• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان ریئل اسٹیٹ مستقبل کی اہم صنعت بن جائے گی

پاکستان ریئل اسٹیٹ  مستقبل کی اہم صنعت بن جائے گی

پاکستان ریئل اسٹیٹ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگائیے کہ مکان، دفتر ہر فرد کی ناگزیرضرورت ہے،جس کی طلب میں کبھی کمی نہیں آئے گی اس لیے ہم اس صنعت کو سونے کی کان بھی کہتے ہیں جہاں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع نہ صرف پاکستان بلکہ بیروں ملک بھی ہیں۔2016-17 کے بجٹ میں پراپرٹی ٹیکس بڑھائے جانے سے اس صنعت میں جمود آیا لیکن اب پھر یہ اپنی مکمل رفتار سے کام کررہی ہے ۔ملک بھر میں میگا پروجیکٹس بن رہے ہیں ج کی تکمیل سے ہم یک لخت بین الاقوامی ممالک کی صف میں کھڑے ہوجائیں گے۔

ایسے میں حکومت کی طرف سے املاک کی خرید و فروخت پر ٹیکس بڑھانے کےاقدام اور ایف بی آر کی جانب سے ایویلیو ایشن کی مد میں تیس فیصد اضافہ کسی طور دانش مندانہ اقدام نہیں۔ان مشکلات کے باوصف اس شعبے میں ہونے والے ترقیاتی کام اس امر کی دلیل ہیں کہ پاکستانی ماہرینِ تعمیرات اور بلڈرز نے حوصلہ نہیں ہارا۔ٹیکسز کے بڑھنے کے منفی و مثبت دونوں اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ کم لین دین سے املاک کی قیمتوں میں کمی آئی ہے۔تاہم انڈسٹری کے بڑھتے اخراجات نے کئی پروجیکٹس کی تعمیراتی سرگرمیوں کو منجمد بھی کردیا ہے ۔

دوسری جانب میگاپروجیکٹس سے املاک کی قیمتیں کروڑوں کو چھو رہی ہیں جن کی خریداری عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوچکی ہے ۔تیسری جانب مسابقتی کمیشن آف پاکستان(سی سی پی) نے ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں مسابقت سے متعلقہ خدشات پر اسلام آباد ،لاہور اور کراچی میں کھلی سماعت کا انعقاد کیاجس میں اس معاملے پر تمام اسٹیک ہولڈرز کی رائے لی گئی، جس کے شرکا میں ریئل اسٹیٹ ایسوسی ایشنز، بلڈرز، ڈیولپرز، مارکیٹرزاور صارفین کی بڑی تعداد شامل تھی۔سماعت کے دوران کہا گیاکہ ریئل اسٹیٹ سیکٹر کا پاکستان کے معاشی ترقی اور فروغ میں نہایت اہم کردار ہے جس کے تحت وہ سالانہ قومی آمدنی، مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کو متوجہ کرنے اور روزگار فراہم کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کررہا ہے۔ 

اس لیے عوام کی ان شکایت کا سدِ باب کیا جائے کہ ملک بھر میں کچھ ہاؤسنگ سوسائٹیز گمراہ کن مارکیٹنگ کےذریعے دھوکا دے رہی ہیں جیسا کہ سہولتوں کی فراہمی کے بارے میں جھوٹے دعوے، اہم معلومات کو چھپانا مثلاً ترقیاتی چارجز، ہاؤسنگ اسکیم کے اہم مقامات سے فاصلے اور متعلقہ اداروں کی منظوری سے متعلق غلط حقائق وغیرہ ۔اتناہی نہیں عالمی بینک نے بھی اسٹیٹ بینک کے ساتھ مورگیج فنانس پر معاہدہ کیا ہے جس کے تحت کم متوسط آمدنی رکھنے والے خواتین وحضرات کو گھر کی فراہمی کے لیے سرمایہ مہیا کیا جائے گا۔یہ اقدام تعمیراتی صنعت کے مستقبل روشن کی دلیل ہیں۔

