMIN)اور ارتھ ریسورس پرائیویٹ لمیٹیڈ میں مبینہ غیر قانونی کنٹریکٹ ہوا تھا اور یہ کمپنی شعبہ معدنیات کے ماتحت قائم ہوئی ۔کمپنی مالک ارشد وحید ای آر پی ایل نے پی یو این جے ایم آئی این نے لوہے کے معدنی ذخائر نکالنے کا معاہدہ دسمبر 2007 میں کیا تھا۔ایف آئی آر میں کہا گیا کہ پی یو این جے ایم آئی این نے 117.59 ملین خرچ کردینے کے بعد 610 ملین میٹرک ٹن لوہا چنیوٹ میں دریافت کیا جس کی مالیت 915 ارب ڈالرز بنتی ہے ۔مزید کہا گیا کہ معاہدے میں حکومت 20 فیصد پر راضی ہوئی جبکہ ارشد وحید کو اس کا 80 فیصد ملنا تھا ۔6 سال معاملے کی تحقیقات کے بعد اینٹی کرپشن نے ایف آئی آر 10/518پی پی سی کے سیکشن 471،468اور 420 کے تحت 7 افراد کیخلاف درج کی جن میں موجود ہ پی ٹی آئی ایم پی اے اور پنجاب کے سابق وزیر برائے مائینز اینڈ منرلز محمد سبطین خان ،سابق سیکریٹری مائنز اینڈ منرلز پنجاب امتیاز احمد چیمہ ،سیکریٹری پی یو این جے ایم آئی این بشارت اللہ ،جنرل منیجر پی یو این جے ایم آئی این محمداسلم ،چیف انسپکٹرز آف مائنز پنجاب میاں عبدالستار ،ٹیکنیکل ایڈوائزر پی یو این جے ایم آئی این ادریس رضوانی ،مالک اور سی ای او ای آر پی ایل ارشد وحیدر وغیر شامل ہیں ۔دیگر کے کردار کو اگر وہ ہوئے تو دوران تفتیش دیکھا جائے گا ۔ڈی جی اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ پنجاب بریگیڈئیر (ر)مظفر علی رانجھا نے دی نیوز سے گفتگو میں دعویٰ کرتےہوئے کہا کہ بڑے فراڈ اور جعلسازی معاملےکی تحقیقات زیادہ تر مکمل ہوچکی ہیں اور ہم جلد سے جلد ملزمان کی گرفتاری جیسا قدم اُٹھائیں گے ۔انہوں نے مزید کہا کہ تفتیش سے پتہ چلا ہے کہ ملوث ملزمان نےمبینہ طور پر جعلسازکمپنی ای آر پی ایل کو معدنی لوہے کی دریافت کیلئے دی جانے والی ایک جھوٹی سمری 2017 میں تیار کی ۔ڈی جی نے بغیر کوئی ٹائم لائن دیے بتایا کہ ہم اس میں ملوث عناصر کو جلد گرفتار کرلیں گے ،ایک سوال کے جواب میں اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ پنجاب کاکہنا تھا کہ نگراں وزیر اعلی پنجاب جسٹس (ر)شیخ اعجاز نثار نے متنازع کنٹریکٹ کی سمری کی منظوری دی ،اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ ان سے پوچھ گچھ کیلئے حکمت عملی بنائے گی ۔انہوں نے کہا کہ ہم ریٹائرڈ جج کے معاملے پران کے اس کیس میں ملوث ہونے پر معاونت کیلئے لاہور ہائی کورٹ جاسکتے ہیں ایک اور سوال کے جواب میں ڈی جی نے مزید کہا کہ ارشد وحید کو انٹر پول کی مدد سے جلد وطن واپس لایا جائے گا ،اس کے علاوہ مظفر نے کہا کہ اے سی ای نے تحقیقات کیلئے آٹھ برس لیے جیسا کہ ابتدا میں قومی احتساب بیورو اس معاملے کی تحقیقات کررہا تھا ۔دوسری طرف سرکاری ذرائع نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ نامزد ملزمان میں سے دو ریٹائرڈ حکومتی افسران انتقال کرچکے ہیں اور ان میں بشارت اللہ اور ادریس رضوانی شامل ہیں ،اسی طرح ای پی آر ایل کے مالک ارشد وحید پنجاب حکومت کے ان کی کمپنی سے کنٹریکٹ منسوخ کرنے کے بعد جلد ہی وہ ملک سے باہر چلے گئے ۔