• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلڈ کینسر میں مبتلا ہیڈ کانسٹیبل ذوالفقار علی کی موت کی تحقیقات کا حکم

 بلڈ کینسر میں مبتلا ہیڈ کانسٹیبل ذوالفقار علی کی موت کی تحقیقات کا حکم

ڈی آئی جی ٹریننگ سندھ شرجیل کھرل نے پولیس ٹریننگ سینٹر سعید آباد میں چھٹی نہ ملنے پر بلڈ کینسر میں مبتلا ہیڈ کانسٹیبل ذوالفقار علی کی موت کی ازسرنو تحقیقات کرانے کا حکم دے دیا ہے۔

مرنے سے ایک دن قبل بھی پولیس اہلکار کو گیٹ پر رات کی ڈیوٹی پر تعینات رکھا گیا تھا جو ڈیوٹی سے اسپتال پہنچا اور انتقال کرگیا۔ متوفی نے 5 بیٹیوں، نوعمر بیٹے اور اہلیہ کو سوگوار چھوڑا ہے۔ ڈی آئی جی ٹریننگ شرجیل کھرل کی جانب سے ابتدائی تحقیقات میں پولیس ٹریننگ سنٹر کی انتظامیہ نے متوفی کو غیرحاضر ظاہر کیا تھا۔

ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ضلع ملیر کے گڈاپ ڈویژن میں تعینات ہیڈ کانسٹیبل ذوالفقار علی ولد خوشی محمد نے 23 جنوری 2018 کو انٹرمیڈیٹ اسکول کورسز کیلئے پولیس ٹریننگ سینٹر سعید آباد میں جواننگ دی تھی۔ اس دوران طبیعت خراب ہونے کی بنا پر اسے 11 مارچ 2018 سے 18 مارچ تک 8 دن کی عام چھٹی دی گئی جس میں بیماری کا تذکرہ نہیں۔

انتظامیہ کے مطابق بیماری کا تذکرہ کرنے پر اسے 7 اور 8 اپریل کی دو دن کی چھٹی دی گئی۔ ٹریننگ میں ذوالفقار کے ساتھی اہلکاروں کے مطابق اس دوران اس کی طبیعت مزید بگڑنے لگی۔ اس نے خرابی صحت کے بارے میں انتظامیہ کو آگاہ کیا مگر کسی نے اس کی بات کو سنجیدہ نہیں لیا اور اہلکار کی جانب سے منتیں کرنے کے باوجود چھٹی نہ دی گئی۔

ٹریننگ کے دوران علالت کی وجہ سے عموما اس طرح کی صورتحال میں اہلکاروں کو ریلیف دیا جاتا ہے یا قریبی اسپتال میں اس کا چیک کرایا جاتا ہے مگر انتظامیہ کی جانب سے ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔ ٹریننگ کے دوران بیمار اہلکاروں کے ساتھ نرمی برتی جاتی ہے مگر ذوالفقارعلی کے ساتھ اس کے برعکس برتاؤ دیکھا گیا۔ اسے 12 اور 13 اپریل کی درمیانی شب ٹریننگ سنٹر کے گیٹ کی انتہائی سخت ڈیوٹی پر تعینات کر دیا گیا۔

ساتھی اہلکاروں کے مطابق ڈیوٹی کے دوران وہ سینے کی شدید تکلیف اور کرب میں مبتلا رہا۔ رات 12 بجے ڈیوٹی ختم کی تو اسے پیٹ اور سینے میں شدید درد اٹھا۔ ساتھی اہلکاروں نے اسے گھر روانہ کردیا۔ ملیر کے ایک تھانے میں ذوالفقار کے ساتھ کئی سال تک ڈیوٹی کرنے والے پولیس اہلکار جمیل کے مطابق ذوالفقار علی نے 13 اپریل کو علی الصبح 5 بجے اسے فون کرکے فوری طور پر میمن گوٹھ کے مین روڈ پر آنے کا کہا۔

وہ پہنچا تو ذوالفقار وہاں درد سے کراہ رہا تھا۔ وہ اسے قائدآباد کے ایک اسپتال لے آیا جہاں ڈاکٹرز نے ڈرپ لگائی اور اس دوران درد سے نجات کی دوائیں دیں۔ سینے میں مسلسل شدید تکلیف اور حالت مزید خراب ہونے پر وہ اسے صبح 6 بجے امراض قلب کے قومی ادارے لے آیا۔ جہاں ڈاکٹروں نے ان کا ای سی جی اور مختلف ٹیسٹ کرنے کے بعد انہیں جناح اسپتال کی ایمرجنسی روانہ کردیا۔

