• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
 ایک گلک سے جڑ ےکئی خواب جو ادھورے رہ گئے

راجہ کمہار .. راج کمار نہیں راجہ کمہار ..بچپن سے چاک پر گلک بناتا آرہاہے ۔اسے لگتا ہے گلک کی شکل اور اس کی قسمت ایک جیسی ہی ہے۔ نہ کبھی گلک کی شکل بدلی نہ سالوں سے اس کی قسمت ۔

گلک، پاکستان اور بھارت کے معصوم بچوں کا وہ’ سیونگ بینک‘ ہے جو تانبے اور پیتل کے سکوں سے بھرنے کے باوجود خالی رہ جاتا ہے۔ کبھی رنگ برنگا گولا گنڈا خریدنے کے لیے تو کبھی آئس کریم کھانے کی خواہش دل میںدبانے کی کوشش ناکام ہونے پر اس سے پیسے نکالنا ہی پڑتے ہیں ۔

راجہ کمہار جانتا ہے کہ یہ گلک کبھی نہیں بھرے گی مگر اسے بھرنے کی چاہ ہر بچے میں ہمیشہ خوا ب رہے گی ، اسی لیے نہ صرف وہ چاک پر گلک بناتا ہے بلکہ خود ہی انہیں تیار کر کے ٹھیلے پر فروخت بھی کرتا ہے ۔

ویسےتو اس کا مستقل ٹھکانا کے ڈی اے مارکیٹ گلشن اقبال کراچی ہے لیکن جب کے ایم سی والے ٹھیلوں کو ہٹانے اور ناجائزتجاوزات ختم کرانے آتے ہیں تو وہ گلی گلی پھیرے بھی لگاکر سامان بیچتا اور اپنا پیٹ پالتا ہے۔

کچھ بچے عید آنے تک اپنی گلک بھرنے کا عزم لیے خرید لیتے ہیں تو کچھ انہیں خریدتا دیکھ کر اگلی بار خود بھی اسے خریدنے کا ارادہ کر بیٹھتے ہیں ۔ راجہ کمہار آہستہ آہستہ اپنا ٹھیلہ اور زندگی کا بو جھ لیے گلی کے دوسرے کونے سے اگلی منزل کی طرف غائب ہو جاتا ہے اوربچے دوبارہ کھیل میں لگ جاتے ہیں ۔

نئی صبح ہو تی ہے پھر وہی راجہ کمہار، وہی ٹھیلہ، وہی بچوں کی خواہش اور وہی گلکوں کو بھرنے کی نئی چاہتوں میں لپٹی خریداریاں شروع ہو جاتی ہیں ۔

نمائندے سے راجہ کمہار سے یو نہی ایک سوال کیا تووہ کندھے پر پڑے گم چھے سے پسینہ پونچھتے ہوئے ڈھیلے بانوں کی چارپائی پر بیٹھ گیا اور بولا’ گلک پانچ روپے سے پچاس روپے کی ہو گئی مگر نہ میرا باپ اسے کبھی بھر سکا اور نہ شاید کبھی میں اسے بھر سکوں گا ۔میرا بھی ایک بیٹا ہے ہیرا ۔ وہ اپنی ماں کو مجرم سمجھتا ہے۔۔۔ ریشماں بھی کیا کرے۔ چائے کی پانچ دس روپے والی پتی کی تھیلی بھی گھر میں نہ ہوتو تھک ہا ر کر خاموشی سے ہیرا کی گلک سے پیسے نکا ل لیتی ہے ۔‘

راجہ کے بقول ’ہیرا روز گلک کو ہوا میں ہلاکر اس میں مو جود سکوں کو جامنوں کی طرح ہلا ہلا کر رقم کا اندازہ لگاتا ہے۔ کم ہوں توماں پر برستاہے ۔فر ش پر لیٹ کر گلک کے چھوٹے سے سراخ سے بال پن کی مدد سے کئی بار سارے سکے نکال لیتا ہے کہ نہ سکے ہوں گے۔۔ نا ماں اس کی خواہش پوری ہونے کی راہ میں رکاوٹ بنے گی ۔‘

دو چار دن یونہی سلسلہ چلتا ہے ، ہیرا اپنی چھوٹی چھوٹی کمائی سے بچاکر پھر کچھ سکے جمع کر لیتا ہے اور پچھلا سب کچھ بھول کر ایک مرتبہ پھر گلک میں سکے جمع کرنے لگتاہے ۔

