• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے خیبر پختوانخوا اسمبلی کی رکنیت رکھنے والے اپنی ہی پارٹی کے ایک تہائی ارکان کے خلاف سینٹ الیکشن کے دوران ووٹوں کے مبینہ فروخت کے الزام میں شوکاز نوٹس جاری کرنے کے اعلان پر اگرچہ مثبت اور منفی دونوں قسم کے ردعمل سامنے آرہے ہیں مگر اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ ملکی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ تمام سیاسی پارٹیاں ووٹوں کی خرید و فروخت روکنے کے لئے انضباطی کارروائی کا راستہ اختیار کریں تو اگرچہ بعض انتخابی حلقوں کی طاقتور شخصیات کی طرف سے انہیں وقتی چیلنج کا سامنا ہوسکتا ہے مگر جمہوری نظام کو مستحکم رکھنے والی ایک اچھی روایت رواج پاجائے گی۔ اس تلخ حقیقت سے سب ہی واقف ہیں کہ وطن عزیز میں ری پبلکن پارٹی کے راتوں رات قیام سمیت عوامی نمائندگی کے حامل کہے جانے والے ایوانوں میں ایکا ایکی وفاداریاں تبدیل کرنے یا اعتماد یا عدم اعتماد کے اظہار کے مواقع پر ووٹوں کی منڈیاں لگنے اور سینٹ کے الیکشن کے وقت ووٹوں کی خرید و فروخت کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں جن کے لئے ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ کے اصطلاح مشہور ہوچکی ہے۔ 12؍مارچ 2018ء کو منعقدہ سینٹ کے الیکشن میں تو تقریباً تمام ہی پارٹیوں نے ایک دوسرے پر ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ میں ملوث ہونے کے الزامات لگائے تھے۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میں ایک سیاسی پارٹی کی صرف چھ نشستوں کی موجودگی میں وہاں سے اس پارٹی کے دو سینیٹروں کی کامیابی پی ٹی آئی کے لئے دھچکے کا باعث تھی ۔ بدھ کے روز تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خاں نے بنی گالہ میں پارٹی کے نائب صدر شاہ محمود قریشی اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک کے ہمراہ پریس کانفرنس میں جو کچھ کہا اس کا لب لباب یہ ہے کہ اس باب میں تحقیقات کے لئے کمیٹی بنائی گئی تھی جس کی رپورٹ سے ظاہر ہوا کہ ان کے ایم پی ایز کو چار چار کروڑ روپے کی پیش کش ہوئی۔ چنانچہ ووٹوں کی فروخت میں مبینہ ملوث 20؍ایم پی ایز کو شوکاز نوٹسز کی صورت میں صفائی کا ایک موقع دیا گیا ہے، وہ اگر بے گناہ ثابت نہ ہوئے تو ان کے کیس نیب میں بھیجے جائیں گے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اصول پسندی کا بہانہ بنا کر ان ارکان اسمبلی کو فارغ کیا گیا ہے جنہیں ٹکٹ نہیں دینا تھا کیونکہ اگر بات اصول کی ہے تو پھر چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کو بھی مسترد کیا جاتا۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے ان اراکین اسمبلی کا موقف بھی سامنے آنا شروع ہوگیا ہے جن کے نام الزام کی زد میں ہیں۔ ان میں سے اکثر نے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ مذکورہ اعلان سے قبل انہیں صفائی کا موقع نہیں دیا گیا۔ اس نوع کی باتیں بھی کہی گئیں کہ کپتان نے سستی شہرت کے لئے ڈرامہ رچایا ہے۔ اگرچہ پی ٹی آئی نے آئندہ مالی سال کا بجٹ عام انتخابات کے بعد بننے والی حکومت کے لئے چھوڑ دیا ہے اور اس وجہ سے بجٹ منظور کرانے کے لئے ارکان کی مطلوب تعداد کی فکر سے آزاد ہے تاہم جنرل الیکشن سے چند ہفتے قبل اٹھایا گیا مذکورہ قدم جرأت مندانہ کہا جاسکتا ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں 123؍ارکان پر مشتمل صوبائی اسمبلی میں عملاً پی ٹی آئی کے ارکان کی تعداد 45 رہ گئی ہے اور اتحادی پارٹی جماعت اسلامی کے 8؍ارکان کو شامل کرکے بھی یہ تعداد سادہ اکثریت64سے گیارہ کم بنتی ہے۔ ملک میں جمہوریت جیسے تیسے بھی چل رہی ہے اس میں مذکورہ فیصلہ غنیمت ہے اور اس سے قائم ہونے والی روایت کو آگے بڑھایا جانا چاہئے۔ جمہوریت نام ہی اصولوں کی پاسداری کا ہے اس کی بنیادیں مستحکم کرنے کے لئے ہماری سیاسی پارٹیوں کو ایک جانب لوٹا کریسی کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی، دوسری طرف ایوان میں لانے کے لئے امیدواروں کے شخصی تاثر اور مباحث و تقاریر کے معیار کی بہتری پر توجہ دینا ہوگی۔ اس کے علاوہ تھنک ٹینکس اور ورکنگ گروپوں کے ذریعے ہر شعبے میں باقاعدہ تحقیق، مطالعے اور تفصیلی منصوبہ بندی کی راہ اپنانا ہوگی اور اس باب میں عوام کو اعتماد میں لینا ہوگا۔

تازہ ترین