• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاعر مشرقؒ کی ادبی شہرت کو قائداعظمؒ نے عالمگیر قرار دیا

واصف ناگی

واصف ناگی

شاعر مشرق مصور پاکستان مفکر اسلام حضرت علامہ اقبالؒ نے مسلمانوں کے لئے جو خدمات سر انجام دیں وہ تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف کے ساتھ لکھی جائیں گی اور برصغیر کے مسلمانوں کی جدوجہد کی تاریخ علامہ اقبال کے تذکرے کے بغیر نامکمل ہے علامہ اقبالؒ نے پاکستان کا تصور پیش کر کے مسلمانوں کے اندر جدوجہد آزادی کی ایک نئی روح پھونک دی تھی۔

ذیل میں ہم علامہ اقبال کی زندگی کے چند اہم واقعات درج کر رہے ہیں جو یقیناً قارئین کے لئے پاکستان کی نوجوان نسل اور علامہ اقبال ؒسے عقیدت رکھنے والوں کے لئے معلومات اور دلچسپی کا باعث ہوں گے ان میں بعض واقعات بڑے دلچسپ بھی ہیں۔

لاہور میں 3مارچ 1941ء کو پنجاب یونیورسٹی یونین کے زیر اہتمام یونیورسٹی ہال میں یوم اقبال منایا گیا۔ یہ جلسہ نواب ممدوٹ کی صدارت میں منعقد ہوا تھا۔ اس موقع پر بانی پاکستان قائد اعظمؒنے علامہ مرحوم کو خراج عقیدت ادا کیا اور فرمایا کہ اگر میں اس جلسہ میں حاضر نہ ہوتا تو اپنے آپ سے بڑی بے انصافی کرتا میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے اقبالؒکی مقدس یاد کو خراج عقیدت پیش کرنے کا موقع ملا۔ اقبال کی ادبی شہرت عالمگیر ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ وہ ایک بہت بڑے سیاست دان تھے اقبال نے آپ کے سامنے ایک واضح راستہ پیش کیا ہے اور اس سے بہتر کوئی نہیں اس انداز میں کسی نے اقبال سے بہتر اسلام کو نہیں سمجھا۔ مجھے فخر ہے کہ مجھے ان کی میت میں سیاسی کام کرنے کا موقع ملا میں نے آج تک ان سے زیادہ سچا اور وفادار رفیق نہیں پایا وہ جس بات کو صحیح کہتے تھے اس پر چٹان کی طرح ڈٹ جاتے تھے قائد اعظم نے آخر میں کہا کہ اقبال کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا اس جلسے میں ڈاکٹر محمد باقر ڈاکٹر تصدق حسین خالد پروفیسر سعادت علی اور حامد علی مدیر ہمایوں نے اقبالؒکے متعلق مضامین اور نظمیں پڑھیں۔ حاضرین میں قابل ذکر سر عبدالقادر، میاں بشیر احمد نوابزادہ لیاقت علی خان اور خان بہادر مولوی محی الدین قصوری تھے۔