دبئی ریئل اسٹیٹ میں پاکستانیوں کی سرمایہ کاری

پاکستان ریئل سٹیٹ ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنی اہمیت کا لوہا منوا رہا ہے۔ نہ صرف پاکستان بلکہ خلیجی ممالک بالخصوص متحدہ عرب امارات کے معاشی حب دبئی میں اپنی بنیادیں مضبوط کرتے ہوئےگزشتہ پانچ برسوں کے دوران دبئی ریئل اسٹیٹ میں پاکستانیوں نے 8 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جبکہ 2013ء اور 2014ء کی درمیانی مدت میں پاکستانیوں نے دبئی میں تقریباً 4 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔2013ء اور 2014ء کی درمیانی مدت میں پاکستانیوں نے دبئی میں 16 ارب یو اے ای درہم یعنی 441.76 ارب روپے کی مالیت کی املاک کی خریداری کی۔ پاکستانیوں نے 2014ء کے دوران 7.5 ارب درہم یعنی 207.075 ارب روپے مالیت کی جائیداد کی خریداری کی، چنانچہ وہ دبئی میں غیرملکی خریداروں کی فہرست میں دوسری بڑی درجے پر رہے۔

دبئی لینڈ ڈیپارٹمنٹ کے اعدادوشمار کے مطابق 2013ء میں 8.6 درہم کی سرمایہ کاری کی بنیاد پر 2014ء اور 2013ء میں پاکستانیوں کی کل خریداری 16.1 ارب درہم رہی۔مارکیٹ ذرائع کا کہنا ہے کہ سیاسی رہنما، سرکاری حکام اور کاروباری شخصیات دبئی کی املاک کے اہم خریدار تھے۔ایک اسٹیٹ ایجنٹ کا کہنا تھا کہ 2008ء کے بعد زیادہ تر کاروباری شخصیات نے اپنا سرمایہ واپس نکال لیا تھا۔ ایک بلڈر نے اس امکان کو مسترد کردیا کہ دبئی میں شروع کیے گئے نئے پروجیکٹ کے لیے کسی جائیداد کو کسی بلڈر یا ڈیویلپر نے چھوڑ دیا تھا۔ بلڈرز کراچی میں بہت زیادہ مصروف رہے، جہاں جائیداد کی طلب بہت زیادہ بڑھی ہوئی ہے۔دبئی میں برطانیہ سے کی جانے والی سرمایہ کاری گر کر 2014ء 9.318 ارب درہم ہوگئی تھی، جبکہ 2013ء میں یہ 10.4 ارب درہم تھی۔

گزشہ برس کے نصف عرصے میں پاکستانیوں نے دبئی میں 3 ارب اماراتی درہم (85 ارب روپے) کی پراپرٹی خریدی، دبئی لینڈ ڈپارٹمنٹ کے مطابق گزشتہ ڈیڑھ سال میں پاکستانیوں نے دبئی کی رئیلٹی مارکیٹ میں 18 ارب درہم (512 ارب روپے) سے بھی زائد رقم کی سرمایہ کاری کی۔2015 میں 8 ارب درہم کی پراپرٹی ٹرانزیکشن کے ساتھ پاکستانی تیسرے نمبر پر رہے۔ 'مقامی تاجروں کے بجائے ہمارے سیاستدان، بیوروکریٹس اور کچھ دیگر خریداروں نے دبئی میں پراپرٹی خریدی ہے۔ تاجروں نے ٹیکس ریٹرنز پر دہندگان اور نادہندگان پر 0.3 سے 0.6 فیصد کے وِد ہولڈنگ ٹیکس متعارف ہونے کے بعد اپنے پیسے نکال کر بیرون ملک منتقل کردیئے ہیں۔

پاکستانی تعمیرات اور مستقبل

پاکستان میں صفِ اول کے اداروں کی جانب سے میگا پروجیکٹس نے جہاں زمینوں کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کرکے عام آدمی کے لیے چھت کاخواب ناممکن بنا دیا ہے وہیں ان پروجیکٹس کی تکمیل سے نئے شہر آباد ہوجائیں گے جہاں ایک ہی چھت تلے تمام سہولتیں دستیاب ہوں گی تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انتہائی لگذری طرزِ رہائش رکھنے والے ہمارے ہاں کتنے افراد ہیں۔ زیادہ تر بڑے منوبے ان اشرافیہ کلاسز کے لیے بنائے گئے ہن جو زیادہ تر بنگلوں کے مالک ہیں اور انہیں رہائش سے زیادہ ایسے بڑے پروجیکٹس میں پارٹنر بننے کی طلب ہوتی ہے لہٰذا ہمیں متوسط اور نچلے افراد کی ضروریہات کے پیشِ نظر مستقبل کا منظر نامہ ترتیب دینا ہوگا۔

تازہ ترین