• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سولر پینل لگائیں، زندگی آسان بنائیں

2016 تک ضلع ٹھٹہ کےگرڈ اسٹیشن سے بجلی وہاں کے باسیوں تک نہیں پہنچی تھی لیکن وہاں کے ایک ماہی گیر یوسف محمد نے چائے کی ٹرے جتنا ایک چھوٹا سا 20 واٹ کا پینل لگالیا تھا یعنی انہوںنے شمسی توانائی کااستعمال شروع کردیا تھا۔ اس کی لاگت تین ہزار روپے بھی نہیں تھی اور ڈی سی کنورٹر یا کار فون چارجر سے منسلک یہ پینل روزانہ دن میں ایک بار موبائل فون کی بیٹریز چارج کرتاتھا۔ اس پینل کو یوسف اپنے فشنگ ٹرالر میں بھی لے جاتا اور مفت کی بجلی استعمال کرتا تھا۔

ہم جہاں رہتے ہیں وہاں اکثر لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے، بجلی کے بار بار تعطل کے نتیجے میں گھر کی مصنوعات کو ہونے والے نقصان سے بچنے کیلئے ہمیں توانائی کے متبادل ذریعے کو تلاش کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔ جس کا سب سے آسان اور سستا حل سولر پینل ہے۔

اگر 5 کلو واٹ کا سولر سسٹم خرید لیا جائے تو اس سے بجلی کا بل 30ہزار روپے ماہانہ سے کم ہو کر دو ہزار تک آسکتاہے۔ اس پاور میں گھر کے پنکھے، ٹیلیویژن، فریج، فریزر، ایئرکنڈیشنر، واشنگ مشین اور واٹر پمپ چل سکتے ہیں ۔ رات کےلیے بیٹریوں میں جمع ہونے والی بجلی استعمال کرسکتے ہیں جو دن بھر چارج ہوتی رہتی ہیں۔

اگر متعدد صارفین کے دعوؤں پر جایا جائے، تو ایسی مصنوعات جنھیں پاور سسٹم سے بہت زیادہ بجلی درکار ہوتی ہے وہ بھی شمسی توانائی سے بغیر کسی مشکل کے کام کرتی ہیں، بیشتر افراد وضاحت کرتے ہیں کہ بیک اپ بیٹریوں کا انتخاب استعمال کے مطابق کیا جاتا ہے، مثال کے طور پر کسی کو گھر میں 200 ایمپیئر فی کس والی بارہ ٹرک بیٹریوں کی ضرورت پڑ ستکی ہے جو کہ ان کی توانائی ضروریات پوری کرسکتی ہیں۔

سولر پینلز کو زیادہ جگہ درکار نہیں ہوتی اور انہیں چھت پر نصب کیا جاسکتا ہے، آج کل متعدد گھروں میں ان پینلز کو دیکھا جاسکتا ہے اور ان کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔

کراچی میں الیکٹرونکس مارکیٹ کی ہر دوسری دکان میں سولر پینلز فروخت کیے جارہے ہیں، اگرچہ تین طرح کے سولر پینلز دنیا بھر میں استعمال ہوتے ہیں، سنگل کرسٹل سیلیکون پینلز یا monocrystalline، پولی سیلیکون پینلز یا پولی کرسٹلائن اور ٹی ایف ٹی پینلز، مگر صارفین اکثر سنگل کرسٹل سیلیکون یا پولی سیلیکون پینلز کا انتخاب کرتے ہیں، طلب کی وجہ سے مارکیٹ میں ان کی بھرمار ہے۔

اگر دونوں کی فروخت کا موازنہ کیا جائے تو سنگل کرسٹل سیلیکون پینلز زیادہ فروخت ہوتے ہیں کیونکہ یہ ابر آلود موسم میں بھی کام کرتے ہیں، جبکہ پولی سیلیکون پینلز کو سورج کی زیادہ روشنی درکار ہوتی ہے، یہ اگرچہ سستے ہوتے ہیں مگر آج کل بیشتر افراد ابر آلود موسم میں کام کرنے والے پینلز کا انتخاب کررہے ہیں۔

اگر فرق دیکھا جائے توان دونوں قسم کے پینلز کے درمیان کچھ ایسا ہی ہے جیسے ایک فور اسٹروک انجن اور ایک ٹو اسٹروک انجن کے درمیان، فور اسٹروک انجن کی پک اپ اچھی ہوتی ہے مگر گرم ہونے کے بعد کارکردگی ختم ہوجاتی ہے، دوسری جانب ٹو اسٹروک انجن گرم ہونے کے بعد زیادہ اچھا چلتا ہے، سنگل کرسٹل سیلیکون پینلز کو فور اسٹروک انجن کہا جاسکتا ہے جبکہ پولی سیلیکون پینلز ٹو اسٹروک انجن سمجھے جاسکتے ہیں۔

