• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی احتساب بیورو کی جانب سے آمدن سے زائد اثاثوں،کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال پر سابق صدر پرویز مشرف، جمعیت علمائے اسلام کے رہنما اور وفاقی وزیر اکرم درانی اور مسلم لیگ (ق) کے رہنما مونس الٰہی کے علاوہ اہم مناصب پر فائز رہنے والی متعدد غیر سیاسی شخصیات کے خلاف بھی تحقیقات کی منظوری سے واضح ہے کہ ملک کو کرپشن سے نجات دلانے کیلئے احتساب بیورو نے اپنی سرگرمیوں کادائرہ وسیع تر کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جس کی ضرورت کا اظہار سماجی اور عوامی حلقے مسلسل کرتے رہے ہیں ۔چیئرمین نیب جسٹس (ر)جاوید اقبال کی صدارت میں جمعہ کو نیب کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میںقومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے الزام میں درجنوں بااثر افراد کیخلاف کرپشن، کک بیکس اور آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزامات کے ابتدائی جائزہ کے بعد نیب کو انکوائری کرکے مقدمات کو حتمی شکل دینے کی ہدایت کی گئی۔اس فہرست میں شامل چند نمایاں ادارے اور شخصیات یہ ہیں: صدر بینک آف پنجاب،ایم ڈی پی ایچ اے فائونڈیشن،سابق چیئرمین آئی این سی ایل ،ایف بی آر اور وفاقی ٹیکس محتسب افسران،کیوبا میں پاکستانی سفیرکامران شفیع،سابق ڈی جی ریلوے غلام قریشی ،پی ایچ اے کے پی کے افسران و اہلکار، جمیل احمد خان ایم ڈی/ سی ای او پی ایچ اے فائونڈیشن،ظفر یاب خان،امتیاز عنایت الٰہی سابق چیئرمین سی ڈی اے ، نیشنل بنک بحرین کے افسران نیز زکریا یونیورسٹی کے ڈاکٹر اسحاق کیخلاف عدم ثبوت کی بناء پرتحقیقات بند کرنیکی منظوری دی گئی۔احتساب بیورو کی جانب سے مالی بدعنوانیوں کے معاملات کی تحقیقات کے دائرے کو وسعت دینے کی وجہ واضح طور پر یہ ہے کہ کرپشن کا روگ محض سیاستدانوں تک محدود نہیں بلکہ فی الحقیقت یہ مرض ہمارے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ سول و ملٹری بیوروکریسی، ذرائع ابلاغ، تعلیم گاہوں اورتمام ریاستی اداروں کے وابستگان میں بدعنوان عناصر یقینی طور پر موجود ہیں اور بسا اوقات ان کی ملی بھگت ہی سے بڑے بڑے کرپشن اسکینڈل جنم لیتے ہیں۔معاشرے میں نچلی سطح پر کرپشن کے مظاہر تھانوں ، عوامی خدمات کے سرکاری اداروں، ضلعی عدالتوں اور سڑکوں پر ٹریفک پولیس کی رشوت خوری کی شکل میں عام ہیں۔ لہٰذا نیب کے دائرے کا دوسرے شعبہ ہائے زندگی تک وسیع کیا جانا ملک کو کرپشن سے نجات دلانے کیلئے ناگزیر ہے۔ اگر شفاف، غیرجانبدارانہ اور منصفانہ تحقیقات کے لازمی تقاضے پورے کیے جائیں تو متعلقہ افراد اور اداروں کی جانب سے کسی شکوے شکایت کا کوئی جواز نہیں بنتا بلکہ تحقیقاتی عمل میں تعاون ان کا فرض قرار پاتا ہے۔ چیئرمین نیب نے اس امر کی صراحت کی ہے کہ کسی کے خلاف تحقیقات کا مطلب اس کی کردار کشی نہیں ۔ یہ بات اگرچہ درست ہے لیکن ہمارے ہاں تحقیقات کا عمل بالعموم جس طورانجام پاتا ہے ، الزامات کا کوئی یقینی ثبوت سامنے آنے سے پہلے ہی میڈیا ٹرائل کے ذریعے اس کی کردار کشی کی مہم جس دھوم دھام سے شروع کردی جاتی ہے، ان طور طریقوں کا بدلا جانا بھی لازمی ہے ۔ پوری مہذب دنیا کا مسلمہ اصول ہے کہ ہر شخص بے گناہ اور لائق احترام ہے جب تک کہ اس کا مجرم ہونا ثابت نہ ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں میں کسی کے خلاف الزام عائد کرنے سے پہلے ٹھوس ثبوت تلاش کیے جاتے ہیں اور ان کے مہیا ہوجانے کے بعد ہی متعلقہ شخص کو قانون کی گرفت میں لایا جاتا ہے۔لیکن اس کے برعکس ہمارا عمومی اور روایتی طریق کار یہ ہے کہ ثبوت حاصل کیے بغیر اکثر محض الزامات کی بنیاد پر گرفتاریاں عمل میں آجاتی ہیں اور پھر تحقیقات شروع کی جاتی ہے چنانچہ بسا اوقات برسوں کی قید اور تفتیش کے بعد عدالتوں میں جرم ثابت نہیں ہوتا اور ملزم باعزت باری ہوجاتے ہیں جس کے باعث تفتیشی اداروں کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔اس ناخوشگوار اور غیر منصفانہ صورت حال کو ختم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ کسی کے بھی خلاف تحقیقات مکمل اور جرم ثابت ہونے سے پہلے ہر قسم کی مہم جوئی قانوناً ،ممنوع اور قابل سزا قرار دی جائے ۔

تازہ ترین