روایات اقبالؒ میں خواجہ محمد مسیح پال امین حزیں ایک واقعہ بیان کرتے ہیں مولوی ابراہیم ناگی سیشن جج نے ایک خواب سنایا کہ ایک مرتبہ ڈاکٹر علامہ اقبالؒ ان کے خواب میں آئے اور ارشاد فرمایا کہ ایک قلندر کا مقدمہ تمہارے سامنے پیش ہو گا اس کو رہا کر دینا چنانچہ دوسرے دن ایک شخص کو آوارہ گردی کے جرم میں پولیس گرفتار کر کے لائی اور عدالت میں پیش کیا اس شخص نے مجھ سے پوچھا’’کیا ہمارا قلندر آپ سے ملا تھا؟‘‘ مولوی ابراہیم ناگی سیشن جج بیان کرتے ہیں کہ مجھے خواب کا واقعہ یاد آ گیا میں نے اس کی ضمانت کا انتظام کیا اور پیشی کی تاریخ دے دی اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ اپنے قلندر سے بعد سلام میرا یہ پیغام پہنچا دینا کہ مجھے اپنے وطن بلائے۔ مقررہ تاریخ پر جب وہ شخص پیش ہوا تو میں نے اسے باعزت طور پر بری کردیا جاتے جاتے اس نے میرے پیغام کے حوالے سے کہا کہ آپ کا کام ہو جائے گا چنانچہ تھوڑے ہی دنوں کے بعد میرا تبادلہ سیالکوٹ ہو گیا۔ میرے خواہش تھی کہ میری تبدیلی میرے وطن امرتسر میں ہو مگر پیغام جس شکل میں ان کو ملا تھا اس پر عمل ہوا اور تبادلہ سیالکوٹ میں ہوگیا۔ یہ واقعہ اقبال اکیڈمی کے سابق ڈائریکٹر اقبال شناس پروفیسر محمد منور نے سنایا جب میں گورنمنٹ کالج لاہور میں زیر تعلیم تھا بتایا کہ تمہارے دادا نے یہ واقعہ انہیں بھی سنایا تھا۔

ڈاکٹر علامہ اقبال کے بارے میں ڈاکٹر محمد دین نے بتایا کہ شاعر مشرق اکثر یاحی یا قیوم کا ورد کرتے تھے جب کسی بیمار پر دم کرنا ہوتا تو ’’یا حی یا قیوم‘‘ پڑھتے۔

ایک مرتبہ علامہ کو گردے کا درد طویل ہو گیا ڈاکٹروں نے کہا کہ آپریشن کرا لیں علامہ صاحب نے آپریشن کے بارے میں اپنے استاد میر حسن کو خط لکھا اور تمام حالات بیان کئے میر حسن نے آپ کو آپریشن کرانے سے منع کر دیا چنانچہ آپ نے استاد کے کہنے پر گردے کا آپریشن کرانے سے انکار کر دیا۔

علی بخش، علامہ اقبالؒکا سب سے پرانا جاں نثار ملازم تھا اس نے علامہ اقبال کے ساتھ بڑا طویل عرصہ بلکہ وفات تک ان کے ہمراہ رہا وہ بیان کرتا ہے کہ علامہ اقبالؒ جو کچھ خود کھاتے تھے وہی نوکروں کو بھی کھلاتے تھے نوکروں کے لئے کبھی الگ کھانا نہیں پکتا تھا ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ نوکروں کے لئے دال پک کر آئی جس میں گھی بھی نہیں ڈالا گیا تھا ڈاکٹر صاحب کو اتفاق سے یہ بات معلوم ہو گئی گھر پہنچے تو سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ یہ چیز تم نے نوکروں کو نہیں کھلائی ، مجھے کھلائی ہے۔ میں ایسی بات کبھی برداشت نہیں کر سکتا نوکر ہمارے دست و بازو ہیں ہم ان کے پروں پر اڑتے ہیں، ہمارے سب کام ان کے سہارے چلتے ہیں یہ بات بری ہے کہ کھانے میں ان کوالگ رکھا جائے۔

17نومبر 1941ء کا ایک واقعہ میں یہاں درج کر رہا ہوں جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمان تو علامہ اقبال ؒکا حددرجہ احترام کرتے ہی تھے اور کرتے ہیں کرتے رہیں گے ۔ ہندو بھی ان کی بڑی عزت کرتے تھے۔

گجرات میں علامہ محمد اقبال کی فوٹو کی نقاب کشائی کی تقریب17 نومبر 1941ء کو منعقد ہوئی۔ اس کے مہمان خصوصی سر چھوٹو رام پنجاب کے وزیر ترقیات تھے تصویر کی نقاب کشائی کے بعد انہوں نے ایک مختصر سی تقریر کرتے ہوئے علامہ اقبال کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا جو واقعی بہت زبردست خراج عقیدت ہے۔’’ انہوں نے کہا کہ میں ، سر اقبال ‘‘کی عزت اس طرح کرتا ہوں جیسے بھگوان کرشن کی اور ان کی کتابوں (یعنی علامہ اقبالؒ کی کتابوں کی) کو اسی احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہوں جیسے گیتا ہو۔

