• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ اور پنجاب میں سیاستدانوں سے سلوک میں فرق ہے، شیری رحمٰن

کراچی (ٹی وی رپورٹ) قائد حزب اختلاف سینیٹ شیری رحمٰن نے کہا ہے کہ سندھ اور پنجاب میں سیاستدانوں سے سلوک میں فرق ہے، صرف سیاستدانوں کی تضحیک ہونے کا تاثر موجود ہے، سب کا یکساں احتساب ہونا چاہئے، عدالتوں کا عمل ہر جگہ یکساں ہونا چاہئے، پیپلز پارٹی عدالتوں کو مکا دکھانے کے بجائے مہذب گفتگو کرتی ہے، ملک میں انتشار پھیلانا کوئی راستہ نہیں ہے۔وہ جیو کے پروگرام ”نیا پاکستان طلعت حسین کے ساتھ“ میں میزبان طلعت حسین سے گفتگو کررہی تھیں۔ پروگرام میں پیپلز پارٹی کی رہنماسینیٹر روبینہ خالد،اے این پی کے رہنما زاہد خان،ماہر قانون کامران مرتضیٰ ،صحافی اسماعیل خان اور نمائندہ جیو نیوز پشاور نادیہ صبوہی سے بھی گفتگو کی گئی۔روبینہ خالد نے کہا کہ خیبرپختونخوا حکومت کی جھوٹ پر مبنی کارکردگی کا پول کل کھل گیا ہے، چیف جسٹس نے خیبر پختو نخوا حکومت کی ستائش نہیں کی اسے ڈانٹا ہے۔زاہد خان نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں تعلیم ،صحت اور پولیس کے نظام کی بہتری کیلئے کوئی کام نہیں ہوا، چیف جسٹس بتائیں اے پی ایس لواحقین سے ایک ہفتہ کیوں مانگا۔کامران مرتضیٰ نے کہا کہ چیف جسٹس کو حکومتی کارکردگی ٹھیک کرنے کیلئے مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔ اسماعیل خان نے کہا کہ خیبرپختونخوا حکومت کو اندازہ تھا کہ چیف جسٹس کن معاملات کو چھیڑیں گے اس لئے انہوں نے ہوم ورک کرلیا تھا۔ نما ئندہ جیو نیوز پشاور نادیہ صبوہی نے کہا کہ چیف جسٹس نے دورئہ پشاور میں خیبرپختونخوا حکومت کی زیادہ تر معاملات پر دھلائی کی۔قائد حزب اختلاف سینیٹ شیری رحمٰن نےکہا کہ یہ تاثر موجود ہے کہ صرف سیاستدانوں کی تضحیک ہورہی ہے، سب کا یکساں احتساب ہونا چاہئے، ملک میں احتسا ب کی دھار یک طرفہ نہیں دو طرفہ ہونی چاہئے، سندھ اور پنجاب میں سیاستدانوں سے سلوک میں فرق ہے، سندھ میں شرجیل میمن کو ایئرپورٹ سے کھینچ کر لے جایا جاتا ہے مگر ن لیگ کے ساتھ رویہ مختلف ہے، سیاستدانوں پر الزام سے لوگوں میں حوصلہ کم ہوتا ہے، ان کا جمہوری نظام پر یقین کمزور ہوجاتا ہے۔ شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی ہمیشہ احتسابی عمل کا شکار رہی ہے، احتساب کمیشن کے دور میں بے شمار جھوٹے کیسز بنائے گئے ، ڈاکٹر عاصم کو چار بائی چار کے سیل میں ڈال کر دہشتگرد قرار دیدیا گیا، عدالتوں کا عمل ہر جگہ یکساں ہونا چاہئے، پیپلز پارٹی عدالتوں کو مکا دکھانے کے بجائے مہذب گفتگو کرتی ہے، ہم فیصلے چیلنج نہیں کرتے ان پر ریویو میں جاتے ہیں،ملک میں انتشار پھیلانا کوئی راستہ نہیں ہے۔شیری رحمٰن نے کہا کہ دائرہ اختیار اور حدود پر قومی بحث ہورہی ہے جو اچھی بات ہے، ن لیگ سے سیاسی معاملات پارلیمان میں طے کرنے کیلئے کہا ، نواز شریف نے ہماری بات نہیں مانی اور معاملات عدالتوں میں لے کر گئے، پیپلز پارٹی نے پلی بارگین قانون کو سندھ میں تبدیل کرنے کی کوشش کی، جن آئینی ترامیم کی ضرورت ہیں انہیں لانا چاہئے۔سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ خیبرپختونخوا حکومت کی جھوٹ پر مبنی کارکردگی کا پول کل کھل گیا ہے، سندھ میں تھر تک پانی پہنچ گیا لیکن پشاور میں لوگ گندہ پانی پینے پر مجبور ہیں،پشاور میں اسپتال کا فضلہ ری سائیکل ہوکر بکتا ہے جو انتہائی خطرناک بات ہے، خیبرپختونخوا حکومت نے کوئی نیا اسپتال یا اسکول نہیں بنایا، عمران خان چکنے گھڑے بن گئے ہیں جس کا کوئی علاج نہیں ہوتا، چیف جسٹس نے خیبرپختونخوا حکومت کی ستائش نہیں کی اسے ڈانٹا ہے۔روبینہ خالد کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کا پراپیگنڈہ سیل بہت مضبوط ہے، خیبرپختونخوا میں کوئی برن سینٹر نہیں ہے، نچلی عدالتوں میں لوگ عذاب سے گزرتے ہیں ، ادارے اپنے دائرہ کار میں رہ کر اپنا کام کریں تو بہتری آسکتی ہے،کرپشن کے خاتمے کا دعویٰ کرنے والی جماعت نے اپنے ہی بیس ارکان اسمبلی کو کرپٹ قرار دیدیا ہے۔زاہد خان نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں تعلیم ،صحت اور پولیس کے نظام کی بہتری کیلئے کوئی کام نہیں ہوا، پی ٹی آئی کے چار ایم پی ایز نے پولیس بھرتیوں میں کرپشن کے الزامات لگائے تونیب ا نکوائری کیوں نہیں ہوئی، زاہد خان کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت نے خیبرپختونخوا میں نو یونیور سٹیاں بنائی تھیں، میڈیا نے بنی گالہ میں خیبرپختونخوا کے ڈاکٹرز، نرسوں اور ٹیچرز کے مظاہروں کو کوریج نہیں دی، الیکٹرانک میڈیا خیبرپختونخوا میں قدم ہی نہیں رکھتا ہے۔کامران مرتضیٰ نے کہا کہ چیف جسٹس کو حکومتی کارکرد گی ٹھیک کرنے کیلئے مداخلت نہیں کرنی چاہئے، چیف جسٹس کو اپنا کام کرنا چاہئے باقی کام چھوڑ دیں، آئین کی شقوں کو بہت زیادہ پھیلائیں گے تو عدالتوں کو نقصان پہنچے گا، اس طرح اعلیٰ عدلیہ ایک پارٹی بن جائے گی۔
تازہ ترین