ارشد امریکا سے پاکستان واپس نہیں آئے ۔ذرائع نے مزید انکشاف کیا کہ اینٹی کرپشن حکام نے کبھی جسٹس (ر)شیخ اعجاز نثار کو ایف آئی آر میں نامزد نہیں کیا اور نہ ہی انہیں بیان کیلئے سمن کیا ۔لاہور ہائی کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس ریٹائرڈ جسٹس نثار نے 19 نومبر 2007 تا 11 اپریل 2008 تک نگراں وزیر اعلی کے طور پر کام کیا تھا ۔واضح رہے کہ ارشد وحید لاہور ہائی کورٹ میں وزیر اعلی کے فیصلے کیخلاف گئے تھے لیکن عدالت نے معاملہ انکوائری کیلئے نیب کو دیا تھا ۔ای پی آر ایل فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ گئی لیکن ایپکس عدالت نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا ۔کچھ برسوں بعد نیب لاہور نے معاملہ بند کردیا،نیب کے موجودہ چیئرمین جسٹس (ر)جاوید اقبال نے بیورو کو معاملے کی جلد دوبارہ تحقیقات کا حکم دیا ۔پنجاب حکومت کے ترجمان ملک محمد احمد خان سے رابطہ کرنے پر انہوں نے بتایا کہ نیب نے وزیر اعلی کی خصوصی درخواست پر معاملے کی انکوائری شروع کی ہے اور ہمیں بیورو کی فائنل رپورٹ کا انتظار کرنا چاہیے ۔احمد خان کاکہنا تھا کہ پنجاب حکومت کی اینٹی کرپشن پالیسی زیرو ٹالرنس کی بنیاد پر ہے ،چنیوٹ معدنی لوہے کا پروجیکٹ صوبے کے لوگوں کیلئے سونے کی کان ثابت ہوسکتی ہے لیکن کچھ لوگ جنہیں ٹاسک سونپا گیا ہےوہ قومی اثاثوں میں لوٹ مار کرنے کی کوشش کی ہے ۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ نیب طویل انکوائری کو بند کرنے کے پیچھے عوامل کو اور دیگر کو بے نقاب کرے گی ،وزیر اعلی پنجاب واحد ہیں کہ جنہوں نے نیب کی طرف سے انکوائری کو خوش آمدید کہا ہے ۔وزیر اعلی نے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے انکوائری کی تاخیر کا بھی پوچھا ہے ۔سابق نگراں وزیرا علی پنجاب جسٹس اعجاز نثار نے کہا کہ انہیں نہیں یاد کہ انہوں نے کبھی ایسی سمری کی منظوری دی ہو ۔مجھے نہیں یاد کہ میں نے چنیوٹ کی معدنیات سے متعلق سمری منظور کی ہو اسے اب دس برس گزر چکے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ایک طریقہ کار ہوتا ہے کہ جس پر صوبے کا چیف اگزیکٹو عمل کرتا ہے ،سمری ایک ڈیپارٹمنٹ سے چلتی ہے اور ایک سے دوسرے دفتر کو ہوتے ہوئے وزیر اعلی کو پہنچتی ہے ،ایک سوال کے جواب میں سابق وزیر اعلی نے کہا کہ اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ سے کسی نے ان سے کبھی رابطہ نہیں کیا ۔جب سبطین خان سے رابطہ کیاگیا تو انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر جھوٹی ہے اور تحریک انصاف کا رکن ہونے پر سیاسی طور پر نشانہ بنایا گیا ہے ۔2007 میں جب معاہدہ کیاگیا تو نگراں حکومت پہلے ہی موجود تھی ،سبطین خان نے دعویٰ کیا کہ مجھے تفتیش کرنے والوں سے کلین چٹ ملی ہے ۔ایک سوال کے جواب میں پی ٹی آئی ایم پی اے نے کہا کہ نیب یا اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ نے اس معاملے پر ان سے رابطہ نہیں کیا۔
تازہ ترین