علامہ اقبال کیونکہ اپنی اوائل عمر ہی سے مشہور ہو گئے تھے چنانچہ ہر روز بے شمار لوگ ملنے کے لئے آتے تھے۔ بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان نے علامہ اقبال کے مشورہ پر ہی لاہور سے معروف زمانہ اخبار ’’زمیندار ‘‘ کا اجراء کیا ۔ (یاد رہے زمیندار اس سے قبل مولانا ظفر علی خان کے والد مولوی سراج الدین کرم آباد سے شائع کر تے تھے۔)

جب زمیندار کا اجرا لاہور سے ہوا تو مولانا ظفر علی خان اس کے لئے روزانہ ایک نظم لکھا کرتے تھے علامہ اقبالؒکی نظموں کی وجہ سے بھی اخبار کی مقبولیت میں کافی اضافہ ہوا مگر بعد میں اسی اخبار میں ان کے خلاف باتیں بھی لکھی گئیں علامہ اقبال ؒ کو اس کا دکھ ضرور ہوا مگر انہوں نے لوگوں کے کہنے کے باوجود اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا بلکہ صاف انکار کر دیا۔

رنجیت سنگھ کی پوتی بمبا آپ کی بہت عزت کرتی تھی ایک مرتبہ اس نے ڈاکٹر علامہ اقبالؒ کی دعوت کی بمبا کو معلوم تھا کہ علامہ صاحب حقہ پیتے ہیں چنانچہ اس نے اپنے ڈرائیور پیر جی سے کہا کہ اعلیٰ درجے کا حقہ بنوا کر لائو کوٹھی کے اندر حقہ بھرا گیا اور برآمدے کے ایک کونے میں رکھ دیا گیا مرزا جلال الدین بیر سٹرایٹ لاء جو کہ علامہ اقبالؒ کے ساتھ کم وبیش 17برس تک رہے انہوں نے بیان کیا کہ میں اور علامہ صاحب پہنچے اور چائے کے لئے بیٹھ گئے تو بمبا نے پیر جی یعنی اپنے ڈرائیور سے پوچھا کہ سب کچھ تیار ہے اس نے کہا کہ سب کچھ تیار ہے خود کئی اور جہاں حقہ رکھا تھا وہاں سے خود اٹھا کر لائی اور علامہ صاحب کے سامنے رکھ دیا بعد میں ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ دیکھئے مرزا رنجیت سنگھ کی پوتی نے اپنے ہاتھ سے ہمیں حقہ پلایا۔

علامہ اقبال کی زندگی میں ہی یوم اقبال کے حوالے سے جلسے ہوا کرتے تھے مثلاً 9جنوری 1933ءکو جبکہ علامہ اقبال زندہ تھے پورے ہندوستان میں 9جنوری کو یوم اقبال منایا گیا جس میں پورے ہندوستان کے کئی کالجوں ، یوینورسٹیوں اور سکولوں میں جلسے ہوئے اور انہیں خراج تحسین پیش کیا گیا ۔

یوم اقبالؒ کے موقع پر لاکھوں لوگوں تک علامہ صاحب کا پیغام پہنچایا گیا سردار سکندر حیات خان نے علامہ اقبالؒ کی خدمت میں اس موقع پر ایک تھیلی پیش کرنے کی تجویز دی تھی جس کے سلسلے میں علامہ اقبال ؒ نے فرمایا کہ اسلامیہ کالج لاہور(ریلوے روڈ) میں اسلامیات کے مطالعہ کے لئے ایک خالص چیئر قائم کی جائے تاکہ نئے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں اسلام اور اس کا کلچر کے مطالعہ کا ذوق و شوق پیدا ہو۔یہ تجویز سب کو پسند آئی اور اخبارات نے اس کی تائیدمیں بہت کچھ لکھا۔ لیکن یوم اقبال کی پرجوش سرگرمیوں میں قوم نے اس تجویز کو بھلا دیا آج بھی اسی کالج میں علامہ قبالؒ کی خواہش کے احترام میں چیئر قائم کی جا سکتی ہے اور اس کی ضرورت بھی ہے۔

