• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بزنس ایجوکیشن کی بدلتی دنیا

پاکستان نے جب اپنے سفر کا آغاز کیا تو اس وقت پورے ملک میں صرف ایک ہی یونیورسٹی تھی جسے ہم جامعہ پنجاب کے نام سے جانتے ہیں لیکن اب پاکستان میں 177یونیورسٹیاں اور اعلیٰ تعلیم ادارے ہیں جن کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔ ان میں سے 103 سرکاری یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے ہیں جبکہ باقی نجی شعبے میں قائم ہیں۔ وفاقی حکومت نے ان میں سے صرف 33 یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کو جبکہ باقی کو صوبائی حکومتوں نے چارٹر کیا ہے۔ جن اداروں کو وفاقی حکومت نے چارٹر کیا ان میں سے زیادہ تر دارالحکومت اسلام آباد میں واقع ہیں لیکن بعض ملک کے دوسرے حصوں میں موجود ہیں مثلاً قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی (Karakoram International University)کو وفاقی حکومت نے چارٹر کیا ہے جو گلگت بلتستان میں واقع ہے۔

بزنس ایجوکیشن کاروباری دنیا میں ایک منفرد کردار ادا کرتی ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں تاجر برادری بزنس ایجوکیشن کو وہ اہمیت نہیں دیتی، جتنا اس کا حق ہے۔ لیکن لوگ اپنے آباؤ اجداد کے پیشے سے جڑے اور چمٹے ہوئے ہیں اور اسی طرح بزنس کررہے ہیں جس طرح ان کے باپ دادا کیا کرتے تھے۔ حالانکہ اب دنیا بدل چکی ہے۔ دنیا کے ہر شعبے میں واضح تبدیلی آ چکی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی سے بزنس بھی بدل چکا ہے۔ اس کے طریق کار میں نمایاں تبدیلی دیکھی جاسکتی ہے۔ اگر یہ آج کی دنیا میں مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو انہیں بزنس ایجوکیشن کی طرف آنا ہو گا۔ آج نہ سہی کل ضرور آنا پڑے گا۔

یہ سادہ سی اور عام فہم بات ہے کہ ہر شعبے کے لیے پروفیشنل لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک مسجد کا امام پڑھا لکھا اور تعلیم یافتہ نہیں ہے تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ ہمیں کیا دین سکھائے گا، بلکہ وہ ہمارا نقصان تو کرے گا ہی، ساتھ دین سے بھی لوگوں کو متنفر کرے گا۔ اسی طرح بزنس کرنے والوں کو تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے ورنہ آپ فائدے سے زیادہ نقصان اٹھائیں گے۔ کتنے لوگ آپ کو ایسے ملیں گے، جنہوں نے کاروباری دنیا میں تعلیم کی بدولت ترقی کی ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مالکان اور بانیوں کی زندگی کا مطالعہ کر لیں، انہوں نے بزنس سیکھا پھر تعلیم کی روشنی میں اسے پروان چڑھا یا۔

پاکستانی یونیورسٹیز کی بات کی جائے تو طلبا کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ان میں شاید ہی کسی کو حقیقی دنیا کا تجربہ ہو، جبکہ بزنس میں حقیقی دنیا ہی سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔بزنس کے طلبا مکمل طور پر ٹیکسٹ بکس پر بھروسہ نہیں کرسکتے۔ انہیں نہ صرف اپنی فیلڈ، بلکہ تمام دوسری فیلڈز کے بارے میں بھی تازہ ترین معلومات ہونی چاہییں، جس کا مطلب ہے کہ میگزین، جرنل، اور دیگر ایڈیشنز پڑھنا بھی لازمی ہیں ۔ بزنس کوئی ایسی چیز نہیں جو کلاس روم میں سیکھی جاسکے۔ بنیادی طور پر یہ فیلڈ میں کام کے تجربے سے سیکھا جاتا ہے۔

ماہرین اور تجزیہ کار طویل عرصے سے اس بات پر بحث کرتے آئے ہیں، کہ یونیورسٹیز کے انڈسٹری کے ساتھ روابط ہونے چاہیئں، لیکن وہ یہ بتانا بھول جاتے ہیں کہ ان کارپوریشنز کو اپنی انٹرن شپس صرف گریجویٹس کے لیے نہیں بلکہ بیچلر سطح پر پہلے، دوسرے، اور تیسرے سال کے طلبا کے لیے بھی کھولنی چاہیئں۔

طلبا کو بالکل شروع سے ہی کام پر لگا دینا چاہیے، تاکہ وہ جب تک گریجویٹ ہوں، تب تک انہیں کام کا خاطر خواہ تجربہ حاصل ہوجائے، اور کارپوریشنز سے واقفیت ہوجائے۔ٹیکنالوجی اور بزنس کے بڑھتے ہوئے تعلق کی وجہ سے طلبا کو انڈسٹری میں استعمال ہونے والے بہترین سافٹ ویئرز کے استعمال کی ٹریننگ دینی چاہیے۔ زیادہ تر یونیورسٹیوں میں اوریکل، سیپ، ایکسل، مائیکروسافٹ پراجیکٹ، ریٹیل پرو، مائی ایس کیو ایل، گوگل ایڈ ورڈز، اور فوٹوشاپ سکھایا جاتا ہے۔ لیکن بسا اوقات یہ صرف بنیادی سطح کی ٹریننگ ہوتی ہے۔

دراصل بزنس گریجویٹ کے لیے سب سے اہم اثاثہ اس کا نیٹ ورک ہوتا ہے۔ بزنس گریجویٹس کی ایک بہت ہی کم تعداد یہ مانتی ہے کہ فیس بک، ٹوئٹر، اور لنکڈ اِن فائدہ مند چیزیں ہیںجبکہ حالیہ کچھ سالوں میں لنکڈ ان کے ذریعے بھرتیوں کی تعداد میں کافی حد تک اضافہ ہوا ہے۔ یونیورسٹیوں کو اپنے طلبا کو نہ صرف یہ سکھانا چاہیے کہ اپنی سی وی کس طرح بہتر بنائی جاسکتی ہے، بلکہ انہیں لنکڈ ان پر پروفیشنل پروفائلز بنانا بھی سکھانی چاہیئں۔وہ دن اب جاچکے جب کارپوریشنز کے ایچ آر مینیجر مائیکروسافٹ ورڈ میں لکھی گئی ہزاروں سی ویز میں سے انتخاب کیا کرتے تھے۔ آج کل کارپوریشنز میں ریکروٹمنٹ اسپیشلسٹس کو بھرتی کیا جارہا ہے، جو لنکڈ ان کے ذریعے صحیح افراد کو جلد سے جلد اور زیادہ موثر طور پر ڈھونڈ لیتے ہیں۔

آج کل چونکہ ای بزنس کا زمانہ ہے تو ہمارے طلبہ کو بزنس ایجوکیشن کے ساتھ ساتھ آن لائن بزنس کے بارے میں بھی بھرپور تعلیم لینی ہوگی کہ جب وہ کاروبار کی دنیا میں آئیں تو آن لائن بزنس نہ صرف سنبھال سکیں بلکہ نت نئے آئیڈیاز کے ذریعے اپنی کمپنی کو بلندیوں پر لے جائیں اس کیلئے ان کے سامنے ڈیجیٹل دنیا کےآسمان اوربھی ہیں۔

تازہ ترین