• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الیکشن سے پہلے نواز شریف کی’’جیل یاترا‘‘؟

کرپشن فری گڈ گورننس کا نعرہ بلند کر کے 2013کے انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کر کے تیسری بار وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچنے والے محمد نواز شریف کو ملک کی سب سے بڑی عدالت کے فیصلے کے مطابق ہمیشہ کے لئے نااہل قرار دے دیا گیا ہے مگر کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف کا انجام بھی پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو جیسا ہو گا اس میں کوئی شک نہیں کہ زیڈ اے بھٹو کو نوابزادہ قصوری کے قتل میں ’’اعانت جرم‘‘ میں موت کی سزا سنائی گئی تھی اس دفعہ کے تحت شاید اب سزا ماقوف کر دی گئی ہے۔ نواز شریف عدالت عظمیٰ سے نااہل قرار دیئے جانے کے بعد کرپشن کے تین ریفرنسز میں احتساب عدالت میں لگ بھگ 7ماہ سے مسلسل تاریخیں بھگت رہے ہیں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کا بیانیہ سخت قرار دیا جا رہا ہے بعض سیاسی حلقے قرار دیتے ہیں کہ ان کے اس بیانیہ سے انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا بلکہ انہیں جس قانون کے شکنجے میں کسا جا رہا ہے اس میں مزید سختی آئے گی۔ نواز شریف کو مستقل طور پر نااہل قرار دیئے جانے کے بعد سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن کی رہائش گاہ واقع ماڈل ٹائون لاہور میں دو بار فائرنگ کے واقعہ نے ایک نئے مقدمے کی بنیاد رکھ دی ہے کانسٹیبل آصف کی مدعیت میں درج ہونے والے مقدمے کی تفتیش کے لئے ایڈیشنل آئی جی پنجاب رائے طاہر کی سربراہی میں جے آئی ٹی بھی قائم کر دی گئی ہے جس میں پولیس کے علاوہ آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کے نمائندے بھی شامل ہیں۔ جسٹس کے گھر پر فائرنگ کے واقعے کی مذمت میں تمام سیاسی و غیر سیاسی جماعتیں اور ادارے شامل ہیں ابھی تک نواز شریف اور شہباز شریف پر فائرنگ کا الزام نہیں لگایا گیا صرف وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ کے ناموں کی بازگشت سنائی گئی ہے۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ جسٹس اعجاز الاحسن کے گھر فائرنگ کے واقعہ کے اثرات بڑی دور تک مرتب ہوں گے جس طرح 90کی دہائی میں نیب کا کردار رہا اس سے کئی گناہ زیادہ شدت سے اسے دہرایا جائے گا سانحہ ماڈل ٹائون لاہور کا مقدمہ بھی آئندہ چند دنوں میں فعال مقدمات کی فہرست میں شامل ہو جائے گا اور پاکستان مسلم لیگ ن کے متعلقین بھی اس کی زد میں ہونگے۔ نیب نے پنجاب میں کام کرنے والی 56کمپنیوں کا ریکارڈ طلب کر رکھا ہے، ڈیڈ لائن کے مطابق 39 کمپنیاں ہفتے اور اتوار کی چھٹی کے باوجود نیب لاہور کو ریکارڈ فراہم کرنے میں کامیاب رہیں باقیوں نے انکار نہیں کیا ڈیڈ لائن سے زیادہ وقت کی خواہش ظاہر کی سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ انتخابی ہلچل شروع ہونے کے بعد نیب کی سرگرمیوں میں تیزی انتخابی عمل کو بھی متاثر کر سکتی ہے سیاسی حلقے کراچی میں ایم کیو ایم کی توڑ پھوڑ کو بھی مستقبل کے سیاسی پلان کا حصہ قرار دے رہے ہیں ایم کیو ایم کے سربراہ فاروق ستار چیف جسٹس اور آرمی چیف سے مطالبہ کر رہے ہیں انہیں سیاست سے آئوٹ کرنے کا نوٹس لیا جائے۔ دوسری طرف سندھ میں اے این پی اور مسلم لیگ ن نے مل کر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ سیاسی حلقے اس ملاقات کو پنجابی پختون اتحاد کا نام دے رہے ہیں اگرچہ ماضی کے چہرے موجود نہیں مگر ووٹ بینک موجود ہے جسے استعمال کرکے کئی حلقوں میں کامیابی کی بنیاد رکھنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد صرف پاکستان پیپلزپارٹی ہی نہیں جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتیں بھی اپنے اپنے مینڈیٹ کے حصول کے لئے سرگرم عمل ہو چکی ہیں مگر کیا پنجاب میں نیب کے متحرک ہونے کے بعد انتخابات کے انعقاد کو یقینی کہا جا سکتا ہے مذہبی جماعتیں ایم ایم اے کے پلیٹ فارم پر متحد ہو چکی ہیں جبکہ ایم ایم اے میں شامل نہ ہونے والی مذہبی جماعتیں اپنے الگ پلیٹ فارم کے لئے بھی متحرک ہیں۔ سیاسی حلقوں میں اس بات کا بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ انتخابی مہم شروع ہونے سے قبل ہی سابق وزیراعظم کی ’’جیل یاترا‘‘ یقینی ہے۔ ن لیگ کا دعویٰ ہے کہ تاحیات نااہل قرار دے کر بھی نواز شریف کو عوام کے دلوں سے نہیں نکالا جا سکتا۔ نواز شریف ایک نظریے اور فلسفے کا نام ہے پہلے سے زیادہ طاقت سے دوبارہ اقتدار میں آئیں گے تاہم قیادت کی طرف سے نظر انداز رہنما ن لیگ کے مستقبل سے مایوس نظر آتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ پارٹی میں تھوڑ پھوڑ کا سلسلہ جاری رہے گا انتخابی عمل شروع ہونے تک چالیس کے لگ بھگ پارلیمنٹرین مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم کو خیرباد کہہ کر دوسری سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کر لیں گے۔ بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ مستقبل میں معلق پارلیمنٹ ہو گی پاکستان پیپلزپارٹی کا دعویٰ ہے کہ وفاق میں ان کی حکومت یقیناً بنے گی عمران خان سینٹ الیکشن کی طرح انہیں ووٹ دیں گے جبکہ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ وہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے ووٹ بینک کو روندتے ہوئے نہ صرف وفاقی حکومت بنائیں گے بلکہ پنجاب سمیت چاروں صوبوں میں اپنی حکومتیں قائم کریں گے سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ خواہش پر کوئی پابندی نہیں۔ انتخابی نتائج صرف عوام کی خواہش کے مطابق بنتے ہیں شہری سوشل میڈیا اور ایک بڑے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی موجودگی میں ووٹ کی پرچی کے تقدس کو مجروح کرنا خاصا مشکل کام ہو گا نئی حلقہ بندیوں کے خلاف الیکشن کمیشن کے فیصلوں سے بھی امیدوار مطمئن نہیں ہیں الیکشن کمیشن کے فیصلوں کے خلاف کیا وہ اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرتے ہیں یا نئی حلقہ بندیوں میں ہی سیاسی ہلچل کا آغاز کرتے ہیں۔ آہستہ آہستہ واضح ہونا شروع ہو جائے گا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی اسٹیبلشمنٹ سے رابطے کی سیڑھی بھی اپنے پرانے ساتھی کی پالیسیوں سے مطمئن نہیں ہیں چوہدری نثار علی خان کو نواز شریف کی پالیسیوں میں بڑی اہمیت کے حامل رہے دھرنوں کے دوران سے مشاورت سے کٹے ہوئے ہیں ن لیگ کا صدر منتخب ہونے کے بعد شہباز شریف سے چوہدری نثار علی خان دوبار ملاقات کر چکے ہیں مگر آخر کی خبریں آنے تک ان کے تحفظات ختم نہیں ہو سکے سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کی ملاقات طے ہو گئی تو برف بگھل جائے گی مریم نواز کی پالیسی تربیت اس ملاقات میں آڑے آ رہی ہے پاکستان مسلم لیگ ن کا دعوہ ہے کہ انہوں نے پاکستان کی ضرورتوں کے مطابق بجلی کی پیداوار کا انتظام کر دیا ہے مگر ابھی تک پاکستان کے کئی شہروں اور قصبوںمیں 18 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا دعویٰ سامنے آ رہا ہے سیاسی تجزیہ نگاروں کا خدشہ ہے کہ ن لیگ لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کا عملی مظاہرہ کر کے ہی ووٹ سے متعلق ہے مگر ن لیگ کی حکومت کے خاتمہ کے ساتھ ہی بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں میں سپلائی لائن معطل ہونے کا خدشہ ہے نہ بجلی ہو گی اور نہ ہی ن لیگ اعلیٰ کارکردگی کا دعویٰ کر سکے گی سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ ن لیگ کے اقتدار کو غیر موثر کرنے والوں نے ملک کی معیشت کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے آنے والی حکومت بھی ایسے ہی حالات میں رہے گی اچھی کارکردگی دکھانے کے لئے امن و امان اور معیشت کا مستحکم ہونا ضروری ہوتا ہے پاکستان میں اگست 2014سے مسلسل سیاسی احتجاج رواں دواں ہے وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کے بعد پاکستانی معیشت کو ڈالر کی قیمت میں 31 روپے اضافے سے شدید جھٹکا لگا ہے قرضوں سے لدی قوم کو زندہ رکھنے کے لئے مزید قرض لینا ہونگے اور جن کے سود کی ادا ئیگی کے لئے بھی مزید قرضوں کی ضرورت ہو گی ایک 80سالہ معمر شخص سے جب پوچھا گیا کہ بابا پاکستان بننے کے بعد کیا حالات تھے تو اس کا جواب تھا پیدل چل کر پاکستان آیا تھا باپ دادا کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ حالات اچھے نہیں ہیں مہنگائی ہے 70سالوں بعد بھی وہی صورتحال سے حالات اچھے نہیں ہیں مہنگائی کا جن سوار ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ن لیگ کی حکومت یکم مئی کو اپنے پانچ سال مکمل کر کے اقتدار نگراں حکومت کے حوالے کر دے گی مگر بہت سے خدشات ہمیشہ سر اٹھائے نظر آتے ہیں لیکن ہمیں امید رکھنی چاہئے کہ جمہوری تسلسل ہی ہمارے ملک و قوم کی بقا کا واحد راستہ ہے ۔

تازہ ترین