مگر اس بار گلک کے سامنے والے طاق میں رکھنے کے بجائے پلنگ کے نیچے زنگ آلود مگر لوہے کے پشتینی صندوق میں کپڑے کے نیچے چھپادیتا ہے ۔ وہ سوچے بیٹھا ہے عید آئے گی تو پیسے نکال اس دن دل کھول کرکچوری ، مٹھائی ، آئس کریم کھائے گا اور’ پیسی‘ پئے گا ۔

کئی برس کی یہ خواہش اس بار تو پوری ہو ہی جائے گی یہی سوچ کر اس نے فیکٹری میں بھی کام کرنا شروع کر دیا۔نئے کام سے پیسے اور سب کی نظروں سے چھپاکر اس نے گلک کی جمع پونجی میں بھی اضافہ کردیا ۔راجہ اور ریشماں خوش تھے کہ چلو اوپر کے پائو ں آگئے خرچہ کسی حد تک ہی سہی پورا ہونے لگا ۔

سردی سمٹی، گرمی سکڑی اور برسات نے پنکھ پسارلئے۔ شروع شروع میں برکھا کا برسنا اچھا لگا ۔ پر گھٹا چھائی بادل پھٹا تو شہر کے ناقص نکاسی آب کے نظام نے مسئلے پیدا کردیئے۔ جگہ جگہ پانی کھڑا ہوگیا۔

مکھی مچھروں کی بہتات ہوگئی۔ راجہ کے گھر کے قریب جگیوں اور پختہ وہ نیم پختہ مکانات کے کنارے کنارے بہنے والا گندا نالہ امڈ آیا۔ گھر گھر بیماریاں پھیلنے لگیں۔ ہیرا کی چھوٹی بہن ’چاندی‘ بھی اس کی لپیٹ میں آگئی۔

ڈاکٹروں کے پاس راجہ کے چکر بڑھنے لگے، ٹیسٹ اور دوا کے اضافی اخراجات نے کمر توڑ دی۔ کافی جانچ پڑتال کے بعد ڈاکٹروں نے چاندی کو جو بیماری بتائی اس کا نام سن کر بھی راجہ، ریشماں اور ہیرا کی سمجھ میں نہیں آیا۔

پھر چاندی کو ڈ ینگی وائرس سے متاثر ہونے کی خبر پر لگاکر اڑتی ہوئی پنجاب جا پہنچی تو ’ربڑبینڈ‘ سے بندھے پرانے موبائل فون پر راجہ کی ماں کا فون آگیا۔ بولیں ’ہم تو پہلے ہی خلاف تھے، شہر مت جائو مگر تم نے سنا ہی کب؟ برسوں وہاں کمانے کے بعد بھی ہم سے ہی پیسے مانگ رہے ہو۔ کام جو کرتے ہو اس کی شہر میں اب ’مانگ‘ ہی کہاں رہی ۔خیر سمجھو تو واپس آجائو۔یہاں سب ہیں اپنا مکان بھی اور تھوڑی بہت زمین بھی۔ محنت مزدوری کرتے رہنا۔‘

اس رات راجہ کو نیند نہیں آئی۔ کروٹیں بدلتا رہا۔ اماں نے سچ کہا تھا۔ شہر سے کوزہ گری کا فن ختم ہوگیا ہے۔لوگ اس کے فن کوکوڑیوں کے دام خریدتے ہیں۔کئی ہفتوں کی چاک گری، بھٹی میں پکائی، رنگ روغن کاخرچہ پھر گلی گلی پھیری لگانے والی انتھک محنت ۔۔اس سے اب حاصل وصول کچھ نہیں ہونے والا۔

صبح ہوتے ہوتے راجہ نے فیصلہ کرلیا کہ پنجاب واپس چلا جائے گا۔ دوپہر کے کسی پہر اس نے ریشماں کو بھی بہلا لیا۔ کہا چاندی بیمار ہے۔ آب و ہوا بھی تبدیل ہوجائے گی ۔۔۔ دوائوں اور ٹیسٹوں کا خرچ بھی بچ جائے گا۔ گھر چلتے ہیں۔ سب اپنے لوگ ہیں، دکھ بٹ جائے گا۔‘

ریشماں بھلا کیا جواز لاتی، اولاد کی خاطر ہاںکردی۔ بس انتظار تھا تو یہ کہ ذراچاندی کا بخار اتر جائے، درد ختم ہوجائے، طبیعت سفر کرنے کے قابل ہوجائے تو رخت سفر باندھتے ہیں۔

