• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آسٹریلوی کرکٹ کا اصل چہرہ نمایاں

جوہانسبرگ ٹیسٹ شروع ہوا تو یہ آسٹریلیا کا جنوبی افریقا میں چوتھا اور آخری ٹیسٹ تھا،1970 سے پروٹیز کے دیس میں ٹیسٹ سیریز میں ناقابل شکست چلی آرہی آسٹریلوی ٹیم جہاں اس ریکارڈ کے کھونے کے خطرے سے دوچار تھی،وہاں کرکٹ کی دنیا میں وہ سب کچھ لٹا کر میدان میں اتری تھی، مقامی تماشائیوں نے جس طرح طنزیہ جملوں سے مزین پوسٹرز اور جملے بازی کرکے کھلاڑیوں کا استقبال کیا،وہ کینگروز کے اصل مقام کی یاد دہانی کے لئے کافی تھا،جوہانسبرگ سے ہزاروں میل دور اسی صبح کرائسٹ چرچ میں انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے ٹیسٹ کے آغاز پر برطانوی تماشائیوں کے مخصوص گروپ بارمی آرمی نے بھی آسٹریلوی کھلاڑیوں کو اپنے انداز میں سلیوٹ کیا۔

دنیائے کرکٹ میں طاقت، پیسے اور اختیارات کی جنگ شروع دن سے جاری ہے لیکن گزشتہ تین دہائیوں سے اس میں سرعت ، جارحیت اور ڈھٹائی جس تیزی سے آئی ہے اس کی مثال اس سے قبل کرکٹ کی 106سالہ تاریخ میں نہیں ملتی، نئی جنریشن کیمروں کی ظاہری تیزی اور مال کی چمک دمک میں شاید الجھی ہو، مگر کون نہیں جانتا کہ 30سال قبل جانبدارامپائرز کے ساتھ آسٹریلوی کرکٹ ٹیم اپنے میدانوں میں بددیانتی کی وہ مثال قائم کیا کرتی تھی کہ جس کی تقلید میں ہمسایہ ملک بھارت بھی پیچھے نہیں تھا، پھر فیلڈ میں بد کلامی، تضحیک آمیز رویہ، غیر ملکی میدانوں میں ناک چڑھا کر اترنا آسٹریلوی کھلاڑیوں کا دوسرا تعارف تھا ۔

کرکٹ کی عالمی تنظیم کا کنٹرول جب تک لندن سے ہوتا رہا تو گوروں کی کچھ قدامت پسندی اور انصاف پسندی دکھائی دیتی رہی۔ انگلش میدانوں میں پاکستان، ویسٹ انڈیز جیسی ٹیمیں نیوٹرل امپائرز کے نہ ہونے کے باوجود فتحیاب رہیں کہ یہ ٹیمیں صلاحیت رکھتی تھیں۔ 

آسٹریلوی کرکٹ کا اصل چہرہ نمایاں

آسٹریلیا کے میلکم ا سپیڈ جیسے لوگ جب کرکٹ آسٹریلیا سے ہوتے آئی سی سی کے ایوانوں میں پہنچے تو ان کے دوسرے بہترین مقلد بھارتی کرکٹ حکام کا بھی ان سے گٹھ جوڑ بڑھ گیا ۔چنانچہ پھر کرکٹ کے بین الاقوامی قوانین سے چھیڑ چھاڑ سمیت کرکٹ باڈی کے اختیارات ،پیسے کی تقسیم اور اختیارات کے غیر منصفانہ استعمال نے بگ تھری سمیت کئی ڈرامے دکھائے، قوانین کا مذاق اڑنا معمول بن گیا، مشکوک بولنگ ایکشن میں کمزور ممالک ہدف بنائے گئے جرمانوں اور معطلیوں میں جانبداری دکھائی دی، لیگز کے بے تحاشا انعقاد اور پیسے کی ریل پیل نے شرفاکے کھیل کو ڈبلیو ڈبلیو باکسنگ کے تماشے سے بھی آگے کر دیا ۔ 

