• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نگران سیٹ اپ: سیاسی جماعتیں طے کریں، ناکامی خطرناک ہوگی

نگران سیٹ اپ: سیاسی جماعتیں طے کریں، ناکامی خطرناک ہوگی

مقصود اعوان

ملک میں 2018کے انتخابات کی آمد آمد ہے موجودہ حکومتوں کی 5سالہ آئینی مدت پوری ہونے میں صرف ڈیڑھ ماہ کا قلیل عرصہ باقی رہ گیا ہے یہ بات ملکی استحکام کے لئے بڑی خوش آئند ہے کہ صدر جنرل پرویز مشرف کے بعد دوسری جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت مکمل کرنے جا رہی ہے اور اب سیاسی جماعتیں ملک کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ انتخابات کی تیاریوں اور صف بندی میں مصروف ہیں کئی سیاسی جماعتوں کے قائدین نے انتخابات میں اپنا وجود منوانے کے لئے صوبوں کی سطح پر نئے سیاسی اتحادوں کی تشکیل اور سیٹوں کی ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے ایک دوسرے سے رابطے تیز کر دیئے ہیں حکومت اور اپوزیشن وفاق اور صوبوں میں باہمی مشاورت سے نگران سیٹ اپ کی تشکیل کے لئے کوشاں ہیں تاکہ اگلے ماہ کے وسط تک وفاق اور صوبوں میں ایسا قابل قبول نگران سیٹ اپ سامنے آ جائے جو ملک میں غیر جانبدار اور منصفانہ اور شفاف انتخابات کرائے اس حوالے سے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کے درمیان مشاورت کا سلسلہ جاری ہے لیکن اب تک حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے نگران وزیراعظم کے لئے جو نام سامنے آئے ہیں موجودہ سیاسی ماحول میں قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے درمیان اتفاق رائے پیدا ہونا مشکل نظر آ رہا ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن لیڈر کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے پاکستان تحریک انصاف اور دیگر اپوزیشن جماعتیں سید خورشید شاہ کے نگران وزیراعظم کے نام پر متفق ہوتی نظر نہیں آتیں دوسری جانب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف کی مشاورت کے بغیر ایک قدم آگے بڑھنے کو تیار نہیں اب تک کی صورتحال کے مطابق نگران وزیراعظم کا معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کئے جانے کا امکان ہے اگر اس معاملہ پر پارلیمانی کمیٹی میں اتفاق رائے نہ ہو سکا تو یہ معاملہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس جائے گا جو نگران حکومت کی تشکیل کا آخری آئینی راستہ ہے۔ اس لئے آنے والے دنوں میں ملک کے سیاسی ماحول میں بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں اب یہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کا امتحان ہے کہ وہ جمہوری سیاست کو آگے بڑھانے اور جمہوری عمل کو مضبوط بنانے کے لئے کیا اقدامات کرتی ہیں بہرحال نگران سیٹ اپ کا معاملہ سیاسی جماعتوں کے ہاتھ سے نکل کر الیکشن کمیشن کے پاس جانا سیاسی جماعتوں کی ناکامی کے مترادف ہو گا۔ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ کے 5رکنی بنچ کے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کو تا حیات نا اہل قرار دینے اور مسلم لیگ (ن) کے قومی اور صوبائی اسمبلی کے سات آٹھ اراکین کے اسمبلی اور پارٹی رکنیت سے استعفے دے کر سابق نگران وزیراعظم میر بلخ شیر مزاری کی سربراہی میں جنوبی پنجاب کے اضلاع پر مشتمل جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے قیام کے اعلان نے ملکی سیاست میں ہل چل پیدا کر دی جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا معاملہ نیا نہیں ہے جنوبی پنجاب کے 11اضلاع پر مشتمل بہاولپور صوبہ کی بحالی اور نئے جنوبی پنجاب صوبہ کے لئے پنجاب اسمبلی میں قراردادیں پہلے ہی منظور ہو چکی ہیں اور جنوبی پنجاب کے کئی اراکین اسمبلی پہلے ہی الگ صوبہ بنانے کے لئے کوشاں تھے لیکن مسلم لیگ (ن) کی مضبوط حکومت کے سامنے ان کا بس نہیں چل سکا اور اندر ہی اندر یہ لاوہ پکتا رہا گورنر پنجاب ملک رفیق رجوانہ نے ایک سال قبل ہی مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کو جنوبی پنجاب صوبہ کے حوالے سے ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے کئی سیاسی گھرانوں کی سرگرمیوں سے آگاہ کر دیا تھا اور پارٹی قیادت کو باور کرایا تھا آئندہ الیکشن میں جنوبی پنجاب کا