علامہ اقبال کا سفر آخرت

ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ مدت سے درد گردہ اور نقرس میں مبتلا تھے۔ 1934ء میں عید کی نماز پڑھ کر آئے تو گرم گرم سویاں کھا لیں، فوراً گلا بیٹھ گیا۔ ڈاکٹروں کا علاج کرایا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ 1936ء میں جاوید اقبال کی والدہ کا انتقال ہو گیا ان کی صحت پر اس سانحہ کا بھی ناگوار اثر پڑا اور کئی دوسرے عوارض پیدا ہو گئے۔ وہ خود بھی اپنی صحت کی جانب سے مایوس ہو چکے تھے لیکن وہ نہ تو مضطرب تھے اور نہ موت سے ڈرتے تھے۔ 21اپریل 1938ء کی صبح 8بجے شہر بھر میں یہ خبر پھیل گئی کہ حکیم الامت اپنے مولا سے جا ملے۔

فقیر سید وحیدالدین کے مطابق ’’ڈاکٹر صاحب کا وفادار بوڑھا ملازم علی بخش کوٹھی کے باہر چیخیں مار مار کے رو رہا تھا۔ اقبال جس کمرے میں سویا کرتے تھے اسی کمرے میں پلنگ پر لیٹے ہوئے تھے اور سکوت ابدی نے انہیں اپنی آغوش میں لے رکھا تھا۔ ان کے قریب چند اصحاب کے ساتھ چودھری محمد حسین اور محمد شفیع کھڑے تھے، سب کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور شدت گریہ سے ہچکی بندھی ہوئی تھی۔ سہ پہر کو جب دوبارہ جاوید منزل پہنچا تو تکفین کے بعد مرحوم کا جنازہ کوٹھی سے باہر لایا جا رہا تھا۔ میں نے سوچا تین میل لمبے راستے میں جنازے کو کندھا دینے کی حسرت خاطر خواہ پوری ہو گی لیکن یہ خیال بالکل غلط نکلا۔ دیکھتے ہی دیکھتے لاہور اور بیرون شہر کے مسلمانوں کا ایک ایسا سیلاب امڈ آیا کہ میلوں تک انسانوں کے سر ہی سر دکھائی دیتے تھے۔ اتنا بڑا تعزیتی اجتماع پھر کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ جنازہ 5بجے شام میو روڈ (اب علامہ اقبال روڈ) سے روانہ ہوا۔ جنازہ جب اسلامیہ کالج کے سامنے سے گزرا تو وہاں بڑا ہی رقت آمیز منظر دیکھنے میں آیا۔ چھوٹے چھوٹے یتیم بچے، اپنی ہی تیار کردہ سیاہ کاغذ اور کانوں کی جھنڈیاں اٹھائے قطار در قطار نظم و ضبط سے کھڑے تھے۔ اس ماتمی جلوس میں شہر اور صوبہ پنجاب کی سرکردہ ہندو، مسلمان اور عیسائی شخصیات بھی شریک تھیں۔ گورنر پنجاب، ہز ہائی نس بہاولپور کے پرائیویٹ سیکرٹری، ہائی کورٹ کے جج، وزراء اعلیٰ، حکام اور عمائدین قوم، سوگوار عوام کے آگے آگے چل رہے تھے۔ شاہی مسجد کے اندر پہنچ کر نماز جنازہ ادا کی گئی اور جسد خاکی سپرد خاک کیا گیا۔ ‘‘

تازہ ترین