کونسا سسٹم زیادہ بہتر رہے گا، اس کے تعین کے لیے صارفین کے پاس ایک اور طریقہ کار بھی ہے، ان میں سب سے مقبول قسم ہائیبرڈ سسٹم ہے، جو کہ گرڈ سے یا ونڈ ٹربیون سے بھی منسلک ہوجاتا ہے اور رات کو بھی بیٹریوں کو چارج رکھتا ہے۔

جہاں تک ونڈ ٹربیون کی بات ہے تو اس طرح کا پاور سسٹم پاکستان میں زیادہ کامیاب نہیں ہوسکا کیونکہ اس کے لیے کم از کم 12 ناٹیکل میل کی رفتار سے چلنے والی ہواؤں کی ضرورت ہوتی ہے، 'ہوا میں نمی اور مٹی ونڈ سسٹم کو زنگ آلود اور ناکارہ بنا دیتے ہیں، اس کے مقابلے میں سولر پینلز زیادہ موثر ہیں۔

ایک گھر میں ایک سولر سسٹم کی لاگت کے فارمولے کو یوںسمجھا جاسکتاہے کہ تخمینے کا آغاز چالیس روپے کی ایک بیٹری سے ہوتا ہے، جس کو واٹس اور گھنٹوں سے ضرب دی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کو چوبیس گھنٹوں کے لیے ایک ہزار واٹ کی ضرورت ہے تو اس فارمولے کے مطابق 40x1000wattsx24 hours کا اطلاق ہوگا۔

یہ لگ بھگ 9 لاکھ 60 ہزار روپے بنتے ہیں اور عام طور پر ان میںآلات و مشنری نصب کرنے کے اخراجات بھی شامل ہوتے ہیں۔تاہم 'اس لاگت میں کمی لائی جاسکتی ہے اگر آپ مقامی بیٹریاں استعمال کریں، جو کہ 40 روپے کے فارمولے کو 25 روپے تک لے آتی ہیں، جسے ایک ہزار واٹ اور پھر 24 سے ضرب دی جائے تو لاگت چھ لاکھ روپے ہوسکتی ہے۔

اسی طرح اگر آپ چوبیس گھنٹے سولر پاور استعمال نہیں کرنا چاہتے بلکہ صرف لوڈ شیڈنگ کے دوران استعمال کرتے ہیں تو آپ کو گھنٹوں کو کم کرنا ہوگا، جیسے چھ گھنٹے، پھر یہ فارمولا کچھ اس طرح ہوگا 25x1000x6 جو کہ ڈیڑھ لاکھ بنتا ہے، آج کل بیشتر افراد اس آپشن کو ترجیح دیتے ہیں۔

پاکستان میں سورج کی تپش بہت زیادہ ہوتی ہے اور ماہرین زور دے کر کہتے ہیں کہ پاکستان میں سورج کی ریڈی ایشن اور درجہ حرارت کا موازنہ جرمنی سے کیا جائے تو پاکستان میں سولر پینلز سے 33 فیصد زیادہ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے، اس حوالے سے یہ امر قابل ذکر ہے کہ جرمنی نے مئی2016ء میں اس ذریعے سے 45.5 گیگا واٹس بجلی پیدا کی تھی، جبکہ مجموعی طلب 45.8 گیگا واٹ ہے۔

شمسی توانائی پر منتقل ہونے کے حوالے سے ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ اپنے بجلی کے لوڈ کو ایل ای ڈی لائٹس اپنا کر کم کیا جائے جو کہ بہت کم کرنٹ استعمال کرتے ہیں جبکہ ان کی زندگی بھی طویل ہوتی ہے، یہ مہنگے تو ہوسکتے ہیں مگر طویل المیعاد عرصے کے حوالے سے کفایتی بھی ہوتے ہیں۔ 

اسی طرح انورٹر والے ریفریجریٹرز، فریزر اور ایئرکنڈیشنرز بھی مقبولیت حاصل کررہے ہیں، حالانکہ ان کی قیمت عام مصنوعات کے مقابلے میں تیس ہزار روپے سے زیادہ ہوسکتی ہے۔مارکیٹ میں توقع کی جارہی ہے کہ شمسی توانائی گھریلو صارفین کا انتخاب بنے گی، موجودہ حالات میں یہ شہریوں کے لیے لوڈشیڈنگ سے نجات کا واحد ذریعہ ہے جو کہ سورج کی بدولت طویل عرصے تک کے لیے کارآمد ہے۔متبادل توانائی کے بہت سارے ذرائع قدرت نے ہمیں دیے ہیں۔ ان کا دانشمندانہ استعمال کرکے ہم بہت سے مسائل سے بچ سکتے ہیں اور ایک آرام دہ زندگی گزار سکتے ہیں۔ 

تازہ ترین