نعرہ مسلم لیگ (ن) کے لئے ایک چیلنج ہو گا اس کے جواب میں گورنر پنجاب نے جنوبی پنجاب کے اضلاع کے لئے ملتان الگ منی سیکرٹریٹ کے قیام کی تجویز دی جس کا نوٹیفیکیشن جاری کرنے کے بعد ارباب اختیار نے اس معاملہ پر خاموشی اختیار کر لی اور انتخابات قریب آتے ہی ایک جنوبی پنجاب صوبہ کا اعلان نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو نئے امتحان میں ڈال دیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے لیڈروں پاکستان تحریک انصاف کے مخدوم شاہ محمود قریشی مسلم لیگ (ق) کے چوہدری پرویز الٰہی اور سندھ کے گرینڈ الائنس کے سربراہ پیر پگاڑہ نے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کی حمائت کر کے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے خلاف ایک نئے سیاسی اتحاد کی بنیاد رکھ دی ہے اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کا خیال ہے کہ اس کا انتخابات پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا مگر اس کے گہرے اثرات کا اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی سے ہنگامی ملاقاتیں کر کے اس معاملہ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ان کی کاوشیں کیا رنگ لائیں گی یہ عام انتخابات میں پتا چل جائے گا لیکن پارٹی کے قائد میاں محمد نواز شریف کی تا حیات نا اہلی کے فیصلے نے مسلم لیگ (ن) کو نئے امتحان میں ڈال دیا ہے اور اس فیصلے کے پاکستان کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے پاکستان تحریک انصاف اور ان کے ہم خیال سیاسی رہنمائوں کے سوا کسی سیاستدان نے اس پر خوشی کا اظہار نہیں کیا تحریک انصاف کی قیادت کا خیال ہے کہ میاں نواز شریف کی نا اہلی سے مسلم لیگ (ن) کو سیاسی طور پر نقصان ہو گا اور یہ پارٹی کمزور ہو گی جس کا فائدہ تحریک انصاف کو ہو سکتا ہے لیکن نئی صورتحال نے ایک نئے نواز شریف کو جنم دیا ہے میاں نواز شریف کا ووٹ کو عزت دو کا سیاسی بیانہ پہلے سے سخت ہوتا اس نئی صورتحال میں میاں نواز شریف کو کئی پہاڑ سر کرنا ہوں گے لیکن اداروں کے درمیان محاذ آرائی اور سیاسی کشیدگی فضاء کو فروغ دینے سے بروقت عام انتخابات کا انعقاد مشکوک ہو سکتا ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ نواز شریف کو پارلیمنٹ سے آئوٹ کر دیا گیا اگر وہ سیاست میں پہلے سے زیادہ اِن ہیں موجودہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ انتخابی و سیاسی عمل میں رکاوٹ پیدا نہ کی جائے یہ صورتحال مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے لئے بلاشبہ ایک چیلنج ہے جس سے عہدہ برآ ہونا پارٹی قیادت کے لئے آزمائش ہے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف حالات کی نزاکت کو بھانپ کر سپریم کورٹ کا فیصلہ تسلیم کر لیتے ہیں تو ان کے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف اپنی معاملہ فہمی کی بنیاد پر پارٹی کو اس بحران سے نکالنے کی پوزیشن میں ہیں تو انہیں فری ہینڈ دے کر پارٹی کا سیاسی مستقبل محفوظ کرنا کوئی خسارے کا سودا نہیں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف 29اپریل کو لاہور میں اپنی سیاسی طاقت کا عملی مظاہرہ کرنے کے لئے تمام توانائیاں صرف کر رہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اگر اکتوبر 2011سے ’’بڑا پاور شو‘‘ کرانے میں کامیاب ہو جاتی ہے کہ اس کے آئندہ انتخابات پر گہرے اثرات ہوں گے ورنہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ کا سیاسی مستقبل بھی دائو پر لگ سکتا ہے۔ مسلم لیگ (ق)کے سربراہ سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین نے اپنی خود نوشت ’’سچ تو یہ ہے‘‘ میں 60سالہ قومی تاریخ سے پردہ اٹھایا ہے اور ایسے کئی راز افشاء کر کے پاکستان کی تاریخ کی قابل قدر خدمت کی ہے چوہدری شجاعت حسین نے اپنی کتاب میں کسی فرد یا ادارے کو تضحیک و تنقید کا نشانہ بنائے بغیر تمام حالات و واقعات اور یادوں کو بیان کر کے اقتدار کے ایوانوں کے اندر ہونے والے واقعات کے سربستہ رازوں کو عام آدمی پر آشکار کیا ہے۔ فتنہ و فساد اور قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالے بغیر ایسا کام کوئی محب وطن شخصیت ہی سرانجام دے سکتی ہے۔

تازہ ترین