کانسٹیبل جمیل کے مطابق صبح پونے 8 بجے دوپہر 12 بجے تک جناح اسپتال کی ایمرجنسی میں علاج معالجہ اور مختلف ٹیسٹ کرائے گئے۔ ڈاکٹرز نے اسپتالسے فارغ کرکے اگلے روز او پی ڈی میں دکھانے کا کہا۔

جمیل کے مطابق وہ ذوالفقار علی کو لے کر میمن گوٹھ میں گھر پہنچے تو ان کی سانس پھر اکھڑنے لگی اور حالت تشویشناک ہوگئی ۔ انہوں نے اسے ملیر کے السید میڈیکل سینٹر پہنچایا۔ جہاں کی ڈاکٹر اقصیٰ نے ان کی حالت دیکھتے ہی علاج سے معذرت کرلی اور انہیں آغا خان اسپتال لے جانے کا کہا۔

جمیل کے مطابق وہ انہیں لے کر آغاخان اسپتال پہنچا جہاں ڈیڑھ گھنٹے کے طبی معائنے کے بعد ڈاکٹروں نے صورتحال انتہائی گھمبیر بتائی۔ ڈاکٹرز کے مطابق ذوالفقار علی کو خون کا کینسر تھا جس کا ابتدائی طور پر علاج نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس کی تشخیص کرنے کی کوئی کوشش کی گئی جس کی وجہ سے صورتحال انتہائی گھمبیر ہوچکی تھی۔ ڈاکٹروں نے ان کے خونی رشتے داروں کو طلب کرکے اصل صورتحال سے آگاہ کیا۔ نجی اسپتال میں اس طرح کے مرض کے علاج کا خرچہ لاکھوں میں بتایا گیا۔

اطلاع ملتے ہی ان کے قریبی دوست پولیس افسران اور اہلکار بھی اسپتال پہنچ گئے جنہوں نے چندا کر کے اسپتال میں مطلوبہ رقم جمع کرائی۔ جمیل کے مطابق وہ انہیں اسپتال میں داخل کرا کر رات ڈیڑھ بجے گھر پہنچا۔ صبح 6 بجے انہیں اسپتال سے پھر فون آیا تو وہ پھر اسپتال پہنچا۔ ڈاکٹروں نے علاج سے جواب دینے جیسی مایوس کن صورتحال بتائی۔ ڈاکٹرز کے مطابق اس وقت تک ذوالفقار محض آکسیجن کے سہارے زندہ تھا۔

جمیل کے مطابق وہ تمام صورتحال پولیس ٹریننگ سینٹر میں ڈیوٹی افسر کو فون کرکے بتاتا رہا مگر ذوالفقار علی کا علاج کرانے کے لیے ٹریننگ سنٹر سے کوئی بھی اسپتال نہیں پہنچا۔

اس دوران ہفتے کی سہ پہر تین بجے ذوالفقارعلی کا انتقال ہوگیا۔ یہ اطلاع بھی پولیس ٹریننگ سنٹر کے عملے کو اسی وقت دے دی گئی۔ بعدازاں لواحقین میت لے کر ایدھی سنٹر سراب گوٹھ پہنچے۔ لواحقین کے مطابق ایدھی سینٹر میں غسل کفن کے دوران پولیس ٹریننگ سینٹر سے پولیس موبائل میں چند اہلکار پہنچے جو ذوالفقار علی کی موت کا افسوس کرکے تجہیز و تکفین کے نام پر 20 ہزار روپے دے کر چلے گئے۔

یہ تمام حقائق جاننے کے بعد ڈی آئی جی ٹرینگ شرجیل کھرل نے پولیس ٹریننگ سینٹر رزاق آباد کے کمانڈنٹ کی سربراہی میں تحقیقاتی ٹیم بنانے کا اعلان کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تحقیقات کے دوران تمام متعلقین کے بیانات ریکارڈ کیے جائیں گے اور اس غفلت اور لاپرواہی میں ملوث کرداروں کو سامنے لا کر کارروائی کی جائے گی۔

متوفی کے بھانجے جاوید نے "جنگ" کو بتایا کہ حاجی ذوالفقار علی کی تدفین ان کے آبائی علاقے لیہ میں کی گئی ہے۔ متوفی نے 5 بیٹیوں ایک بیٹے اور بیوہ کو سوگوار چھوڑا ہے۔

تازہ ترین