ہیرا واپس جانا نہیں چاہتا تھا ۔ اسے شہر میں رہنا بھاگیا تھا ۔ اسے تو بس عید کا انتظار تھا۔ گلک بھی اب بس۔۔ بھرنے ہی والی تھی۔۔۔ عید بھی سر پر کھڑی تھی۔

۔۔لیکن عید کی قریب سے قریب آمد نے اماں کے واپسی کے مطالبے میں بھی اضافہ کردیا ۔ راجہ اور ریشماں کو منع کرنے میں بھی لاج آنے لگی تھی مگر کس سے کہتے کی جو چار پیسے تھے وہ چاندی کی طبیعت سنبھلتے سنبھلتے خرچ ہوگئے۔ اب عید آگئی تو کرائے بھی بڑھ گئے۔ ٹرینوں میں کئی ہفتے پہلے ہی جگہ ختم ہوگئی تھی اب کیا کریں۔

راجہ کے لئے یہ خیال کسی اژدھے کی طرح منہ پھاڑے کھڑا تھا۔ پیچھے ہٹتا تو کھانے کے لالے تھے اورگائوں جانے کے لئے پونجھی نہیں تھی۔ ادھر جس دن سے ہیرا نے فیکٹری میں گائوں جانے کا ارادہ کیا تھا اسی دن سے اس کی دھاڑی رو رو کر ملنے لگی تھی۔

اسی ادھیر بن میں مگن راجہ کے چہرے پر خوشی کی چمک ا ٓگئی ۔اس نے ریشماںکو ہمراز بنایا اور شام کو ہیرا واپس آیا تو’میٹنگ ‘شروع ہوگئی۔ ہیرا پہلے تو مانا ہی نہیں۔ اس پر راجہ نے منت سماجت کی۔۔ ریشماں نے ممتا کے واسطے دیئے، جھوٹے سچے وعدے کئے تو لاچار ہیرا نے ہتھیار ڈال دیئے۔

مسلسل کئی ماہ کی محنت اور چاہت کے بعد کل ملاکر ڈھائی ہزار سے بھی کم جمع پونجھی گلک سے نکلی۔راجہ کو یقین تھا کہ اتنے کم پیسوں کے باوجود دو فل اور ایک ہاف ٹکٹ مل ہی جائیں گے۔ چاندی کا کیا ہے گود میں ہی بٹھا رکھیں گے۔

اگلے جمعے کوآنے میں دیر نہیں لگی شام کے چار پانچ بجے کا وقت ہوگا کہ جب چاروں افراد پنجاب واپسی کے لئے گھر سے نکلے ۔ دو چار چھوٹے بڑے شاپنگ بیگ کے علاوہ گھر میں تھا ہی کیا جو ساتھ لے جاتے۔البتہ ہیرا نے ایک کالے رنگ کا ’شاپر ‘بڑی احتیاط سے اپنے بائیں ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا۔ راجہ نے اس بارے میں پوچھا بھی تو ہیرا ٹال گیا۔

شام کے ملگجے میں جب چاروں گلی پھلانگ کر چوڑے سے میدان کو عبور کرنے لگے۔اسی میدان کے آخری کونے پر کچرا کنڈی تھی جہاں جاکر ہیرا ایک لمحے کے لئے رک گیا۔ بالکل ساکت۔ پھر یکایک پوری قوت کے ساتھ اس نےکچرا کنڈی کی دیوار پر ’شاپر‘ دے مارا۔

کمزور شاپر فورا ہی پھٹ گیا اور اس میں رکھی ہیرا کی خالی گلک بھی چکنا چور ہوگئی۔

شائد ہیرا نے بھی یہ حقیقت تسلیم کرلی تھی کہ اس کی گلک بھی ضرورت کے ہاتھوںکبھی نہیں بھرے گی۔ پھر خالی گلک رکھ کر وہ کیا کرتا۔ ہیرا نے اپنی گیلی آنکھوں کو آستین سے رگڑا اور پھر تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا کچھ فاصلے پر چل رہے راجہ، ریشماں اور چاندی کے ہمقدم ہوگیا۔

مگر کچرے کے ڈھیر پر پڑی خالی گلک اسے اب بھی منہ چڑاتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔ لیکن وہ اب اس کا ذکر بھی کسی سے نہیں کرنا چاہتا تھا۔ کیا بتاتا کہ ایک گلک سے جڑے کتنے خواب تھے جو ادھورے رہ گئے۔۔۔ کتنی خواہشیں تھیں جو نامکمل رہ گئیں۔

تازہ ترین