گزرے سالوں میں میچ فکسنگ ، اسپاٹ فکسنگ ، بال ٹیمپرنگ سمیت کئی بڑے واقعات نے یہ ثابت کیا کہ کرکٹ کا کھیل اب شرفاکی فہرست سے باہر نکل رہاہے، کرکٹ کی عالمی تنظیم کے ہیڈ کوارٹر میں بیٹھ کر جب طاقتور ممالک من چاہے فیصلے کریں، بھارتی بورڈ آئی سی سی کو کھلی دھمکیاں دے، آسٹریلوی بورڈ اپنی مرضی مسلط کرے تو پھر میدانوں میں موجود کرداروں سے کیا توقع کی جا سکتی ہے ۔ 

بھارت کے ویرات کوہلی کو بھی گزشتہ سال بال سے چھیڑ چھاڑ کرتے دیکھا گیا پاکستان اور انگلینڈ کی 2016ء کی ٹیسٹ سیریز میں بھی یہ آواز بلند ہوئی مگر بڑی خوبصورتی سے اسے ٹال دیا گیا ۔ جنوبی افریقا ٹیم کا توڑ آسٹریلوی کیمپ نے یہ نکالا کہ بد دیانتی اور فراڈ کر کے ٹیسٹ جیتا جائے ، بال ٹیمپرنگ کی پرانی روش کو نئے انداز میں کرنا مہنگا پڑ گیا ،اسٹیون اسمتھ کیمپ کی اخلاق سے گری بد اخلاقی کا اثر آسٹریلوی میڈیا سمیت عوام اور غیر ملکی کرکٹ حلقوں نے لیا اس کے نتیجہ میں بورڈ کے چیف ایگزیکٹو جیمز سدرلینڈ کو راتوں رات جوہانسبرگ جانا پڑا ابتدائی تحقیقات کے بعد پہلے کھلاڑیوں کو سیریز سے باہر نکالا گیا اور پھر وارنر اور اسمتھ پر ایک ایک سال جبکہ بین کرافٹ پر 9ماہ کی پابندی لگانی پڑی کوچ ڈیرن لیہمن کو بے قصور گردانا گیا ، اس واقعے پر آئی سی سی کا قانون اتنا ہی حرکت میں آیا کہ جتنا تھا کپتان ایک میچ کے لئے معطل ہوئے باقی کھلاڑیوں پر جرمانے لگ گئے گویا آئی سی سی نے معاملہ ختم کر دیا ،یہ بات واضح رہے کہ آسٹریلوی بورڈ کی فیصلے میں تیزی اور کھلاڑیوں کی معطلی محض اعلیٰ اخلاقی مثال نہیں ہے،بلکہ اس جرم میں ملوث آدھی سے زیادہ ٹیم کو بچانے کے لئے یہ سب کیا گیا ہے،بورڈ بھی جانتا ہے کہ یہ مرض کتنا پرانا ہے، کرکٹ آسٹریلیا نے اپنی جانب سے مستقبل کی کرکٹ کو بہتر کرنے، دنیا کو بہتر اخلاقی میسج دینے کے لئے یہ سزائیں دیں ۔

سوال یہ ہے کہ کیا یہ کافی ہیں؟ آسٹریلین کرکٹ کا کلچرل یہی ہے اسے معطل کرنے کی ضرورت ہے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کو اس حوالہ سے توجہ کرنا ہو گی اور پاکستان ، بنگلہ دیش، ویسٹ انڈیز، انگلینڈ، جنوبی افریقا اور نیوزی لینڈ جیسے کرکٹ ممالک کو مضبوط حکمت عملی کے ساتھ آسٹریلیا بورڈ کو برابری کی سطح پر لا کر کھیلنا ہو گا ۔

تازہ ترین
تازہ ترین