• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طالب علموں کی تخلیقی صلاحیتیں بڑھانے والی سائنس فکشن،فینٹسی بکس

طالب علموں کی تخلیقی صلاحیتیں  بڑھانے والی سائنس فکشن،فینٹسی بکس

تازہ مطالعاتی رپورٹ سےپتہ چلا ہےکہ ہمارے بچوں کی جدید ’’ایپ نسل‘‘ (app generation)تخلیقی تحریرکا ہنر جاننے کی جدوجہدمیں مصروف ہے۔ وہ حقیقت پسندانہ سوچ کے روپ میں بدل رہے ہیں۔یہاںہم ذہین نسل سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کے لیے موسم گرمامیں پڑھنے کےلیے ایسی سائنس فکشن اور فینٹسی کتابوں سے متعارف کرارہے ہیں جو آپ کی بےچین سوچ کو تخلیقی ذہن کی جانب راغب کر سکتی ہیں۔

تخلیقی تحریر لڑکپن کا حصہ ہوتی ہے۔ کھوئی ہوئی ریاستوں اور مریخ کے کالونیوں کی عجیب و غریب کہانیاں تخیل کو مہمیز کرتی ہیں۔ لیکن حالیہ مطالعے نے ایک دلچسپ، ممکنہ طور پر خوف زدہ رجحان کو ظاہر کیا ہے جب بچے لکھتے ہیں تووہ حقیقت پسندانہ کہانیوں اور واقعات کو ترجیح دیتےہیں۔

سال کے آغاز میں تخلیقی ریسرچ جرنل میںشائع ہونے والے ایک مطالعے میں ہارورڈ گریجویٹ اسکول آف ایجوکیشن اور واشنگٹن یونیورسٹی کے محققین نے سوال پوچھا:’’گزشتہ 20 سال سے زائد عرصے کے دوران نوجوانوں کی آرٹ سازی اور تخلیقی تحریر کےانداز،مواد اور ساخت میںکس طرح کی تبدیلیاں واقع ہوئیں؟‘‘

’’سبزہ دار میدان‘‘ از رے بریڈبری The Veldt, by Ray Bradbury

رے بریڈبری نےہمارے گھروں میںنیسٹ تھرمواسٹیٹ کے داخل سےبہت عرصہ پہلے انٹرنیٹ آف تھنگزکے بارے میںبتایا۔ بریڈبری تخلیقی انسپریشن کا معتبر ذریعہ ہے؛ یہ کہانی اس کام کے لئے ایک کلاسک تعارف ہے۔

اقتباس: "نرسری خاموش تھی۔یہ ایسے ہی خالی تھی جیسےچلچلاتی دھوپ میں جنگل شاداب کھڑا تھا۔دیواریں خالی اور دو جہتی تھیں۔اب جیسے ہی جارج اور لیڈیا ہڈلی کمرے کے مرکز میں کھڑے ہوئے تو دیواروں نے ہلکی آواز میںتھرتھرانا شروع کیااور کرسٹلائین فاصلے پر کھسکنے لگیں اور تمام اطراف سہہ جہتی افریقی سبزہ دار میدان ظاہر ہونے لگا، جس میں سےمختلف رنگوں کی دیواریں اور تنکےمد وجزر کی مانند ابھرتی دکھائی دئیے۔ان کے اوپر کی چھت گرم پیلے رنگ کے سورج کے ساتھ ایک گہرا آسمان بن گئی۔

’’ماہرِخصوصی کی ٹوپی ‘‘ازکیلی لنک

(The Specialist’s Hat, by Kelly Link)

سب کو ایک اچھی خوفناک کہانی بھاتی ہے، ٹھیک ہےنہ؟زیرِ نظر کہانی یقینی طور پراس پر پوری بیٹھتی ہےلیکن خبردارآپ چاہے عمر کے کسی بھی حصے میں ہوں سوتے وقت پڑھنا نہیں چاہیے۔

اقتباس: ’’جب آپ مر چکے ہیں‘‘ سامنتھا کہتے ہیں، ’’آپ کو اپنے دانتوں کو برش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘،’’ جب آپ مر چکے ہیں‘‘کلیئر کہتے ہیں، 'آپ ایک باکس میں رہتے ہیں، اور یہ ہمیشہ تاریک ہے۔لیکن آپ کبھی پریشان نہیں ہوتے ہیں۔کلیئر اور سامنتھا دو جڑواں ہیں۔ان کی مشترکہ عمر بیس سال، چار مہینے، اور چھ دن ہے۔کلیئر مردار ہونے پر کلیئرسے زیادہ بہتر ہے۔نینی جماہی لیتے ہوئےلمبے سفید ہاتھ سے اپنے منہ کو ڈھانکتی ہے۔ 'میں نےکہا اپنے دانتوں کو برش کرو ! یہ سونے کا وقت ہے۔اس نے کہا۔ وہ ان کے درمیان پھولوں کےبستر پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھی ہے۔

’’آخری انسان‘‘ازمیری شیلی

(The Last Man, by Mary Shelley)

1800کی دہائی میں خاتون سائنس فکشن مصنفین غیر معمولی تھے اور عام طور پر قلمی نام سے لکھا کرتیں۔ان میں فریکنسٹین کےحوالے سے سب سے مشہور میری شیلی تھیں،جنہوں نے 2073 کے پس منظر میں ’’آخری آدمی‘‘ کے نام سے کہانی لکھی،جس میں مشینی انسانوں کے مقابل انسان کی بے بسی رقم کی گئی۔1965 تک اس کی اشاعت تواتر سے ہوتی رہی۔

اقتباس: "میرے ابتدائی بچپن کے دوران انگلینڈ لمحاتی جدوجہد کے مراحل سے گزر رہا تھا۔سال 2073 میں اس کے آخری بادشاہوں کے ادوار میں میرے والد کے قدیم دوست کو اپنے مضامین میں ندرت کے باعث اغوا کرلیا گیا تاکہ ان کے علم سے فائدو اٹھاکراپنی ایک جمہوریہ قائم کرلی جائے۔ 

بڑی ریاستوں کو بادشاہت گرانے سے محفوظ کیا گیااور اس کے خاندان کوتحفظ دیکر اسے ونسور کے ارل اور ون ونسر کیسل کا لقب دیا گیا جو اس کے وسیع پیمانے پر مختص شدہ مال کا حصہ تھا۔اس کے بعد جلد ہی وہ مر گیا اور اپنے پیچھے دو بچوں ایک بیٹا اور ایک بیٹی چھوڑ گیا۔

تازہ ترین